سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: فضائل و مناقب
Chapters on Virtues
68. باب فِي فَضْلِ الْمَدِينَةِ
باب: مدینہ کی فضیلت کا بیان
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3914
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن سعيد بن ابي سعيد المقبري، عن عمرو بن سليم الزرقي، عن عاصم بن عمرو، عن علي بن ابي طالب، قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى إذا كنا بحرة السقيا التي كانت لسعد بن ابي وقاص، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ائتوني بوضوء " , فتوضا، ثم قام فاستقبل القبلة ثم قال: " اللهم إن إبراهيم كان عبدك وخليلك , ودعا لاهل مكة بالبركة، وانا عبدك ورسولك ادعوك لاهل المدينة ان تبارك لهم في مدهم، وصاعهم مثلي ما باركت لاهل مكة مع البركة بركتين ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، قال: وفي الباب عن عائشة، وعبد الله بن زيد، وابي هريرة.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَيْمٍ الزُّرَقِيِّ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِحَرَّةِ السُّقْيَا الَّتِي كَانَتْ لِسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ائْتُونِي بِوَضُوءٍ " , فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ قَامَ فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ ثُمَّ قَالَ: " اللَّهُمَّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ عَبْدَكَ وَخَلِيلَكَ , وَدَعَا لِأَهْلِ مَكَّةَ بِالْبَرَكَةِ، وَأَنَا عَبْدُكَ وَرَسُولُكَ أَدْعُوكَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ أَنْ تُبَارِكَ لَهُمْ فِي مُدِّهِمْ، وَصَاعِهِمْ مِثْلَيْ مَا بَارَكْتَ لِأَهْلِ مَكَّةَ مَعَ الْبَرَكَةِ بَرَكَتَيْنِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ عَائِشَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ جب ہم حرہ سقیا ۱؎ میں پہنچے جو سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کا محلہ تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اللهم إن إبراهيم كان عبدك وخليلك ودعا لأهل مكة بالبركة وأنا عبدك ورسولك أدعوك لأهل المدينة أن تبارك لهم في مدهم وصاعهم مثلي ما باركت لأهل مكة مع البركة بركتين» مجھے وضو کا پانی دو، چنانچہ آپ نے وضو کیا، پھر آپ قبلہ رخ کھڑے ہوئے اور فرمایا: اے اللہ! ابراہیم تیرے بندے اور تیرے دوست ہیں اور انہوں نے اہل مکہ کے لیے برکت کی دعا فرمائی، اور میں تیرا بندہ اور تیرا رسول ہوں، اور تجھ سے اہل مدینہ کے لیے دعا کرتا ہوں کہ تو ان کے مد اور ان کی صاع میں اہل مکہ کو جو تو نے برکت دی ہے اس کی دوگنا برکت فرما، اور ہر برکت کے ساتھ دو برکتیں (یعنی اہل مکہ کی دوگنی برکت عطا فرما ۲؎)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عائشہ، عبداللہ بن زید اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) وانظر مسند احمد (1/115) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: «حرّۃ السقیا» مکہ اور مدینہ کے درمیان مدینہ سے دو دن کے راستے پر ایک جگہ کا نام ہے۔
۲؎: مکہ میں گرچہ اللہ کا گھر ہے، مگر مکہ والوں نے اللہ کے سب سے محبوب بندے کو مکہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا تو مدینہ نے محبوب الٰہی کو پناہ دی جو آپ کی آخری پناہ ہو گئی، نیز یہیں کے باشندوں نے اسلام کو پناہ دی، اس کے لیے قربانیاں پیش کیں، جان و مال کا نذرانہ پیش کر دیا، سارے عالم میں یہیں سے اسلام کا پھیلاؤ ہوا، اس لیے مدینہ کے لیے دوگنی برکت کی دعا فرمائی، اس دعا کا اثر ہر زائر مکہ کے لیے واضح طور پر دیکھی سنی حقیقت ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، التعليق الرغيب (2 / 144)
حدیث نمبر: 3915
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن ابي زياد، حدثنا ابو نباتة يونس بن يحيى بن نباتة، حدثنا سلمة بن وردان، عن ابي سعيد بن المعلى، عن علي بن ابي طالب، وابي هريرة رضي الله عنهما، قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما بين بيتي ومنبري روضة من رياض الجنة ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه، من حديث علي، وقد روي من غير وجه، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، حَدَّثَنَا أَبُو نُبَاتَةَ يُونُسُ بْنُ يَحْيَى بْنِ نُبَاتَةَ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ وَرْدَانَ، عَنْ أَبِي سَعِيدِ بْنِ الْمُعَلَّى، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، مِنْ حَدِيثِ عَلِيٍّ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
