كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: فضائل و مناقب 66. باب فِي فَضْلِ الأَنْصَارِ وَقُرَيْشٍ باب: انصار اور قریش کے فضائل کا بیان
ابی بن کعب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار ہی کا ایک فرد ہوتا“ ۱؎۔ اسی سند سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: ”اگر انصار کسی وادی یا گھاٹی میں چلیں تو میں بھی انہیں کے ساتھ ہوں گا“۔
یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 33)، و مسند احمد (5/137، 138) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس فرمان سے انصار کی دل جمعی مقصود ہے، یعنی انصار کی خوشنودی کے لیے میں یہاں تک جا سکتا ہوں کہ اگر ممکن ہوتا تو میں بھی انصار ہی میں سے ہو جاتا، مگر نسب کی تبدیل تو ممکن نہیں یہ بات انصار کی اسلام کے لیے فدائیت اور قربانی کا اعتراف ہے، اگلا فرمان البتہ ممکن ہے کہ ”اگر انصار کسی وادی میں چلیں تو میں انہی کے ساتھ ہوں گا“ اگر اس کی نوبت آ پاتی تو مہاجرین و انصار کی آپسی محبت چونکہ اللہ و رسول کے حوالہ سے تھی اس لیے ان کے آپس میں اس طرح کی بات ہونے کی نوبت ہی نہیں آ سکی، رضی الله عنہم۔ قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، الصحيحة (1768)
براء بن عازب رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، یا کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے بارے میں فرمایا: ”ان سے مومن ہی محبت کرتا ہے، اور ان سے منافق ہی بغض رکھتا ہے، جو ان سے محبت کرے گا اس سے اللہ محبت کرے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا اس سے اللہ بغض رکھے گا“ ۱؎۔
یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/مناقب الأنصار 4 (3783)، صحیح مسلم/الإیمان 33 (75)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 11 (163) (تحفة الأشراف: 1792) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اب اس سے بڑھ کر کسی کی فضیلت اور کیا ہو گی، «رضی اللہ عن الأنصار وأرضاہم وعن جمیع الصحابۃ رضوان اللہ علیہم اجمعین» ۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (163)
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (فتح مکہ کے وقت) انصار کے کچھ لوگوں کو اکٹھا کیا ۱؎ اور فرمایا: ”کیا تمہارے علاوہ تم میں کوئی اور ہے؟“ لوگوں نے عرض کیا: نہیں سوائے ہمارے بھانجے کے، تو آپ نے فرمایا: ”قوم کا بھانجا تو قوم ہی میں داخل ہوتا ہے“، پھر آپ نے فرمایا: ”قریش اپنی جاہلیت اور (کفر کی) مصیبت سے نکل کر ابھی نئے نئے اسلام لائے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ کچھ ان کی دلجوئی کروں اور انہیں مانوس کروں، (اسی لیے مال غنیمت میں سے انہیں دیا ہے) کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ لوگ دنیا لے کر اپنے گھروں کو لوٹیں اور تم اللہ کے رسول کو لے کر اپنے گھر جاؤ“، لوگوں نے عرض کیا: کیوں نہیں، ہم اس پر راضی ہیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر لوگ ایک وادی یا گھاٹی میں چلیں اور انصار دوسری وادی یا گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی وادی و گھاٹی میں چلوں گا“۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المناقب 14 (3528)، ومناقب الأنصار 1 (3778)، والمغازي 56 (4334)، والفرائض 24 (6722)، صحیح مسلم/الزکاة 46 (1059)، سنن النسائی/الزکاة 96 (2611) (تحفة الأشراف: 1244)، و مسند احمد (3/201، 246)، وسنن الدارمی/السیر 82 (2530) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ غزوہ حنین کے بعد کا واقعہ ہے، جس کے اندر آپ نے قریش کے نئے مسلمانوں کو مال غنیمت میں سے بطور تالیف قلب عطا فرمایا تو بعض نوجوان انصاری حضرات کی طرف سے کچھ ناپسندیدہ رنجیدگی کا اظہار کیا گیا تھا، اسی پر آپ نے انصار کو جمع کر کے یہ ارشاد فرمایا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1776)، الروض النضير (961)
زید بن ارقم رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے انس بن مالک رضی الله عنہ کو خط لکھا اس خط میں وہ ان کی ان لوگوں کے سلسلہ میں تعزیت کر رہے تھے جو ان کے گھر والوں میں سے اور چچا کے بیٹوں میں سے حرّہ ۱؎ کے دن کام آ گئے تھے تو انہوں نے (اس خط میں) انہیں لکھا: میں آپ کو اللہ کی طرف سے ایک خوشخبری سناتا ہوں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ نے فرمایا: ”اے اللہ! انصار کو، ان کی اولاد کو، اور ان کی اولاد کے اولاد کو بخش دے“ ۲؎۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسے قتادہ نے بھی نضر بن انس رضی الله عنہ سے اور انہوں نے زید بن ارقم رضی الله عنہ سے روایت کیا ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/فضائل الصحابة 43 (2506) (تحفة الأشراف: 3686) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ”حرّہ کا دن“ اس واقعے کو کہا جاتا ہے جس میں یزید کی فوجوں نے مسلم بن قتیبہ مُرّی کی سرکردگی میں سنہ ۶۳ھ میں مدینہ پر حملہ کر کے اہل مدینہ کو لوٹا تھا اور مدینہ کو تخت و تاراج کیا تھا، اس میں بہت سے صحابہ و تابعین کی جانیں چلی گئی تھیں، یہ فوج کشی اہل مدینہ کے یزید کی بیعت سے انکار پر کی گئی تھی، (عفا اللہ عنہ) یہ واقعہ چونکہ مدینہ کے ایک محلہ ”حرّہ“ میں ہوا تھا اس لیے اس کا نام ”یوم الحرّۃ“ پڑ گیا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوطلحہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنی قوم ۱؎ کو سلام کہو، کیونکہ وہ پاکباز اور صابر لوگ ہیں جیسا کہ مجھے معلوم ہے“۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3774) (ضعیف) (سند میں محمد بن ثابت بنانی ضعیف راوی ہے، مگر اس کا دوسرا ٹکڑا شواہد کی بنا پر صحیح ہے، الصحیحة 3096)»
