Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب الجنائز
کتاب: صلاۃ جنازہ کے احکام و مسائل
25. بَابُ : مَا جَاءَ فِيمَنْ كَبَّرَ خَمْسًا
باب: نماز جنازہ میں پانچ تکبیریں کہنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1505
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ . ح وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، وَأَبُو دَاوُدَ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، قَالَ: كَانَ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ يُكَبِّرُ عَلَى جَنَائِزِنَا أَرْبَعًا، وَأَنَّهُ كَبَّرَ عَلَى جِنَازَةٍ خَمْسًا، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يُكَبِّرُهَا".
عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ ہمارے جنازوں میں چار بار اللہ اکبر کہا کرتے تھے، ایک بار انہوں نے ایک جنازہ میں پانچ تکبیرات کہیں، میں نے ان سے وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانچ تکبیرات ۱؎ (بھی) کہتے تھے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الجنائز23 (961)، سنن ابی داود/الجنائز58 (3197)، سنن الترمذی/الجنائز37 (1023)، سنن النسائی/الجنائز76 (1984)، (تحفة الأشراف: 3671)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/368، 370، 371، 372) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱ ؎: جنازے کی تکبیرات کے سلسلے میں چار سے لے کر نو تک کی حدیثیں اور آثار مروی ہیں، بعض آثار سے پتہ چلتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تک بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پانچ اور چھ تکبیرات کہی ہیں، خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض شہداء احد پر نو تکبیرات کہی ہیں، بعض لوگوں نے «‏‏‏‏كان آخر ماكبر رسول الله صلى الله عليه وسلم على الجنازة أربعا» چار سے زائد تکبیرات والی حدیثوں کے منسوخ ہونے کا دعویٰ کیا ہے، لیکن اس روایت کے تمام طرق ضعیف اور ناقابل استدلال ہیں، ان کی وجہ سے صحیح سندوں سے ثابت احادیث رد نہیں کی جا سکتیں، واضح رہے جب پانچ تکبیریں کہی جائیں تو پہلی تکبیر کے بعد دعائے ثنا پڑھے، دوسری کے بعد سورہ فاتحہ اور تیسری کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ (درود) اور چوتھی کے بعد دعا اور پانچویں کے بعد سلام پھیرے۔ (ملاحظہ ہو: الروضہ الندیہ: ۱؍۴۱۶ -۴۱۹، احکام الجنائز للألبانی: ۱۴۱-۱۴۷)

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1505 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1505  
اردو حاشہ:
فائده:
اس سے معلوم ہوا کہ پانچ تکبیریں بھی جائز ہیں۔
اس صورت میں میت کے لئے کچھ دعایئں تیسری تکبیر کے بعد پڑھ لی جایئں کچھ چوتھی تکبیر کے بعد اس کے بعد پانچویں تکبیر کہہ کرسلام پھیر دیا جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1505   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 453  
´نماز جنازہ میں چار سے زیادہ تکبریں`
سیدنا عبدالرحمٰن بن ابی لیلٰی سے روایت ہے کہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ ہمارے جنازوں پرچار تکبیریں کہتے تھے مگر (خلاف معمول) ایک مرتبہ انہوں نے پانچ تکبیریں کہیں تو میں نے ان سے دریافت کیا انہوں نے جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی پانچ تکبیریں کہتے تھے۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 453]
فوائد و مسائل:
(1) اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز جنازہ میں چار سے زیادہ تکبریں بھی جائز ہیں۔
➋ تکبیرات جنازہ چار سے لے کر نو تک مروی ہیں جن کی تفصیل شیخ البانی رحمہ الله نے احکام الجنائز میں بیان کی ہے۔ احادیث اور آثار بیان کرنے کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ تکبیرات جنازہ چار سے لے کر نو تک نبی اکرم صلى الله عليه وسلم سے ثابت ہیں، ان میں سے جس پر بھی عمل کر لیا جائے جائز ہے، لیکن بہتر یہ ہے کہ تنوع اختیار کیا جائے، یعنی کبھی چار، کبھی پانچ، کبھی چھ۔۔۔ تکبیرات کے ساتھ جنازہ پڑھ لیا جائے، جیسے دعائے استفتاح وغیرہ کی بابت ہے کہ ان میں سے کوئی بھی پڑھ لی جائے تو جائز ہے۔
مزید لکھتے ہیں کہ اگر ان میں سے کسی ایک پر التزام کرنا ہو تو پھر چار تکبیرات پر کرنا چاہیے کیونکہ اس کی بابت احادیث کثرت سے مروی ہیں۔ رہی یہ بات کی صرف چار تکبیرات پر سلف اور خلف کا اجماع ہے، درست نہیں لہٰذا راجح یہی ہے کہ نماز جنازہ میں چار سے لے کر نو تک تکبیریں کہی جا سکتی ہیں، البتہ اگر ہمیشہ ایک ہی طریقے پر نماز جنازہ پڑھنی ہو تو پھر چار تکبیرات کو کثرت احادیث کی بنا پر ترجیح دینی چاہیے۔ «والله اعلم»
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [احكام الجنائز وبدعا للالباني، ص: 146، 141]
رہا تکبیرات کے ساتھ رفع الیدین کرنا تو اس کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث صحیح سند سے مروی نہیں جیسا کہ امام شوکانی، امام ابن حزم، سید سابق اور محقق عظیم شیخ البانی رحمہ الله کا موقف ہے،
اس کی بابت لکھتے ہیں کہ صرف پہلی تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کیا جائے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی ثابت ہے۔ دیکھیے: [احكام الجنائز وبدعا للالباني، ص: 147 طبع مكتبة المعارف، الرياض، والمحلي لابن حزم: 128/5 وفقه السنة: 266/1]
البتہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے متعلق مروی ہے کہ وہ نماز جنازہ کی ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کیا کرتے تھے۔ دیکھیے: [صحيح البخاري، تعليقاً، الجنائز، باب سنة، الصلاة على الجنازة، قبل الحديث: 1322، والسنن الكبري للبيهقي: 44/4]
اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی بابت معروف ہے کہ وہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر سختی سے عمل کیا کرتے تھے، لہٰذا ان کا تکبیرات جنازہ کے ساتھ رفع الیدین کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے کرتے دیکھا ہو گا۔ ان سے یہ ممکن نہیں کہ وہ کوئی ایسا عمل کریں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہ ہو۔ بنابریں تکبیرات جنازہ کے ساتھ رفع الیدین کرنے کو بدعت نہیں کہنا چاہیے کیونکہ صحابی کے عمل اور قول کو بدعت نہیں کہا جا سکتا، نیز اس کی بابت بحث و تکرار بھی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ جمہور علماء نے اسے جائز قرار دیا ہے، لہٰذا ہمیں راجح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ اگر کوئی تکبیرات جنازہ کے ساتھ رفع الیدین کرتا ہے تو اس کی بھی گنجائش ہے اور اگر کوئی نہیں کرتا تو اس کا جواز بھی ہے، اس میں بحث و تکرار اور تشدد مناسب نہیں ہے۔ «والله اعلم»
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [فتاويٰ الدين الخالص: 172، 170/7]
راوی حدیث:
[ ابن ابی لیلیٰ رحمہ اللہ رحمہ اللہ ] انصاری مدنی ہیں۔
پھر کوفہ میں منتقل ہونے کی وجہ سے کوفی کہلائے۔
کبار تابعین میں سے تھے۔
صحابہ رضی اللہ عنہ کی ایک جماعت سے ان کا سماع ثابت ہے۔
ان کی کنیت ابوعیسیٰ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے اختتام میں ابھی چھ سال باقی تھے جب ان کی پیدائش ہوئی۔ چھیاسی ہجری میں معرکہ جماجم میں فوت ہوئے اور ایک قول یہ ہے کہ انہوں نے نہر بصرہ میں ڈوب کر شہادت پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 453   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3197  
´جنازے کی تکبیرات کا بیان۔`
ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ زید یعنی ابن ارقم رضی اللہ عنہ ہمارے جنازوں پر چار تکبیریں کہا کرتے تھے اور ایک بار ایک جنازہ پر انہوں نے پانچ تکبیریں کہیں تو ہم نے ان سے پوچھا (آپ ہمیشہ چار تکبیریں کہا کرتے تھے آج پانچ کیسے کہیں؟) تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا (بھی) کہتے تھے ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مجھے ابن مثنیٰ کی حدیث زیادہ یاد ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3197]
فوائد ومسائل:
تکبیرات جنازہ تین سے لے کر نو تک مروی ہیں۔
مگر چار پر سلف اور خلف کااجماع ہے۔
پہلی تکبیر کے بعد سورۃ فاتحہ دوسری کے بعد درودابراہیمی ؑ تیسری کے بعد میت کے لئے دعا اور چوتھی کے بعد سلام ہوتا ہے۔
(عون المعبود)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3197   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1023  
´نماز جنازہ کی تکبیرات کا بیان۔`
عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ زید بن ارقم ہمارے جنازوں پر چار تکبیریں کہتے تھے۔ انہوں نے ایک جنازے پر پانچ تکبیریں کہیں ہم نے ان سے اس کی وجہ پوچھی، تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا بھی کہتے تھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1023]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1؎:
اس روایت سے معلوم ہواکہ صلاۃِجنازہ میں چارسے زیادہ تکبیریں بھی جائزہیں،
نبی کریم ﷺسے اورصحابہ کرام سے پانچ،
چھ،
سات اورآٹھ تکبیریں بھی منقول ہیں،
لیکن اکثرروایات میں چارتکبیروں ہی کاذکرہے،
بیہقی وغیرہ میں ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام کے باہمی مشورے سے چارتکبیروں کاحکم صادرفرمایا،
بعض نے اسے اجماع قراردیا ہے،
لیکن یہ صحیح نہیں،
علی رضی اللہ عنہ وغیرہ سے چارسے زائدتکبیریں بھی ثابت ہیں،
چوتھی تکبیرکے بعد کی تکبیرات میں میت کے لیے دعاہوتی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1023   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2216  
عبدالرحمان بن ابی لیلیٰ بیان کرتے ہیں کہ زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمارے جنازوں پر چارتکبیرات کہا کرتے تھے، اور انہوں نے ایک جنازہ پر پانچ تکبیریں کہیں تو میں نے ان سے پوچھا، انہوں نے جواب دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی (بعض دفعہ) ایسے ہی کیا کرتے تھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2216]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عام طور پر جنازہ میں چارتکبیرات کہتے تھے اور عام طور پر خلفاء راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین کا بھی یہی طریقہ تھا لیکن بعض اوقات ان سے زائد تکبیریں بھی آپﷺ سے ثابت ہیں یعنی پانچ سے سات تک۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2216