علی اور ابوہریرہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان (مسجد نبوی) جو حصہ ہے وہ جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، اور یہ حدیث ابوہریرہ رضی الله عنہ سے اس سند کے علاوہ دوسری سندوں سے بھی مرفوعاً آئی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10327، 14939) (حسن صحیح)»

وضاحت:
۱؎: روضۃ الجنۃ، مسجد نبوی میں ہے، اور مسجد نبوی مدینہ میں ہے، پس اس سے مدینہ کی فضیلت ثابت ہوئی۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح ظلال الجنة (731)، الروض النضير (1115)
حدیث نمبر: 3916
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن كامل المروزي، حدثنا عبد العزيز بن ابي حازم الزاهد، عن كثير بن زيد، عن الوليد بن رباح، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " ما بين بيتي ومنبري روضة من رياض الجنة ".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَامِلٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ الزَّاهِدُ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ رَبَاحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان جو حصہ ہے وہ جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف: 14810) (حسن صحیح)»

وضاحت:
۱؎: مسجد الحرام میں ایک نماز کا ثواب دوسری مسجدوں کی بنسبت ایک لاگھ گنا ہے، مسجد نبوی میں نماز کا ثواب ایک ہزار گنا ہے، اور مسجد نبوی مدینہ میں ہے، اس سے مدینہ کی فضیلت ثابت ہوئی۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (1404 و 1405)
حدیث نمبر: 3916M
Save to word اعراب
(موقوف) وبهذا الإسناد وبهذا الإسناد عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " صلاة في مسجدي هذا خير من الف صلاة فيما سواه من المساجد إلا المسجد الحرام ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد روي عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم من غير وجه.(موقوف) وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " صَلَاةٌ فِي مَسْجِدِي هَذَا خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ مِنَ الْمَسَاجِدِ إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ.
اور اسی سند سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: میری اس مسجد میں ایک نماز دوسری اور مسجدوں کے ایک ہزار نمازوں سے بہتر ہے سوائے مسجد الحرام کے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے، یہ حدیث ابوہریرہ رضی الله عنہ سے اس سند کے علاوہ دوسری سندوں سے بھی مرفوع طریقہ سے آئی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (14811) (حسن صحیح)»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (1404 و 1405)
حدیث نمبر: 3917
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا معاذ بن هشام، حدثني ابي، عن ايوب، عن نافع، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من استطاع ان يموت بالمدينة فليمت بها، فإني اشفع لمن يموت بها "، وفي الباب عن سبيعة بنت الحارث الاسلمية. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه من حديث ايوب السختياني.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنِ اسْتَطَاعَ أَنْ يَمُوتَ بِالْمَدِينَةِ فَلْيَمُتْ بِهَا، فَإِنِّي أَشْفَعُ لِمَنْ يَمُوتُ بِهَا "، وَفِي الْبَابِ عَنْ سُبَيْعَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ الْأَسْلَمِيَّةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مدینہ میں مر سکتا ہو تو اسے چاہیئے کہ وہیں مرے کیونکہ جو وہاں مرے گا میں اس کے حق میں سفارش کروں گا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے یعنی ایوب سختیانی کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے،
۲- اس باب میں سبیعہ بنت حارث اسلمیہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الحج 10 (3112) (تحفة الأشراف: 7553) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی مدینہ میں رہنے کے لیے اسباب اختیار کرے، اگر کامیابی ہو گئی تو «فبہا» ورنہ یہ کوئی فرض کام نہیں ہے، نیز مدینہ میں اسی مرنے والے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت فرمائیں گے، جس کی وفات صحیح ایمان و عقیدہ پر ہوئی ہو، نہ کہ مشرک اور بدعتی کی شفاعت بھی کریں گے، آپ نے فرمایا ہے: آخرت کے لیے اٹھا کر رکھی گئی میری دعا اس کو فائدہ پہنچائے گی جس نے اللہ کے ساتھ کسی قسم کا شرک نہیں کیا ہو گا (اس حدیث میں مدینہ کی ایک اہم فضیلت کا بیان ہے)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3112)
حدیث نمبر: 3918
