كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: فضائل و مناقب 74. باب فِي ثَقِيفٍ وَبَنِي حَنِيفَةَ باب: قبیلہ ثقیف اور بنی حنیفہ کے فضائل و مناقب کا بیان
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ثقیف کے تیروں نے ہمیں زخمی کر دیا، تو آپ اللہ سے ان کے لیے بد دعا فرمائیں، آپ نے فرمایا: «اللهم اهد ثقيفا» ”اے اللہ! ثقیف کو ہدایت دے“۔
یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 2779) (ضعیف) (سند میں ابوالزبیر محمد بن مسلم مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (5986)
عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور آپ تین قبیلوں ثقیف، بنی حنیفہ اور بنی امیہ کو ناپسند کرتے تھے ۱؎۔
یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10813) (ضعیف الإسناد) (حسن بصری مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت ہے، جب کہ عمران بن حصین رضی الله عنہ“ سے ان کا سماع بھی نہیں ہے)»
وضاحت: ۱؎: اس سلسلہ میں علماء کا کہنا ہے کہ ثقیف کو حجاج بن یوسف اور بنی حنیفہ کو مسیلمہ کذاب اور بنی امیہ کو عبیداللہ بن زیاد کی وجہ سے ناپسند کرتے تھے (واللہ اعلم)۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ثقیف میں ایک جھوٹا اور ایک تباہی مچانے والا ظالم شخص ہو گا“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 2220 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح ومضى (2221) // هذا الرقم فى طبعة الدعاس، وهو عندنا برقم (1808 / 2331) //
ہم سے عبدالرحمٰن بن واقد ابومسلم نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ہم سے شریک نے اسی سند سے اسی طرح کی حدیث بیان کی اور عبدالرحمٰن بن عاصم کی کنیت ابوعلوان ہے اور وہ کوفی ہیں۔
یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف شریک کی روایت سے جانتے ہیں، اور شریک کی روایت میں عبداللہ بن عصم ہے، اور اسرائیل بھی انہیں شیخ سے روایت کرتے ہیں، لیکن انہوں نے عبداللہ بن عصم کے بجائے عبداللہ بن عصمۃ کہا ہے، ۳- اس باب میں اسماء بنت ابی بکر رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔ تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے اشارہ مختار بن عبید ثقفی کی طرف ہے جس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا اور ظالم حجاج بن یوسف ثقفی کی طرف ہے جس نے ہزاروں صالحین اور اکابرین کو اپنے ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح ومضى (2221) // هذا الرقم فى طبعة الدعاس، وهو عندنا برقم (1808 / 2331) //
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک جوان اونٹنی ہدیہ میں دی، اور آپ نے اس کے عوض میں اسے چھ اونٹنیاں عنایت فرمائیں، پھر بھی وہ آپ سے خفا رہا یہ خبر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے اللہ کی حمد و ثنا کی پھر فرمایا: ”فلاں نے مجھے ایک اونٹنی ہدیہ میں دی تھی، میں نے اس کے عوض میں اسے چھ جوان اونٹنیاں دیں، پھر بھی وہ ناراض رہا، میں نے ارادہ کر لیا ہے کہ اب سوائے قریشی، یا انصاری، یا ثقفی ۱؎ یا دوسی کے کسی کا ہدیہ قبول نہ کروں“، اس حدیث میں مزید کچھ اور باتیں بھی ہیں۔
۱- یہ حدیث متعدد سندوں سے ابوہریرہ رضی الله عنہ سے آئی ہے، ۲- اور یزید بن ہارون ایوب ابوالعلاء سے روایت کرتے ہیں، اور وہ ایوب بن مسکین ہیں اور انہیں ابن ابی مسکین بھی کہا جاتا ہے، اور شاید یہی وہ حدیث ہے جسے انہوں نے ایوب سے اور ایوب نے سعید مقبری سے روایت کی ہے، اور ایوب سے مراد ایوب ابوالعلاء ہیں۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، وانظر مایأتي (تحفة الأشراف: 12954)، وانظر مسند احمد (2/292) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے قبیلہ ثقیف کی فضیلت بھی ثابت ہوتی ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (3022 / التحقيق الثانى)، الصحيحة (1684)
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی فزارہ کے ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ان اونٹوں میں سے جو اسے غابہ میں ملے تھے ایک اونٹنی ہدیہ میں دی تو آپ نے اسے اس کا کچھ عوض دیا، لیکن وہ آپ سے خفا رہا، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر فرماتے سنا کہ ”عربوں میں سے کچھ لوگ مجھے ہدیہ دیتے ہیں اور اس کے بدلہ میں انہیں جس قدر میرے پاس ہوتا ہے میں دیتا ہوں، پھر بھی وہ خفا رہتا ہے اور برابر مجھ سے اپنی خفگی جتاتا رہتا ہے، قسم اللہ کی! اس کے بعد میں عربوں میں سے کسی بھی آدمی کا ہدیہ قبول نہیں کروں گا سوائے قریشی، انصاری یا ثقفی یا دوسی کے“۔
