سنن ترمذي
كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: فضائل و مناقب
31. باب مَنَاقِبِ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ
باب: حسن و حسین رضی الله عنہما کے مناقب کا بیان
حدیث نمبر: 3770
حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْعَمِّيُّ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي نُعْمٍ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ عَنْ دَمِ الْبَعُوضِ يُصِيبُ الثَّوْبَ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: انْظُرُوا إِلَى هَذَا يَسْأَلُ عَنْ دَمِ الْبَعُوضِ وَقَدْ قَتَلُوا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ هُمَا رَيْحَانَتَايَ مِنَ الدُّنْيَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا صَحِيحٌ رَوَاهُ شُعْبَةُ، وَمَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ.
عبدالرحمٰن بن ابی نعم سے روایت ہے کہ اہل عراق کے ایک شخص نے ابن عمر رضی الله عنہما سے مچھر کے خون کے بارے میں پوچھا جو کپڑے میں لگ جائے کہ اس کا کیا حکم ہے؟
۱؎ تو ابن عمر رضی الله عنہما نے کہا: اس شخص کو دیکھو یہ مچھر کے خون کا حکم پوچھ رہا ہے! حالانکہ انہیں لوگوں نے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسہ کو قتل کیا ہے، اور میں نے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے:
”حسن اور حسین رضی الله عنہما یہ دونوں میری دنیا کے پھول ہیں
“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث صحیح ہے،
۲- اسے شعبہ اور مہدی بن میمون نے بھی محمد بن ابی یعقوب سے روایت کیا ہے،
۳- ابوہریرہ کے واسطے سے بھی نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح کی روایت آئی ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأدب 18 (5994) (تحفة الأشراف: 7300) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ سائل نے حالت احرام میں مچھر مارنے کے فدیہ کے بارے میں سوال کیا تھا، ہو سکتا ہے کہ مؤلف کی روایت میں کسی راوی نے مبہم روایت کر دی ہو، سیاق و سباق کے لحاظ سے صحیح صورت حال مسئلہ وہی ہے جو صحیح بخاری میں ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (6155) ، الصحيحة (564)
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 3770 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3770
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ سائل نے حالت احرام میں مچھرمارنے کے فدیہ کے بارے میں سوال کیا تھا،
ہو سکتا ہے کہ مؤلف کی روایت میں کسی راوی نے مبہم روایت کر دی ہو،
سیاق وسباق کے لحاظ سے صحیح صورتِ حال مسئلہ وہی ہے جو صحیح بخاری میں ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3770
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3753
3753. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، ان سے کسی آدمی نے محرم کی بابت سوال کیا کہ اگر وہ مکھی مارڈالے تو اس پر کیا تاوان ہے؟انھوں نے فرمایا کہ اہل عراق مکھی کے قتل کا مسئلہ پوچھتے ہیں جبکہ انھوں نے نواسہ رسول اللہ ﷺ کو شہید کر ڈالا۔ حالانکہ نبی ﷺ نے ان دونوں کے متعلق فرمایا تھا۔ ”یہ دونوں دنیا میں میرے خوشبودارپھول ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3753]
حدیث حاشیہ:
گلزار رسالت کے ان ہردوپھولوں کے مناقب بیان کرنے کے لیے دفاتر کی ضرورت ہے، احادیث مذکورہ سے ان کے مناقب کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، مسئلہ پوچھنے والا ایک کوفی تھا جنہوں نے حضرت حسین ؓ کو شہید کیا تھا۔
اسی دن سے یہ مثال ہوگئی ''الکوفي لا یوفي'' یعنی کوفہ والے وفادار نہیں ہوتے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3753
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5994
