جہاد اور جنگی حالات کے بیان میں जिहाद और जंग के बारे में جنگ میں اس بات پر لوگوں سے بیعت لینا کہ فرار نہیں ہوں گے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ (بیعت رضوان کے بعد) آئندہ سال جب ہم پھر آئے تو ہم میں سے دو آدمیوں نے بھی باتفاق اس درخت کو نہ بتایا جس کے نیچے ہم نے بیعت (رضوان) کی تھی (اسی میں کچھ اللہ کی مہربانی تھی۔ پوچھا گیا کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کس بات پر بیعت لی گئی تھی، موت پر؟ تو انھوں نے کہا کہ نہیں بلکہ صبر پر بیعت لی گئی تھی۔
سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب واقعہ حرہ کا دور آیا تو ایک شخص ان کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ حنظلہ کے بیٹے لوگوں سے موت پر بیعت لے رہے ہیں تو عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی سے اس شرط پر (یعنی موت پر) بیعت نہ کریں گے۔
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (بیعت رضوان میں) بیعت کی۔ بعد اس کے میں ایک درخت کے سایہ کی طرف چلا گیا۔ جب لوگوں کا ہجوم کم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: ”اے ابن اکوع! کیا تم بیعت نہ کرو گے؟ تو میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! میں تو بیعت کر چکا ہوں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر بھی۔“ چنانچہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دوبارہ بیعت کی۔ پوچھا گیا کہ ابومسلم (یہ سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی کنیت ہے) اس دن کس بات پر تم نے بیعت کی تھی تو انھوں نے کہا: ”موت پر۔“
سیدنا مجاشع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے بھائی کے بیٹے کو لے کر آیا اور میں نے عرض کی کہ آپ ہم سے ہجرت پر بیعت لے لیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہجرت تو اپنے لوگوں کے لیے ختم ہو چکی ہے۔“ میں نے عرض کی پھر آپ کس بات پر ہم سے بیعت لیں گے؟ تو فرمایا: ”اسلام اور جہاد پر۔“
|