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الاعلى، حدثنا المعتمر بن سليمان، قال: سمعت عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، ان مولاة له اتته، فقالت: اشتد علي الزمان وإني اريد ان اخرج إلى العراق، قال: فهلا إلى الشام ارض المنشر، اصبري لكاع، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من صبر على شدتها ولاوائها كنت له شهيدا او شفيعا يوم القيامة "، قال: وفي الباب عن ابي سعيد، وسفيان بن ابي زهير، وسبيعة الاسلمية. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب من حديث عبيد الله.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَال: سَمِعْتُ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ مَوْلَاةً لَهُ أَتَتْهُ، فَقَالَتْ: اشْتَدَّ عَلَيَّ الزَّمَانُ وَإِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَخْرُجَ إِلَى الْعِرَاقِ، قَالَ: فَهَلَّا إِلَى الشَّأْمِ أَرْضِ الْمَنْشَرِ، اصْبِرِي لَكَاعِ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ صَبَرَ عَلَى شِدَّتِهَا وَلَأْوَائِهَا كُنْتُ لَهُ شَهِيدًا أَوْ شَفِيعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ "، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَسُفْيَانَ بْنِ أَبِي زُهَيْرٍ، وَسُبَيْعَةَ الْأَسْلَمِيَّةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ عُبَيْدِ اللَّهِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ان کی ایک آزاد کردہ لونڈی ان کے پاس آئی اور ان سے کہنے لگی میں گردش زمانہ کی شکار ہوں اور عراق جانا چاہتی ہوں، تو انہوں نے کہا: تو شام کیوں نہیں چلی جاتی جو حشر و نشر کی سر زمین ہے، (آپ نے کہا) «اصبري لكاع» ! کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جس نے اس کی (مدینہ کی) سختی اور تنگی معیشت پر صبر کیا تو میں قیامت کے دن اس کے لیے گواہ یا سفارشی ہوں گا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث عبیداللہ کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے،
۲- اس باب میں ابو سعید خدری، سفیان بن ابی زہیر اور سبیعہ اسلمیہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 8122) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ بھی مدینہ کی ایک فضیلت ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح تخريج فقه السيرة (184)
حدیث نمبر: 3919
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو السائب سلم بن جنادة، اخبرنا ابي جنادة بن سلم، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " آخر قرية من قرى الإسلام خرابا المدينة ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب لا نعرفه إلا من حديث جنادة، عن هشام بن عروة، قال: تعجب محمد بن إسماعيل من حديث ابي هريرة هذا.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو السَّائِبِ سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ، أَخْبَرَنَا أَبِي جُنَادَةُ بْنُ سَلْمٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " آخِرُ قَرْيَةٍ مِنْ قُرَى الْإِسْلَامِ خَرَابًا الْمَدِينَةُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ جُنَادَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، قَالَ: تَعَجَّبَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل مِنْ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ هَذَا.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام کے شہروں میں ویرانی کے اعتبار سے مدینہ سب سے آخری شہر ہو گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف جنادہ کی روایت سے جانتے ہیں، جسے وہ ہشام بن عروہ سے روایت کرتے ہیں،
۲- محمد بن اسماعیل بخاری نے اس حدیث کے ابوہریرہ رضی الله عنہ پر تعجب کا اظہار کیا ہے (یعنی ایسی بات کیسے صحیح ہو سکتی ہے)۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 14166) (ضعیف) (سند میں جنادہ کو بہت سے أئمہ نے ضعیف قرار دیا ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (1300) // ضعيف الجامع الصغير (4) //
حدیث نمبر: 3920
