سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: فضائل و مناقب
Chapters on Virtues
41. باب مَنَاقِبِ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رضى الله عنه
باب: اسامہ بن زید رضی الله عنہما کے مناقب کا بیان
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3817
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا يونس بن بكير، عن محمد بن إسحاق، عن سعيد بن عبيد بن السباق، عن محمد بن اسامة بن زيد، عن ابيه، قال: لما ثقل رسول الله صلى الله عليه وسلم هبطت وهبط الناس المدينة، فدخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد اصمت , فلم يتكلم، فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يضع يديه علي ويرفعهما , فاعرف انه يدعو لي ". قال ابو عيسى: هذا حسن غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ السَّبَّاقِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَبَطْتُ وَهَبَطَ النَّاسُ الْمَدِينَةَ، فَدَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ أُصْمَتَ , فَلَمْ يَتَكَلَّمْ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضَعُ يَدَيْهِ عَلَيَّ وَيَرْفَعُهُمَا , فَأَعْرِفُ أَنَّهُ يَدْعُو لِي ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ.
اسامہ بن زید رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری شدید ہو گئی تو میں ( «جرف» سے) اتر کر مدینہ آیا اور (میرے ساتھ) کچھ اور لوگ بھی آئے، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اندر گیا تو آپ کی زبان بند ہو چکی تھی، پھر اس کے بعد آپ کچھ نہیں بولے، آپ اپنے دونوں ہاتھ میرے اوپر رکھتے اور اٹھاتے تھے تو میں یہی سمجھ رہا تھا کہ آپ میرے لیے دعا فرما رہے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 122) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن، المشكاة (6166)
حدیث نمبر: 3818
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا الحسين بن حريث، حدثنا الفضل بن موسى، عن طلحة بن يحيى، عن عائشة بنت طلحة، عن عائشة ام المؤمنين، قالت: اراد النبي صلى الله عليه وسلم ان ينحي مخاط اسامة، قالت عائشة: دعني حتى اكون انا الذي افعل، قال: " يا عائشة احبيه فإني احبه ". قال ابو عيسى: هذا حسن غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَتْ: أَرَادَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُنَحِّيَ مُخَاطَ أُسَامَةَ، قَالَتْ عَائِشَةُ: دَعْنِي حَتَّى أَكُونَ أَنَا الَّذِي أَفْعَلُ، قَالَ: " يَا عَائِشَةُ أَحِبِّيهِ فَإِنِّي أُحِبُّهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ کی ناک پونچھنے کا ارادہ فرمایا ۱؎ تو میں نے کہا: آپ چھوڑیں میں صاف کئے دیتی ہوں، آپ نے فرمایا: عائشہ! تم اس سے محبت کرو کیونکہ میں اس سے محبت کرتا ہوں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 17875) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ اس وقت کی بات ہے جب اسامہ بچے تھے، آدمی اسی بچے کی ناک پونچھتا ہے جس سے انتہائی محبت رکھتا ہے، جیسے اپنے بچے بسا اوقات آدمی کسی رشتہ دار یا دوست کے بچے سے محبت تو رکھتا ہے لیکن اس کی محبت میں اس حد تک نہیں جاتا کہ اس کی ناک پونچھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسامہ کی ناک پونچھنے کے لیے اٹھنا ان سے آپ کی انتہائی محبت کی دلیل ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن، المشكاة (6167)
حدیث نمبر: 3819
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن الحسن، حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا ابو عوانة، قال: حدثنا عمر بن ابي سلمة بن عبد الرحمن، عن ابيه، قال: اخبرني اسامة بن زيد، قال: كنت جالسا عند النبي صلى الله عليه وسلم إذ جاء علي , والعباس يستاذنان، فقالا: يا اسامة استاذن لنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله علي , والعباس يستاذنان، فقال: " اتدري ما جاء بهما؟ " , قلت: لا ادري، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " لكني ادري " , فاذن لهما، فدخلا فقالا: يا رسول الله جئناك نسالك اي اهلك احب إليك؟ قال: " فاطمة بنت محمد "، فقالا: ما جئناك نسالك عن اهلك، قال: " احب اهلي إلي من قد انعم الله عليه , وانعمت عليه اسامة بن زيد "، قالا: ثم من؟ قال: " ثم علي بن ابي طالب "، قال العباس: يا رسول الله جعلت عمك آخرهم، قال: لان عليا قد سبقك بالهجرة ". قال ابو عيسى: هذا حسن وكان شعبة يضعف عمر بن ابي سلمة.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَ عَلِيٌّ , وَالْعَبَّاسُ يَسْتَأْذِنَانِ، فَقَالَا: يَا أُسَامَةُ اسْتَأْذِنْ لَنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلِيٌّ , وَالْعَبَّاسُ يَسْتَأْذِنَانِ، فَقَالَ: " أَتَدْرِي مَا جَاءَ بِهِمَا؟ " , قُلْتُ: لَا أَدْرِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَكِنِّي أَدْرِي " , فَأَذِنَ لَهُمَا، فَدَخَلَا فَقَالَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ جِئْنَاكَ نَسْأَلُكَ أَيُّ أَهْلِكَ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ: " فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ "، فَقَالَا: مَا جِئْنَاكَ نَسْأَلُكَ عَنْ أَهْلِكَ، قَالَ: " أَحَبُّ أَهْلِي إِلَيَّ مَنْ قَدْ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ , وَأَنْعَمْتُ عَلَيْهِ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ "، قَالَا: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: " ثُمَّ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ "، قَالَ الْعَبَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ جَعَلْتَ عَمَّكَ آخِرَهُمْ، قَالَ: لِأَنَّ عَلِيًّا قَدْ سَبَقَكَ بِالْهِجْرَةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ وَكَانَ شُعْبَةُ يُضَعِّفُ عُمَرَ بْنَ أَبِي سَلَمَةَ.
اسامہ بن زید رضی الله عنہما کا بیان ہے کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں علی اور عباس رضی الله عنہما دونوں اندر آنے کی اجازت مانگنے لگے، انہوں نے کہا: اسامہ! ہمارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگو، تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! علی اور عباس دونوں اندر آنے کی اجازت مانگ رہے ہیں، آپ نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ وہ کیوں آئے ہیں؟ میں نے عرض کیا: میں نہیں جانتا، اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تو معلوم ہے، پھر آپ نے انہیں اجازت دے دی وہ اندر آئے اور عرض کیا کہ ہم آپ کے پاس اس لیے آئے ہیں تاکہ ہم آپ سے پوچھیں کہ آپ کے اہل میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ آپ نے فرمایا: فاطمہ بنت محمد، تو وہ دونوں بولے: ہم آپ کی اولاد کے متعلق نہیں پوچھتے ہیں، آپ نے فرمایا: میرے گھر والوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جس پر اللہ نے انعام کیا اور میں نے انعام کیا ہے، اور وہ اسامہ بن زید ہیں، وہ دونوں بولے: پھر کون؟ آپ نے فرمایا: پھر علی بن ابی طالب ہیں، عباس بولے: اللہ کے رسول! آپ نے اپنے چچا کو پیچھے کر دیا، آپ نے فرمایا: علی نے تم سے پہلے ہجرت کی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- شعبہ: عمر بن ابی سلمہ کو ضعیف قرار دیتے تھے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 123) (ضعیف) (سند میں عمر بن ابی سلمہ روایت حدیث میں غلطیاں کر جاتے تھے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (6168) // ضعيف الجامع الصغير (168) باختصار //

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.