كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: فضائل و مناقب 29. باب مَنَاقِبِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضى الله عنه باب: عباس بن عبدالمطلب رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان
عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب نے بیان کیا کہ عباس بن عبدالمطلب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غصہ کی حالت میں آئے، میں آپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، آپ نے پوچھا: ”تم غصہ کیوں ہو؟“ وہ بولے: اللہ کے رسول! قریش کو ہم سے کیا (دشمنی) ہے کہ جب وہ آپس میں ملتے ہیں تو خوش روئی سے ملتے ہیں اور جب ہم سے ملتے ہیں تو اور طرح سے ملتے ہیں، (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ میں آ گئے، یہاں تک کہ آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا، پھر آپ نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! کسی شخص کے دل میں ایمان داخل نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی خاطر تم سے محبت نہ کرے“، پھر آپ نے فرمایا: ”اے لوگو! جس نے میرے چچا کو اذیت پہنچائی تو اس نے مجھے اذیت پہنچائی کیونکہ آدمی کا چچا اس کے باپ کے مثل ۱؎ ہوتا ہے“۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، وانظر ماتقدم عندہ برقم 3607 (تحفة الأشراف: 11289) (ضعیف) (سند میں یزید بن ابی زیاد ہاشمی کوفی ضعیف شیعی راوی ہے، کبر سنی کی وجہ سے حافظہ میں تغیر آ گیا تھا، اور دوسروں کی تلقین قبول کرنے لگے تھے، لیکن حدیث کا آخری ٹکڑا ”عم الرجل صنو أبيه“ ثابت ہے، جیسا کہ آگے آ رہا ہے 3760، 3761)»
وضاحت: ۱؎: حدیث میں «صنو» کا لفظ آیا ہے، «صنو» کی حقیقت یہ ہے کہ کسی درخت کے ایک ہی تنے سے اوپر دو یا تین یا چار شاخیں نکلتی ہیں، ان شاخوں کو آپس میں ایک دوسرے کا «صنو» کہتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف إلا قوله: " عم الرجل ... " فصحيح، المشكاة (6147)، الصحيحة (806)
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: صحابہ میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ کون محبوب تھا؟ کہا: ابوبکر، میں نے پوچھا: پھر کون؟ کہا: عمر، میں نے پوچھا: پھر کون؟ کہا: ابوعبیدہ بن الجراح، میں نے پوچھا: پھر کون؟ اس پر آپ خاموش رہیں ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 11 (102) (تحفة الأشراف: 16212) وقد أخرجه: مسند احمد (6/218) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: محبت کے مختلف وجوہ و اسباب ہوتے ہیں، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے محبت بیٹی ہونے کے اعتبار سے اور ان کے زہد و عبادت کی وجہ سے تھی، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے محبت زوجیت، دینی بصیرت اور فہم و فراست کے سبب تھی، ابوبکر و عمر سے محبت اسلام میں سبقت، دین کی بلندی، علم کی زیادتی، شریعت کی حفاظت اور اسلام کی تائید کے سبب تھی، شیخین کے کمالات و مناقب کسی پر پوشیدہ نہیں، اور ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ سے محبت اس لیے تھی کہ ان کے ہاتھ پر متعدد فتوحات اسلام ہوئیں رضی الله عنہم اجمعین۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف إلا قوله: " عم الرجل ... " فصحيح، المشكاة (6147)، الصحيحة (806)
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عباس مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں“۔
یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف اسرائیل کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف: 5544) (ضعیف) (سند میں عبدا لأعلی بن عامر ضعیف راوی ہیں، الضعیفة 2315)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (6148)، الضعيفة (2315) // ضعيف الجامع الصغير (3842) //
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا ہی اچھے آدمی ہیں ابوبکر، کیا ہی اچھے آدمی ہیں، عمر کیا ہی اچھے آدمی ہیں، ابوعبیدہ بن جراح“ (رضی الله عنہم)۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف: 12708) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (6148)، الضعيفة (2315) // ضعيف الجامع الصغير (3842) //
علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی الله عنہ سے عباس رضی الله عنہ کے سلسلہ میں فرمایا: ”بلاشبہہ آدمی کا چچا اس کے باپ کے مثل ہوتا ہے“ عمر رضی الله عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے صدقہ کے سلسلہ میں کوئی بات کی تھی ۱؎۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10112) (صحیح) (شواہد کی بنا پر حدیث صحیح ہے، دیکھئے: حدیث نمبر (3761) والصحیحة 806)»
وضاحت: ۱؎: صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی الله عنہ کو زکاۃ کا مال جمع کرنے کے لیے بھیجا تو کچھ لوگوں نے دینے سے انکار کر دیا، ان میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس رضی الله عنہ بھی تھے، انہی کے سلسلہ میں آپ نے عمر سے فرمایا: «و أما العباس فھی علي ومثلھا معھا» یعنی جہاں تک میرے چچا عباس کا مسئلہ ہے تو ان کا حق میرے اوپر ہے اور اسی کے مثل مزید اور، ساتھ ہی آپ نے وہ بات بھی کہی جو حدیث میں مذکور ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح بما قبله (3759)، الإرواء (3 / 348 - 349)
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عباس اللہ کے رسول کے چچا ہیں اور آدمی کا چچا اس کے باپ کے مثل ہوتا ہے“۔
یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے ابوالزناد کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الزکاة 3 (983)، سنن ابی داود/ الزکاة 21 (1622)، سنن النسائی/الزکاة 15 (2466) (تحفة الأشراف: 13922) (وأخرجہ البخاري في الزکاة (49/ح 1468)، بدون قولہ: ”عم الرجل صنو أبیہ“)، و مسند احمد (2/322) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (806)، صحيح أبي داود (1435)، الإرواء (3 / 348 - 350)
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عباس رضی الله عنہ سے فرمایا: ”دوشنبہ کی صبح کو آپ اپنے لڑکے کے ساتھ میرے پاس آئیے تاکہ میں آپ کے حق میں ایک ایسی دعا کر دوں جس سے اللہ آپ کو اور آپ کے لڑکے کو فائدہ پہنچائے“، پھر وہ صبح کو گئے اور ہم بھی ان کے ساتھ گئے تو آپ نے ہمیں ایک چادر اڑھا دی، پھر دعا کی: ”اے اللہ! عباس کی اور ان کے لڑکے کی بخشش فرما، ایسی بخشش جو ظاہر اور باطن دونوں اعتبار سے ایسی ہو کہ کوئی گناہ نہ چھوڑے، اے اللہ! ان کی حفاظت فرما، ان کے لڑکے کے سلسلہ میں یعنی اس کے حقوق کی ادائیگی کی انہیں خوب توفیق مرحمت فرما“۔
یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6364) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن، المشكاة (6149)
|