یہ حدیث حسن ہے اور یہ یزید بن ہارون کی روایت سے جسے وہ ایوب سے روایت کرتے ہیں زیادہ صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ البیوع 82 (3537)، وانظر ماقبلہ (تحفة الأشراف: 14320) (صحیح) (سابقہ حدیث میں ایوب بن مسکین (یا ابن ابی مسکین) صدوق ہیں، لیکن صاحب اوہام ہیں، اور اس سند میں محمد بن اسحاق صدوق لیکن مدلس ہیں، لیکن شواہد و متابعات کی بنا پر یہ حدیث اور سابقہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحہ رقم 1684)»
قال الشيخ الألباني: صحيح انظر ما قبله (3945)
ابوعامر اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا ہی اچھے ہیں قبیلہ اسد اور قبیلہ اشعر کے لوگ، جو لڑائی سے بھاگتے نہیں اور نہ مال غنیمت میں خیانت کرتے ہیں، وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں“، عامر رضی الله عنہ کہتے ہیں: پھر میں نے اسے معاویہ رضی الله عنہ سے بیان کیا تو انہوں نے کہا: اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا، بلکہ آپ نے یہ فرمایا کہ ”وہ مجھ سے ہیں اور میری طرف ہیں“، تو میں نے عرض کیا: میرے باپ نے مجھ سے اس طرح نہیں بیان کیا، بلکہ انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں“، معاویہ رضی الله عنہ نے کہا: تو تم اپنے باپ کی حدیثوں کے زیادہ جانکار ہو۔
یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف وہب بن جریر کی روایت سے جانتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اسد قبیلہ اسد ہی کے لوگ ہیں۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 12066) وانظر مسند احمد (4/129) (ضعیف) (سند میں عبد اللہ بن ملاذ مجہول راوی ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (4692) // ضعيف الجامع الصغير (5963) //
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ قبیلہ اسلم کو سلامت رکھے اور بنی غفار کو اللہ کو بخشے“۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوذر، ابوبرزہ اسلمی اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے ہی احادیث آئی ہیں۔ تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 3941 (تحفة الأشراف: 7194) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ قبیلہ اسلم کو سلامت رکھے اور غفار کو اللہ بخش دے اور عصیہ نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی“۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف: 7168) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح انظر ما قبله (3948)
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے مؤمل نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ہم سے سفیان نے عبداللہ بن دینار کے واسطہ سے شعبہ کی حدیث کے مانند روایت کی اور اس میں اتنا اضافہ کیا «وعصية عصت الله ورسوله» ۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح انظر ما قبله (3948)
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! غفار، اسلم، مزنیہ اور جو جہنیہ کے لوگ“ یا آپ نے فرمایا: ”جہنیہ اور جو مزنیہ کے لوگ ہیں اللہ کے نزدیک قیامت کے دن اسد، طی اور غطفان سے بہتر ہوں گے“۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/فضائل الصحابة 47 (2520/191) (تحفة الأشراف: 13881) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی تمیم کے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو آپ نے فرمایا: ”اے بنی تمیم! خوش ہو جاؤ“، وہ لوگ کہنے لگے: آپ نے ہمیں بشارت دی ہے، تو (کچھ) دیجئیے، وہ کہتے ہیں: یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک متغیر ہو گیا، اتنے میں یمن کے کچھ لوگ آ گئے تو آپ نے فرمایا: ”تمہیں لوگ بشارت قبول کر لو“، جب بنی تمیم نے اسے قبول نہیں کیا تو ان لوگوں نے کہا: ہم نے قبول کر لیا۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/بدء الخلق 1 (3190)، والمغازي 67 (4365)، و74 (4386)، والتوحید 22 (7418) (تحفة الأشراف: 10829) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوبکرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قبائل اسلم، غفار اور مزینہ، قبائل تمیم، اسد، غطفان اور بنی عامر بن صعصعہ سے بہتر ہیں“، اور آپ اس کے ساتھ اپنی آواز اونچی کر رہے تھے، تو لوگ کہنے لگے: نامراد ہوئے اور خسارے میں رہے، آپ نے فرمایا: ”وہ ان (قبائل یعنی تمیم، اسد، غطفان اور بنی عامر بن صعصعہ) سے بہتر ہیں“۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المناقب 6 (3515، و3516)، والأیمان والنذور 3 (6635)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 47 (2522) (تحفة الأشراف: 1168) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|