Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب الجنائز
کتاب: صلاۃ جنازہ کے احکام و مسائل
50. بَابُ : مَا جَاءَ فِي اتِّبَاعِ النِّسَاءِ الْجَنَائِزَ
باب: عورتوں کے جنازے کے ساتھ جانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1577
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ حَفْصَةَ ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ ، قَالَتْ:" نُهِينَا عَنِ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ وَلَمْ يُعْزَمْ عَلَيْنَا".
ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم عورتوں کو جنازے کے ساتھ جانے سے منع کر دیا گیا، لیکن ہمیں تاکیدی طور پر نہیں روکا گیا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الجنائز29 (1278)، صحیح مسلم/الجنائز11 (938)، (تحفة الأشراف: 18139)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الجنائز 44 (3167)، مسند احمد (6/408) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ یہ ممانعت تنزیہی ہے، یعنی جنازہ میں نہ جانا زیادہ بہتر ہے، جمہور علماء کا یہی قول ہے، اور بعضوں کے نزدیک یہ امر حرام ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1577 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1577  
اردو حاشہ:
فائدہ:
پختہ حکم کامطلب حرمت کی صراحت ہے۔
یعنی اللہ کے رسول ﷺ نے منع تو فرمایا لیکن زیادہ سختی سے نہیں۔
گویا حضرت ام عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے فرمان کے مطابق جنازے کے ساتھ عورتوں کا جانا حرام نہیں مکروہ ہے۔
اور مکروہ سے اجتناب ہی افضل ہوتا ہے۔
نماز جنازہ میں عورتوں کا شریک ہونا جائز ہے۔
صحیح مسلم میں ہے کہ جب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات ہوئی۔
تو نبی اکرمﷺ کی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پیغام بھیجا کہ جنازہ مسجد میں لایا جائے۔
تاکہ وہ بھی نماز جنازہ میں شریک ہوسکیں۔
چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔
جنازہ امہات المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حجروں کے پاس رکھا گیا تا کہ وہ جنازہ پڑھ لیں۔
پھر اسے مقاعد کی طرف باب الجنائز سے (نکال کر قبرستان میں)
لے جایا گیا۔ (بعد میں)
انھیں معلوم ہوا کہ کچھ لوگوں ن اس عمل پر تنقید کی ہے۔
اور کہا کہ (رسول اللہﷺ کے زمانہ مبارک میں)
جنازہ مسجد میں نہیں لے جایا جاتا تھا۔
حضرت عائشہ کو یہ بات معلوم ہوتی تو فرمایا لوگوں کو جس بات کا علم نہیں ہوتا اس پر کتنی جلدی تنقید کرنے لگتے ہیں۔
ہم پر یہ تنقید کرتے ہیں کہ جنازہ مسجد میں لے جایاگیا۔
حالانکہ رسول اللہﷺ نے سہیل بن بیضاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاجنازہ مسجد ہی کے اندر ادا کیا تھا۔ (صحیح مسلم، الجنائز، باب الصلاۃ علی الجنازۃ فی المسجد، حدیث: 973)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1577   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 463  
´خواتین کی جنازوں میں شرکت کا بیان`
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہمیں جنازوں میں شرکت سے منع کر دیا گیا مگر یہ ممانعت ہم پر لازمی قرار نہیں دی گئی۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 463]
لغوی تشریح:
«نُهِينَا» صیغہ مجہول۔
«لَمْ يُعْزَم» صیغہ مجہول، یعنی یہ ممانعت ہمارے لیے لازمی قرار نہیں دی گئی۔ یہ نہی کراہت و ناپسندیدگی کے لیے ہے۔ شاید انہوں نے قرائن سے ممانعت و نہی کو کراہت پر محمول کیا ہے ورنہ درحقیقت نہی کو تحریم پر محمول کیا جاتا ہے اور نہی میں اصل بھی یہی ہے۔

فوائد و مسائل:
یہ حدیث اگرچہ موقوف ہے لیکن مرفوع کے حکم میں ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں اس بات کی صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں منع فرمایا۔ [صحيح البخاري، الحيض، حديث: 313]
➋ اس حدیث سے خواتین کی جنازوں میں شرکت ممنوع معلوم ہوتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ پہلے خواتین کو جنازوں میں شریک ہونے اور قبرستان میں جانے سے منع فرما دیا گیا ہو کیونکہ ان میں بےصبری زیادہ ہوتی ہے مگر جب ان میں اسلامی شعور کافی حد تک بیدار ہو گیا تو جس طرح آپ نے قبرستان جانے کی اجازت دے دی اسی طرح جنازے میں شرکت کی بھی اجازت دے دی ہو، چنانچہ صحیح مسلم میں ہے کہ جب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم نے پیغام بھیجا کہ جنازہ مسجد میں لایا جائے تاکہ وہ بھی نماز جنازہ میں شریک ہوئیں، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ جنازہ امہات المؤمنین کے حجروں کے پاس رکھا گیا تھا تاکہ وہ جنازہ پڑھ لیں، پھر اسے مقاعد کی طرف باب الجنائز سے نکال کر قبرستان میں لے جایا گیا۔ (بعد میں) انہیں معلوم ہوا کہ کچھ لوگوں نے اس عمل پر تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں جنازہ مسجد میں نہیں لے جایا جاتا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ بات معلوم ہوئی تو فرمایا: لوگوں کو جس بات کا علم نہیں ہوتا، اس پر کتنی جلدی تنقید کرنے لگتے ہیں، ہم پر تنقید کرتے ہیں کہ جنازہ مسجد میں لے جایا گیا، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل بن بیضاء کا جنازہ مسجد ہی کے اندر ادا کیا تھا۔ [صحيح مسلم، الجنائز، باب الصلاة عني الجنازة فى المسجد، حديث: 973]
➌ اس حدیث سے درج ذیل دو مسئلے ثابت ہوئے:
ایک تو یہ کہ عورت بھی نماز جنازہ بھی شرکت کرسکتی ہے،
اور دوسرا یہ کہ مسجد کے اندر بھی نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 463   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3167  
´عورتوں کا جنازے کے ساتھ جانا۔`
ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں ہمیں جنازہ کے پیچھے پیچھے جانے سے روکا گیا ہے لیکن (روکنے میں) ہم پر سختی نہیں برتی گئی۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3167]
فوائد ومسائل:
بہتر یہی ہے کہ عورتیں جنازے کے ساتھ نہ جایئں۔
اگر جایئں تو آداب شرعیہ کا لحاظ رکھنا واجب ہے، یعنی بے حجابی نہ ہو۔
بے صبری نہ ہو۔
اور رونا پیٹنا بھی نہ ہو۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3167   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1278  
1278. حضرت ام عطیہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہمیں جنازے کے ساتھ چلنے سے منع کیا گیا، لیکن اس سلسلے میں ہم پر سختی نہیں کی جاتی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1278]
حدیث حاشیہ:
بہر حال عورتوں کے لیے جنازہ کے ساتھ جانا منع ہے۔
کیونکہ عورتیں ضعیف القلب ہوتی ہیں۔
وہ خلاف شرع حرکات کرسکتی ہیں۔
شارع کی اور بھی بہت سی مصلحتیں ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1278   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1278  
1278. حضرت ام عطیہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہمیں جنازے کے ساتھ چلنے سے منع کیا گیا، لیکن اس سلسلے میں ہم پر سختی نہیں کی جاتی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1278]
حدیث حاشیہ:
(1)
طبرانی کی روایت میں مزید تفصیل ہے، حضرت ام عطیہ ؓ فرماتی ہیں:
رسول اللہ ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے تمام خواتین کو ایک گھر میں جمع ہونے کا حکم دیا۔
پھر حضرت عمر ؓ کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا، انہوں نے فرمایا:
میں رسول اللہ ﷺ کی طرف سے قاصد بن کر آیا ہوں۔
مجھے نبی ﷺ نے تم سے چند ایک باتوں کے متعلق بیعت لینے کے لیے بھیجا ہے کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرو گی۔
اور آخر میں ہے کہ آپ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم جوان اور پردہ نشین عورتوں کو عیدگاہ لے کر چلیں اور ہمیں جنازوں کے ساتھ جانے سے منع فرمایا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکم امتناعی کی کئی اقسام ہیں۔
کچھ تو ایسی ہیں جن کا ارتکاب حرام ہے اور کچھ ایسی بھی ہیں جن پر عمل کرنا پسندیدہ اور بہتر نہیں۔
ایسی نہی تحریم کے بجائے تنزیہ اور کراہت کے معنی میں ہوتی ہے۔
(فتح الباري: 186/3) (2)
مذکورہ حدیث سے رسول اللہ ﷺ کے دور کی عورتوں کی کمال عقل ثابت ہوتی ہے کہ وہ باریک بینی کے ساتھ مراتب احکام کو جانتی تھیں۔
حضرت ام عطیہ ؓ نے مراتب نہی کی طرف اشارہ کیا ہے۔
اگرچہ شارع کو مطلوب یہی تھا کہ خواتین جنازوں کے ساتھ نہ نکلیں، البتہ جنازوں کے ساتھ چلنے کے بغیر اگر جنازے میں شرکت کا موقع مل جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں، جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے مسجد میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کی نماز جنازہ پڑھی۔
(صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 2252 (973)
حافظ ابن حجر ؒ نے زین بن منیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ نماز جنازہ کے لیے کوشش سے شرکت کرنے کی فضیلت صرف مردوں کے لیے ہے، کیونکہ نہی کا تقاضا تحریم یا کم از کم کراہت ہے جبکہ فضیلت سے استحباب ثابت ہوتا ہے، لہذا یہ فضیلت مردوں کے ساتھ خاص ہے، عورتوں کے لیے فضیلت سے کوئی حصہ نہیں ہو گا۔
(فتح الباري: 185/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1278