جہاد اور جنگی حالات کے بیان میں जिहाद और जंग के बारे में جس شخص نے فارسی زبان میں یا کسی اور غیر عربی زبان میں کلام کیا اور اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الروم میں یہ) فرمانا ”اور تمہارے رنگ اور زبانوں کا اختلاف ہے“۔ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ہر زبان میں کلام کرنا جائز ہے۔ اور (سورۃ ابراہیم میں) اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی قوم کی اپنی زبان میں۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے (ایک مرتبہ) عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہم نے بکری کا ایک چھوٹا بچہ ذبح کیا ہے۔ اور ایک صاع جو کا آٹا پیسا ہے لہٰذا آپ چند صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ تشریف لے چلیے۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے فرمایا: ”اے اہل خندق جابر (رضی اللہ عنہ) نے تمہارے لیے کچھ کھانا تیار کیا ہے لہٰذا جلدی سے چلو۔“ (لفظ ”سورًا“ فارسی ہے یہیں سے ترجمہ باب نکلتا ہے)۔
سیدہ ام خالد بنت خالد بن سعید رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اپنے والد کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی اور میرے جسم پر (اس وقت) ایک زرد (رنگ کا) کرتا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سنہ سنہ۔“ اور یہ حبشی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے معنی ہیں حسنہ (یعنی اچھی ہے)۔ ام خالد رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ پھر میں مہر نبوت کے ساتھ کھیلنے لگی تو میرے والد نے مجھے ڈانٹا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے رہنے دو۔“ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجھے درازی عمر کی دعا دی یعنی) فرمایا: پرانا کرو اور پھاڑو۔ پھر پرانا کرو اور پھاڑو پھر پرانا کرو اور پھاڑو۔“
|