كِتَاب الصَّلَاةِ کتاب: نماز کے احکام و مسائل 22. باب فِي كَرَاهِيَةِ الْبُزَاقِ فِي الْمَسْجِدِ باب: مسجد میں تھوکنا مکروہ ہے۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور اس کا کفارہ یہ ہے کہ تم اسے (مٹی) میں چھپا دو“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «حدیث مسلم بن إبراہیم عن ہشام وأبان تفرد بہ أبو داود، تحفة (1137، 1383)، وحدیث مسلم بن إبراہیم عن شعبة، صحیح البخاری/الصلاة 37 (415)، صحیح مسلم/المساجد 13 (552)، (تحفة الأشراف: 1251)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الجمعة 49 (572)، سنن النسائی/المساجد 30 (724)، مسند احمد (3/173، 232، 274، 277)، سنن الدارمی/الصلاة 116 (1435) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: جن مسجدوں کا فرش خام اور غیر پختہ ہوتا ہے وہاں تو یہ ممکن ہے کہ تھوک کر اسے مٹی میں دبا دیں، مگر جن مسجدوں کا فرش پختہ ہو وہاں تھوکنا بالکل منع ہے، اگر تھوکنے کی ضرورت آ ہی پڑے تو بہتر طریقہ یہ ہے کہ دستی یا ٹیشو پیپر میں تھوک کر جیب میں رکھ لے تاکہ دوسروں کو تکلیف نہ پہنچے اور نہ مسجد گندی ہو۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور اس کا کفارہ یہ ہے کہ اس پر مٹی ڈال دو“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 37 (552)، سنن الترمذی/الجمعة 49 (572)، سنن النسائی/المساجد 30 (724)، (تحفة الأشراف: 1428) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسجد میں حلق سے بلغم نکال کر ڈالنا ...“، پھر راوی نے اوپر والی حدیث کے مثل ذکر کیا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 1211)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/109، 209، 234) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اس مسجد میں داخل ہو اور اس میں تھوکے یا بلغم نکالے تو اسے مٹی کھود کر دفن کر دینا چاہیئے، اگر وہ ایسا نہ کر سکے تو اپنے کپڑے میں تھوک لے، پھر اسے لے کر نکل جائے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 13595)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصلاة 34 (408 و 409)، 35 (410 و 411)، صحیح مسلم/المساجد 13 (548)، سنن النسائی/المساجد 32 (726)، سنن ابن ماجہ/المساجد والجماعات 10 (724)، مسند احمد (2/260، 324، 471، 532)، سنن الدارمی/الصلاة 116 (1438) (حسن صحیح)» (مؤلف کی سند میں ”ابن أبی حدرد“ لین الحدیث ہیں جن کی متابعت ”حمید بن عبدالرحمن“ نے کی ہے اس لئے یہ حدیث حسن صحیح ہے)
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
طارق بن عبداللہ محاربی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی نماز کے لیے کھڑا ہو یا جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو اپنے آگے اور داہنی طرف نہ تھوکے لیکن (اگر تھوکنا ہو اور جگہ خالی ہو) تو بائیں طرف تھوکے یا بائیں قدم کے نیچے تھوکے پھر اسے مل دے“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الجمعة 49 (571)، سنن النسائی/المساجد 33 (727)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 61 (1021)، (تحفة الأشراف: 4987)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/396) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن خطبہ دے رہے تھے کہ اسی دوران اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے قبلہ میں بلغم دیکھا تو آپ لوگوں پر ناراض ہوئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھرچ کر صاف کیا۔ راوی کہتے ہیں: میرے خیال میں ابن عمر نے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زعفران منگا کر اس میں رگڑ دیا اور فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی نماز پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے سامنے ہوتا ہے ۱؎، لہٰذا وہ اپنے سامنے نہ تھوکے“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسماعیل اور عبدالوارث نے یہ حدیث ایوب سے اور انہوں نے نافع سے روایت کی ہے اور مالک، عبیداللہ اور موسیٰ بن عقبہ نے (براہ راست) نافع سے حماد کی طرح روایت کی ہے مگر ان لوگوں نے زعفران کا ذکر نہیں کیا ہے، اور معمر نے اسے ایوب سے روایت کیا ہے اور اس میں زعفران کا لفظ موجود ہے، اور یحییٰ بن سلیم نے عبیداللہ کے واسطہ سے اور انہوں نے نافع کے واسطہ سے (زعفران کے بجائے) «خلوق» (ایک قسم کی خوشبو) کا ذکر کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة 33 (406)، والأذان 94 (753)، والعمل في الصلاة 2 (1213)، والأدب 75 (6111)، صحیح مسلم/المساجد 13 (547)، (تحفة الأشراف: 7518)وقد أخرجہ: سنن النسائی/المساجد 30 (724)، سنن ابن ماجہ/المساجد والجماعات 10 (724)، موطا امام مالک/القبلہ 3 (4)، مسند احمد (2/32، 66، 83، 96) سنن الدارمی/الصلاة 116 (1437) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اللہ تعالی کی رحمت مصلی کے سامنے ہوتی ہے کیونکہ دوسری روایت میں ہے «فإن الرحمة تواجهه» ۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کی شاخوں کو پسند کرتے تھے اور ہمیشہ آپ کے ہاتھ میں ایک شاخ رہتی تھی، (ایک روز) آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے تو قبلہ کی دیوار میں بلغم لگا ہوا دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھرچا پھر غصے کی حالت میں لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”کیا تم میں سے کسی کو اپنے منہ پر تھوکنا اچھا لگتا ہے؟ جب تم میں سے کوئی شخص قبلے کی طرف منہ کرتا ہے تو وہ اپنے رب عزوجل کی طرف منہ کرتا ہے اور فرشتے اس کی داہنی طرف ہوتے ہیں، لہٰذا کوئی شخص نہ اپنے داہنی طرف تھوکے اور نہ ہی قبلہ کی طرف، اگر تھوکنے کی حاجت ہو تو اپنے بائیں جانب یا اپنے پیر کے نیچے تھوکے، اگر اسے جلدی ہو تو اس طرح کرے“۔ ابن عجلان نے اسے ہم سے یوں بیان کیا کہ وہ اپنے کپڑے میں تھوک کر اس کو مل لے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 4275)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصلاة 34 (408، 409)، 35 (410، 411)، 36 (413)، صحیح مسلم/المساجد 13 (550)، سنن النسائی/المساجد 32 (726)، سنن ابن ماجہ/المساجد 10 (761)، مسند احمد (3/6، 24، 58، 88، 93) (حسن صحیح)»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
ابو سہلہ سائب بن خلاد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں (احمد کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ہیں) کہ ایک شخص نے کچھ لوگوں کی امامت کی تو قبلہ کی جانب تھوک دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھ رہے تھے، جب وہ شخص نماز سے فارغ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ شخص اب تمہاری امامت نہ کرے“، اس کے بعد اس نے نماز پڑھانی چاہی تو لوگوں نے اسے امامت سے روک دیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، (میں نے منع کیا ہے)“، صحابی کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: ”تم نے اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچائی ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 3789)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/56) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
عبداللہ بن شخیر بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ نماز پڑھ رہے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں اپنے بائیں قدم کے نیچے تھوکا۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 13 (554)، (تحفة الأشراف: 5348)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/المساجد 34 (728)، مسند احمد (4/25، 26) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
اس سند سے ابوالعلاء یزید بن عبداللہ بن الشخیر نے اپنے والد عبداللہ بن الشخیر رضی اللہ عنہ سے اسی معنی کی حدیث روایت کی ہے، اس میں اتنا اضافہ کیا ہے کہ ”پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے جوتے سے مل دیا“۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 5348) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوسعید حمیری کہتے ہیں کہ میں نے دمشق کی مسجد میں واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے بوریے پر تھوکا، پھر اپنے پاؤں سے اسے مل دیا، ان سے پوچھا گیا: آپ نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے کہا: اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 11754)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/490) (ضعیف)» (اس کے راوی ”فَرَج“ ضعیف اور ”ابوسعید حمیری“ مجہول ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
عبادہ بن ولید بن عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ ہم جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے پاس آئے، وہ اپنی مسجد میں تھے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری اس مسجد میں تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ابن طاب ۱؎ کی ایک ٹہنی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے قبلہ میں بلغم دیکھا تو اس کی طرف بڑھے اور اسے ٹہنی سے کھرچا، پھر فرمایا: ”تم میں سے کون یہ پسند کرتا ہے کہ اللہ اس سے اپنا چہرہ پھیر لے؟“، پھر فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص کھڑے ہو کر نماز پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے سامنے ہوتا ہے، لہٰذا اپنے سامنے اور اپنے داہنی طرف ہرگز نہ تھوکے، بلکہ اپنے بائیں طرف اپنے بائیں پیر کے نیچے تھوکے اور اگر جلدی میں کوئی چیز (بلغم) آ جائے تو اپنے کپڑے سے اس طرح کرے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑے کو اپنے منہ پر رکھا (اور اس میں تھوکا) پھر اسے مل دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے «عبير» ۲؎ لا کر دو“، چنانچہ محلے کا ایک نوجوان اٹھا، دوڑتا ہوا اپنے گھر والوں کے پاس گیا اور اپنی ہتھیلی میں «خلوق» ۳؎ لے کر آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لے کر لکڑی کی نوک میں لگایا اور جہاں بلغم لگا تھا وہاں اسے پوت دیا۔ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اسی وجہ سے تم لوگ اپنی مسجدوں میں «خلوق» لگایا کرتے ہو۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 2359)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/324) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ابن طاب ایک قسم کی کھجور کا نام ہے۔ ۲؎: ایک قسم کی خوشبو ہے۔ ۳؎: ایک قسم کی خوشبو ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|