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك بن انس. ح وحدثنا قتيبة، عن مالك بن انس، عن محمد بن المنكدر، عن جابر: ان اعرابيا بايع رسول الله صلى الله عليه وسلم على الإسلام فاصابه وعك بالمدينة، فجاء الاعرابي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: اقلني بيعتي، فابى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فخرج الاعرابي، ثم جاءه، فقال: اقلني بيعتي، فابى، فخرج الاعرابي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنما المدينة كالكير، تنفي خبثها، وتنصع طيبها "، قال: وفي الباب عن ابي هريرة. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ. ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ: أَنَّ أَعْرَابِيًّا بَايَعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْإِسْلَامِ فَأَصَابَهُ وَعَكٌ بِالْمَدِينَةِ، فَجَاءَ الْأَعْرَابِيُّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَقِلْنِي بَيْعَتِي، فَأَبَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجَ الْأَعْرَابِيُّ، ثُمَّ جَاءَهُ، فَقَالَ: أَقِلْنِي بَيْعَتِي، فَأَبَى، فَخَرَجَ الْأَعْرَابِيُّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّمَا الْمَدِينَةُ كَالْكِيرِ، تَنْفِي خَبَثَهَا، وَتُنَصِّعُ طَيِّبَهَا "، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام پر بیعت کی، پھر اسے مدینہ میں بخار آ گیا تو وہ اعرابی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پاس آیا اور کہنے لگا، آپ مجھے میری بیعت پھیر دیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کیا، پھر وہ دوبارہ آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا: آپ میری بیعت مجھے پھیر دیں تو پھر آپ نے انکار کیا، پھر وہ اعرابی مدینہ چھوڑ کر چلا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مدینہ ایک بھٹی کے مثل ہے جو دور کر دیتا ہے اپنے کھوٹ کو اور خالص کر دیتا ہے پاک کو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/فضائل المدینة 10 (1883)، والأحکام 45 (7209)، و47 (7211)، و50 (7216)، والاعتصام 16 (7322)، صحیح مسلم/الحج 88 (1383) (تحفة الأشراف: 3071)، موطا امام مالک/الجامع 2 (4)، و مسند احمد (3/292) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی لوہار کی بھٹی جس طرح لوہے کے میل اور اس کے زنگ کو دور کر دیتی ہے اسی طرح مدینہ اپنے یہاں سے برے لوگوں کو نکال پھینکتا ہے۔ اور مدینہ کی یہ خصوصیت کیا صرف عہد نبوی تک کے لیے تھی (جیسا کہ قاضی عیاض کہتے ہیں) یا عہد نبوی کے بعد بھی باقی ہے؟ (جیسا کہ نووی وغیرہ کہتے ہیں) نووی نے حدیث دجال سے استدلال کیا ہے کہ اس وقت بھی مدینہ ایسا کرے گا، کہ برے لوگوں کو اپنے یہاں سے نکال باہر کرے گا، اب اپنی یہ بات کہ بہت سے صحابہ و خیار تابعین بھی مدینہ سے باہر چلے گئے، تو کیا وہ لوگ بھی برے تھے؟ ہرگز نہیں، اس حدیث کا مطلب ہے: جو مدینہ کو برا جان کر وہاں سے نکل جائے وہ اس حدیث کا مصداق ہے، اور رہے صحابہ کرام تو وہ مدینہ کی سکونت کو افضل جانتے تھے، مگر دین اور علم دین کی اشاعت کے مقصد عظیم کی خاطر باہر گئے تھے، رضی الله عنہم۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3921
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك. ح وحدثنا قتيبة، عن مالك، عن ابن شهاب، عن سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة، انه كان يقول: لو رايت الظباء ترتع بالمدينة ما ذعرتها، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " ما بين لابتيها حرام ". قال: وفي الباب عن سعد، وعبد الله بن زيد، وانس، وابي ايوب، وزيد بن ثابت، ورافع بن خديج، وسهل بن حنيف، وجابر. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ. ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: لَوْ رَأَيْتُ الظِّبَاءَ تَرْتَعُ بِالْمَدِينَةِ مَا ذَعَرْتُهَا، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا حَرَامٌ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي أَيُّوبَ، وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، وَسَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے تھے کہ اگر میں مدینہ میں ہرنوں کو چرتے دیکھوں تو انہیں نہ ڈراؤں اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: اس کی دونوں پتھریلی زمینوں ۱؎ کے درمیان کا حصہ حرم ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں سعد، عبداللہ بن زید، انس، ابوایوب، زید بن ثابت، رافع بن خدیج، سہل بن حنیف اور جابر رضی الله عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/فضائل المدینة 4 (1873)، صحیح مسلم/الحج 85 (1372) (تحفة الأشراف: 13235)، وط/الجامع 3 (11)، و مسند احمد (2/236، 487) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ دونوں پتھریلی زمینیں (حرہ) حرّہ غربیہ اور حرّہ شرقیہ کے نام سے معروف ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3922
