أَحَادِيثُ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول روایات حدیث نمبر 261
261- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، کچھ دن تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کیفیت رہی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ محسوس ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاید اپنی اہلیہ کے ساتھ صحبت کی ہے، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا ہوتا تھا۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے عائشہ! کیا تمہیں پتہ ہے، میں نے اللہ تعالیٰ سے جس چیز کے بارے میں دریافت کیا تھا، اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کے بارے میں جواب دے دیا ہے، میرے پاس دو آدمی آئے ان میں سے ایک میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا اور دوسرا میرے سرہانے بیٹھ گیا تو جو شخص میرے پاؤں کے پاس بیٹھا ہوا تھا اس نے میرے سرہانے موجود شخص سے دریافت کیا: ان صاحب کا کیا معاملہ ہے؟ اس نے جواب دیا: ان پر جادو کیا گیا ہے پہلے نے دریافت کیا: ان پر کس نے جادو کیا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا: لبید بن اعصم نے۔ پہلے نے دریافت کیا: کس چیز میں کیا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا: نر کھجور کے شگوفے میں ایک کنگھی میں اور کنگھی کے دوران نکلنے والے بالوں میں جو ذروان کے کنویں کے کنارے پڑے ہوئے پتھر کے نیچے رکھے ہوئے ہیں۔“ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لے گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”یہی وہ کنواں ہے، جو مجھے خواب میں دکھایا گیا تھا“، تو وہاں کھجور کے درخت کے سر یوں تھے جیسے شیاطین کے سر ہوتے ہیں اور اس کا پانی یوں تھا جیسے اس میں مہندی گھول دی گئی ہو۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے تحت انہیں وہاں سے نکالا گیا۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، میں نے عرض کی: یارسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ سفیان نامی راوی کہتے ہیں: اس سے مراد یہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو پھیلایا کیوں نہیں (ابن حجر نے یہ بات بیان کی ہے اس سے مراد یہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ علاج کوں نہیں کروایا جو جادو کے بعد کروایا جاتا ہے) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جہاں تک اس بات کا تعلق ہے، تو اللہ تعالیٰ نے مجھے شفا عطا کردی ہے اور میں نے اس بات کو پسند نہیں کیا کہ میں اس حوالے سے لوگوں پر شر پھیلاؤں۔“ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، لبید بن اعصم، بنو زریق سے تعلق رکھنے والا ایک شخص تھا جو یہودیوں کا حلیف تھا۔ سفیان کہتے ہیں: عبدالملک بن جریج نے پہلے یہ روایت سنائی تھی یہ بات ہماری ہشام سے ملاقات سے پہلے کی ہے انہوں نے کہا تھا کہ آل عروہ سے تعلق والے ایک صاحب نے یہ روایت سنائی ہے، لیکن جب ہشام تشریف لے آئے تو انہیں نے ہمیں یہ روایت سنائی۔ تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، والحديث متفق عليه، فقد أخرجه البخاري فى الجزية والموادعة 3175، باب: هل يعفي الذمي إذا سحر -وأطرافه-، ومسلم فى السلام 2189، باب: السحر. وقد استوفينا تخريجه وعلقنا عليه فى «مسند الموصلي» برقم 4882، تعليقا بحسن الرجوع إليه، كما أخرجناه فى «صحيح ابن حبان، برقم 6583، و 9089»
|