كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: فضائل و مناقب 56. باب فِي مَنَاقِبِ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ رضى الله عنه باب: ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوموسیٰ تمہیں آل داود کی خوش الحانیوں (اچھی آوازوں) میں سے ایک خوش الحانی دی گئی ہے“ ۱؎۔
۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- اس باب میں بریدہ، ابوہریرہ اور انس رضی الله عنہم سے احادیث آئی ہیں۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/فضائل القرآن 31 (5048)، صحیح مسلم/المسافرین 34 (793) (تحفة الأشراف: 9068) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ایک بار اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور عائشہ رضی الله عنہا ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کے گھر کے پاس سے گزرے ابوموسیٰ نہایت خوش الحانی سے قرآن کی تلاوت کر رہے تھے، صبح کو اسی واقعہ پر آپ نے ان کی بابت یہ فرمایا، «مزمار» (بانسری) گرچہ ایک آلہ ہے جس کے ذریعہ اچھی آواز نکالی جاتی ہے، مگر یہاں صرف اچھی آواز مراد ہے، داود علیہ السلام اپنی کتاب زبور کی تلاوت اس خوش الحانی سے فرماتے کہ اڑتی ہوئی چڑیاں فضا میں رک کر آپ کی تلاوت سننے لگتی تھیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
سہل بن سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ خندق کھود رہے تھے اور ہم مٹی ڈھو رہے تھے، آپ نے ہمیں دیکھا تو فرمایا: «اللهم لا عيش إلا عيش الآخره فاغفر للأنصار والمهاجره» ”اے اللہ زندگی تو آخرت ہی کی زندگی ہے، تو انصار و مہاجرین کی مغفرت فرما“ ۱؎۔
۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں انس بن مالک سے بھی روایت ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/مناقب الأنصار 9 (3797)، والمغازي 29 (4098)، والرقاق 1 (6414) (تحفة الأشراف: 4737) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: صاحب تحفہ الأحوذی نے اس حدیث پر ”باب مناقب سہل بن سعد“ کا عنوان لگایا ہے، اور یہی مناسب ہے، کہ اس حدیث کا تعلق ابوموسیٰ رضی الله عنہ سے کسی طرح نہیں ہے، اور اس میں تمام مہاجرین و انصار صحابہ کی منقبت کا بیان ہے، جو خاص طور پر خندق کھودنے میں شریک تھے، رضی الله عنہم اجمعین۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: «اللهم لا عيش إلا عيش الآخره فأكرم الأنصار والمهاجره» ”بار الٰہا زندگی تو آخرت کی زندگی ہے، تو انصار و مہاجرین کی تکریم فرما“ ۱؎۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- انس رضی الله عنہ سے یہ حدیث کئی سندوں سے آئی ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/مناقب الأنصار 9 (3795)، والرقاق 1 (6413)، صحیح مسلم/الجھاد 44 (1805) (تحفة الأشراف: 1246) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث اگلی حدیث کے استشہاد میں لائے ہیں، یہی اس باب سے اس کی مناسبت ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|