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، عن مالك. ح وحدثنا الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك، عن عمرو بن ابي عمرو، عن انس بن مالك، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم طلع له احد , فقال: " هذا جبل يحبنا ونحبه، اللهم إن إبراهيم حرم مكة وإني احرم ما بين لابتيها ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ. ح وحَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَلَعَ لَهُ أُحُدٌ , فَقَالَ: " هَذَا جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ، اللَّهُمَّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ حَرَّمَ مَكَّةَ وَإِنِّي أُحَرِّمُ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو احد پہاڑ نظر آیا تو آپ نے فرمایا: یہ ایسا پہاڑ ہے کہ یہ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے، اے اللہ! ابراہیم نے مکہ کو حرام کیا اور میں اس (مدینہ) کی دونوں پتھریلی زمینوں کے بیچ کے حصہ کو حرام قرار دے رہا ہوں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجھاد 71 (2889)، وأحادیث الأنبیاء 11 (3367)، والمغازي 28 (4083، 4084)، والاعتصام 16 (7333)، صحیح مسلم/الحج 85 (1365) (تحفة الأشراف: 1116)، و مسند احمد (3/140، 149، 240) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3923
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا الحسين بن حريث، حدثنا الفضل بن موسى، عن عيسى بن عبيد، عن غيلان بن عبد الله العامري، عن ابي زرعة بن عمرو بن جرير، عن جرير بن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إن الله اوحى إلي اي هؤلاء الثلاثة نزلت فهي دار هجرتك: المدينة، او البحرين، او قنسرين ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من حديث الفضل بن موسى تفرد به ابو عمار.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ عِيسَى بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ غَيْلَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْعَامِرِيِّ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ أَوْحَى إِلَيَّ أَيَّ هَؤُلَاءِ الثَّلَاثَةِ نَزَلْتَ فَهِيَ دَارُ هِجْرَتِكَ: الْمَدِينَةَ، أَوْ الْبَحْرَيْنِ، أَوْ قِنَّسْرِينَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْفَضْلِ بْنِ مُوسَى تَفَرَّدَ بِهِ أَبُو عَمَّارٍ.
جریر بن عبداللہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے میری طرف وحی کی کہ مدینہ، بحرین اور قنسرین ان تینوں میں سے جہاں بھی تم جاؤ وہی تمہارا دار الہجرت ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف فضل بن موسیٰ کی روایت سے جانتے ہیں اور ان سے ابوعمار یعنی حسین بن حریث روایت کرنے میں منفرد ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3241) (موضوع) (سند میں غیلان بن عبد اللہ سخت ضعیف راوی ہے)»

قال الشيخ الألباني: موضوع الرد على الكتاني رقم الحديث (1) // ضعيف الجامع الصغير (1573) //
حدیث نمبر: 3924
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا الفضل بن موسى، حدثنا هشام بن عروة، عن صالح بن ابي صالح، عن ابيه، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا يصبر على لاواء المدينة وشدتها احد إلا كنت له شهيدا او شفيعا يوم القيامة ". قال ابو عيسى: وفي الباب عن ابي سعيد، وسفيان بن ابي زهير، وسبيعة الاسلمية، قال: هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه، قال: وصالح بن ابي صالح اخو سهيل بن ابي صالح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا يَصْبِرُ عَلَى لَأْوَاءِ الْمَدِينَةِ وَشِدَّتِهَا أَحَدٌ إِلَّا كُنْتُ لَهُ شَهِيدًا أَوْ شَفِيعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي البَابِ عَنْ أَبِي سَعِيد، وَسُفْيَانَ بْنِ أَبِي زُهَيْرٌ، وَسُبَيْعَةَ الْأَسْلَمِيَّةِ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، قَالَ: وَصَالِحُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ أَخُو سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مدینہ کی تنگی معیشت اور اس کی سختیوں پر جو صبر کرے گا میں قیامت کے دن اس کے لیے گواہ اور سفارشی ہوں گا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،
۲- اس باب میں ابو سعید خدری، سفیان بن ابی زہیر اور سبیعہ اسلمیہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- صالح بن ابی صالح سہیل بن ابی صالح کے بھائی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 86 (1378) (تحفة الأشراف: 12804) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: شرط وہی ہے کہ وہ پکا موحد ہو، کسی طرح کے بھی شرک کا مرتکب اس شفاعت کا مستحق نہیں ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح تخريج فقه السيرة (184)

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.