Note: Copy Text and to word file

سنن ابن ماجه
كتاب الجنائز
کتاب: صلاۃ جنازہ کے احکام و مسائل
8. بَابُ : مَا جَاءَ فِي غُسْلِ الْمَيِّتِ
باب: میت کو غسل دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1462
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ الْمُحَارِبِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ كَثِيرٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ خَالِدٍ ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ غَسَّلَ مَيِّتًا وَكَفَّنَهُ وَحَنَّطَهُ وَحَمَلَهُ وَصَلَّى عَلَيْهِ، وَلَمْ يُفْشِ عَلَيْهِ مَا رَأَى، خَرَجَ مِنْ خَطِيئَتِهِ مِثْلَ يَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی مردے کو غسل دیا، اسے کفن پہنایا، اسے خوشبو لگائی، اور اسے کندھا دے کر قبرستان لے گیا، اس پہ نماز جنازہ پڑھی، اور اگر کوئی عیب دیکھا تو اسے پھیلایا نہیں، تو وہ اپنے گناہوں سے اس طرح پاک ہو گیا جیسے وہ اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10134، ومصباح الزجاجة: 518) (ضعیف جدًا)» ‏‏‏‏ (اس کی سند میں عباد بن کثیر ہے جن کے بارے میں امام احمد نے کہا ہے کہ غفلت کے سبب جھوٹی حدیثیں روایت کرتے ہیں، نیز اس کی سند میں عمرو بن خالد کذاب ہے)

قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده موضوع
عباد بن كثير: متروك وشيخه عمرو بن خالد الواسطي: متروك
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 430
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1462 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1462  
اردو حاشہ:
فائدہ:
یہ روایت توصحیح نہیں ہے۔
تاہم دوسرے دلائل سے واضح ہے کہ میت کے بارے میں معلوم ہونے والی نامناسب باتوں کوراز میں رکھنا ثواب ہے۔
ارشاد نبوی ﷺ ہے۔
جس نے کسی مسلمان کو غسل دیا اور اس کے عیب کو چھپا لیا۔
اللہ تعالیٰ اسے چالیس مرتبہ معاف فرمادیتا ہے۔ (المستدرك للحاکم، الجنائز: 362/1)
 اس کی سند صحیح ہے۔
علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔
دیکھئے: (صحیح الترغیب، حدیث: 3492)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1462