5994. ابو نعم سے روایت ہے انہوں نے کہا میں اس وقت حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے پاس موجود تھا جب کہ ایک آدمی نے ان سے مچھر مارنے کے متعلق سوال کیا۔ حضرت ابن عمر ؓ نے پوچھا: تم کہاں کے ہو؟ اس نے بتایا عراق کا باشندہ ہوں۔ انہوں نے فرمایا: اس شخص کو دیکھو مچھر مارنے کے متعلق سوال کرتا ہے حالانکہ ان لوگوں نے نبی ﷺ کے نواسے کو شہید کر ڈالا جبکہ میں نے خود نبی ﷺ سے سنا آپ فرما رہے تھے: ”حسن و حسین ؓ دونوں دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5994]
حدیث حاشیہ:
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے والے بیشتر کوفہ کے باشندے تھے جنہوں نے باربار خطوط لکھ لکھ کر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو کوفہ بلایا تھا اور اپنی وفاداری کا یقین دلایا تھا مگر وقت آنے پر وہ سب دشمنوں سے مل گئے اور میدان کر بلا میں وہ سب کچھ ہوا جو دنیا کو معلوم ہے، سچ ہے۔
اترجوامۃ قتلت حسینا شفاعۃ جدہ یوم الحساب
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5994
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3753
3753. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، ان سے کسی آدمی نے محرم کی بابت سوال کیا کہ اگر وہ مکھی مارڈالے تو اس پر کیا تاوان ہے؟انھوں نے فرمایا کہ اہل عراق مکھی کے قتل کا مسئلہ پوچھتے ہیں جبکہ انھوں نے نواسہ رسول اللہ ﷺ کو شہید کر ڈالا۔ حالانکہ نبی ﷺ نے ان دونوں کے متعلق فرمایا تھا۔ ”یہ دونوں دنیا میں میرے خوشبودارپھول ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3753]
حدیث حاشیہ:
1۔
جامع ترمذی کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ حضرت حسن ؓ اورحضرت حسین ؓ کواپنے پاس بلاتے انھیں سونگھتے اور ا پنے جسم سے چمٹا لیتے۔
(فتح الباري: 123/7)
2۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے سوال پر تعجب کیا کہ اہل عراق عجیب لوگ ہیں،حالتِ احرام میں مکھی مارنے میں تامل کرتے ہیں کہ اس کو مارنا جرم ہے اور اس کی پاداش میں کچھ جرمانہ اداکرنا پڑے گا۔
حالانکہ انھوں نے نہایت بے شرمی اورڈھٹائی سے نواسہ رسول ﷺ حضرت حسین ؓ کو شہید کردیا اور ذرہ بھر بھی غور نہ کیاکہ ان کے قتل کرنے میں ہمیں قیامت کے دن کن کن حالات کا سامنا کرنا پڑے گا اوررسول اللہ ﷺ کی سفارش کے کیونکر اُمیدوار ہوں گے۔
ان لوگوں کی فہم وفراست پر رونا آتا ہے کہ حقیر سی چیز کے متعلق دریافت کرتے ہیں کہ مکھی مارنے سے محرم پر کیا تاوان اورجرمانہ پڑتا ہے اور عظیم ترین شخصیت کے قتل کرنے میں مکمل طور پر دلیرہوکر بے حیائی کا مظاہرہ کیا ہے۔
قاتلان حسین پر تف ہے کہ انھوں نےدنیاوی اغراض اور نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے رسول اللہ ﷺ کے نواسے اور سیدہ فاطمہ ؓ کے جگر گوشے کو بڑی بے دردی سے شہید کردیا۔
إنا اللہ وإنا إلیه راجعون۔
بناکر دند خوش رسمےبخاک وخون غلطیدن۔
۔
۔
خدارحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3753
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5994
5994. ابو نعم سے روایت ہے انہوں نے کہا میں اس وقت حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے پاس موجود تھا جب کہ ایک آدمی نے ان سے مچھر مارنے کے متعلق سوال کیا۔ حضرت ابن عمر ؓ نے پوچھا: تم کہاں کے ہو؟ اس نے بتایا عراق کا باشندہ ہوں۔ انہوں نے فرمایا: اس شخص کو دیکھو مچھر مارنے کے متعلق سوال کرتا ہے حالانکہ ان لوگوں نے نبی ﷺ کے نواسے کو شہید کر ڈالا جبکہ میں نے خود نبی ﷺ سے سنا آپ فرما رہے تھے: ”حسن و حسین ؓ دونوں دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5994]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے والے بیشتر کوفی لوگ تھے۔
انھوں نے بار بار خطوط لکھ کر آپ کو کوفہ بلایا اور اپنی وفاداری کا یقین دلایا مگر وقت آنے پر سب دشمنوں سے مل گئے، پھر میدان کربلا میں وہ کچھ ہوا جو دنیا کو معلوم ہے۔
(2)
اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہا کو دو خوشبودار پھول قرار دیا اورخوشبودار پھول کوسونگھا جاتا ہے اور اولاد کو بھی سونگھا جاتا ہے، اس پر پیار کرتے ہوئے اسے بوسہ دیا جاتا ہے، انھیں گلے بھی لگایا جاتا ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5994