وضاحت: ۱؎: یعنی: قوم انصار کو سلام کہو، اس میں انصار کی فضیلت ہے۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف، لكن، الصحيحة منه الشطر الثاني، المشكاة (6242)
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری جامہ دانی جس کی طرف میں پناہ لیتا ہوں یعنی میرے خاص لوگ میرے اہل بیت ہیں، اور میرے راز دار اور امین انصار ہیں تو تم ان کے خطا کاروں کو درگزر کرو اور ان کے بھلے لوگوں کی اچھائیوں کو قبول کرو“ ۱؎۔
۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں انس سے بھی روایت ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4198) (منکر) (اہل بیت کے ذکر کے ساتھ منکر ہے، سند میں عطیہ عوفی ضعیف راوی ہیں، مگر حدیث رقم 3906 سے تقویت پا کر اس کا دوسرا ٹکڑا صحیح ہے)»
وضاحت: ۱؎: «عيبه» جامہ دانی اور صندوق کو کہتے ہیں جس میں کپڑے حفاظت سے رکھے جاتے ہیں، آپ نے اپنے اہل بیت کو جامہ دانی اس لیے کہا کہ وہ آپ کے خدمت گار اور معاون تھے، اور «کرش» جانور کے اس عضو کا نام ہے جو مثل معدہ کے ہوتا ہے، آپ نے انصار کو «کرش» اس معنی میں کہا کہ جس طرح معدہ میں کھانا اور غذا جمع ہوتی ہے پھر اس سے سارے بدن و نفع پہنچتا ہے اسی طرح میرے لیے انصار ہیں کیونکہ وہ بے انتہا دیانت دار اور امانت دار ہیں اور میرے عہود و مواثیق اور اسرار کے حافظ و نگہبان اور مجھ پر دل و جان سے قربان ہیں۔ قال الشيخ الألباني: منكر - بذكر أهل البيت -، المشكاة (6240) // ضعيف الجامع الصغير (2175) //
سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو قریش کی رسوائی چاہے گا اللہ اسے رسوا کر دے گا“ ۱؎۔
۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ۲- ہم سے عبد بن حمید نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: مجھے یعقوب بن ابراہیم بن سعد نے خبر دی، وہ کہتے ہیں: مجھ سے میرے والد نے بیان کیا اور انہوں نے صالح بن کیسان سے اور صالح نے ابن شہاب سے اسی سند سے اسی جیسی حدیث روایت کی۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3925) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے اللہ کے نزدیک قریش کے مقام و مرتبہ کا ثبوت ہے، کیونکہ قریش ہی سے سب سے افضل نبی پیدا ہوئے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1178)
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو انصار سے بغض نہیں رکھ سکتا“ ۱؎۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 5483) (صحیح) (الصحیحہ 1234)»
وضاحت: ۱؎: کیونکہ آڑے وقت میں انصار ہی ایمان کی تائید و نصرت میں آگے آئے، اس لیے کہ قریش کی ناراضگی مول لی، ہر طرح کی قربانیاں پیش کیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1234)
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انصار میرے راز دار اور میرے خاص الخاص ہیں، لوگ عنقریب بڑھیں گے اور انصار کم ہوتے جائیں گے، تو تم ان کے بھلے لوگوں کی اچھائیوں کو قبول کرو اور ان کے خطا کاروں کی خطاؤں سے درگزر کرو“۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/مناقب الأنصار 11 (3801)، صحیح مسلم/فضائل الأنصار 43 (2510) (تحفة الأشراف: 1245) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! قریش کے پہلوں کو تو نے (قتل، قید اور ذلت کا) عذاب چکھایا ہے ۱؎، تو ان کے پچھلوں کو بخشش و عنایت سے نواز دے“۔
یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 5522) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: جیسے غزوہ بدر اور فتح مکہ میں۔ قال الشيخ الألباني: حسن صحيح الضعيفة تحت الحديث (398)
ہم سے عبدالوہاب وراق نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے یحییٰ بن سعید اموی نے اعمش کے واسطہ سے اسی طرح کی حدیث روایت کی۔
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (حسن صحیح)»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح الضعيفة تحت الحديث (398)
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اللهم اغفر للأنصار ولأبناء الأنصار ولأبناء أبناء الأنصار ولنساء الأنصار» ”اے اللہ! انصار کو، ان کے بیٹوں کو، ان کے بیٹوں کے بیٹوں کو اور ان کی عورتوں کو بخش دے“۔
یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/فضائل الصحابة 43 (2507) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|