كِتَاب الصَّلَاةِ کتاب: نماز کے احکام و مسائل 5. باب فِي وَقْتِ صَلاَةِ الْعَصْرِ باب: عصر کے وقت کا بیان۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر ایسے وقت میں پڑھتے تھے کہ سورج سفید، بلند اور زندہ ہوتا تھا، اور جانے والا (عصر پڑھ کر) عوالی مدینہ تک جاتا اور سورج بلند رہتا تھا۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 34 (621)، سنن النسائی/المواقیت 7 (508)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 5 (682)، (تحفة الأشراف: 1522)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/المواقیت 13 (550)، والاعتصام 16 (7329)، موطا امام مالک/وقوت الصلاة 1(11)، مسند احمد (3/223)، سنن الدارمی/الصلاة 15 (1244) (صحیح)»
وضاحت: یہ دلیل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اول وقت میں عصر پڑھ لیا کرتے تھے جس کی تفصیل گذر چکی ہے کہ ایک مثل سایہ سے عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ سورج زندہ ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ آپ اس کی گرمی و حرارت محسوس کریں۔ مدینہ کے جنوب مشرق کی جانب کی آبادیوں کو «عوالی» (بالائی علاقے) اور شمال کی جانب کے علاقے کو «سافلہ» (نشیبی علاقہ) کہتے تھے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
زہری کا بیان ہے کہ عوالی مدینہ سے دو یا تین میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ راوی کا کہنا ہے کہ میرا خیال ہے کہ انہوں نے چار میل بھی کہا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 19378) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح مقطوع
خیثمہ کہتے ہیں کہ سورج کے زندہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ تم اس کی تپش اور گرمی محسوس کرو۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف:18618) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح مقطوع
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر ایسے وقت میں ادا فرماتے تھے کہ دھوپ میرے حجرے میں ہوتی، ابھی دیواروں پر چڑھی نہ ہوتی۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المواقیت 1 (522)، 13 (544)، والخمس 4 (3103)، صحیح مسلم/المساجد 31 (612)، (تحفة الأشراف: 16596)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصلاة 6 (109)، سنن النسائی/المواقیت 7 (506)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 5 (683)، موطا امام مالک/وقوت الصلاة 1(2) (صحیح)»
وضاحت: حجرہ عربی زبان میں گھر کے ساتھ گھرے ہوئے آنگن کو بھی کہتے ہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کے صحن کی دیواریں چھوٹی ہی تھیں اس لیے دھوپ ابھی آنگن ہی میں ہوتی تھی۔ مشرقی دیوار پر چڑھتی نہ تھی کہ عصر کا وقت ہو جاتا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ لیتے تھے۔ معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اول وقت میں نماز عصر پڑھتے تھے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
علی بن شیبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ آئے تو دیکھا کہ آپ عصر کو مؤخر کرتے جب تک کہ سورج سفید اور صاف رہتا تھا۔
تخریج الحدیث: «تفرد به أبوداود، (تحفة الأشراف: 10019) (ضعیف)» (اس کے دو راوی محمد بن یزید اور یزید مجہول ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خندق کے روز فرمایا: ”ہم کو انہوں نے (یعنی کافروں نے) نماز وسطیٰ (یعنی عصر) سے روکے رکھا، اللہ ان کے گھروں اور قبروں کو جہنم کی آگ سے بھر دے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجہاد 98 (2931)، والمغازي 29 (4111)، وتفسیر البقرة (4533)، والدعوات 58 (6396)، صحیح مسلم/المساجد 35 (626)، 36 (627)، سنن الترمذی/تفسیر البقرة 42 (2984)، سنن النسائی/الصلاة 14 (474)، (تحفة الأشراف: 10232)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الصلاة 6 (684)، مسند احمد (1/81، 82، 113، 122، 126، 135، 137، 144، 146، 150، 151، 152، 153، 154)، سنن الدارمی/الصلاة 28 (1286) (صحیح)»
وضاحت: یہ حدیث آیت کریمہ: «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وقوموا لله قانتين» ”نمازوں کی محافظت اور پابندی کرو اور درمیانی (یا افضل) نماز کی، اور اللہ کے لیے باادب ہو کر کھڑے ہوؤ“۔ کی تفسیر کرتی ہے کہ اس میں صلوۃ وسطیٰ سے مراد عصر کی نماز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی رحیم و شفیق شخصیت کی زبان مبارک سے اس قسم کی شدید بددعا کا جاری ہونا واضح کرتا ہے کہ نماز کا بروقت ادا کرنا کتنا اہم ہے ہمیں بھی ہر نماز بروقت ادا کرنی چاہیے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
قعقاع بن حکیم ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام ابویونس سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے حکم دیا کہ میں ان کے لیے ایک مصحف لکھوں اور کہا کہ جب تم آیت کریمہ: «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وصلاة العصر وقوموا لله قانتين» پر پہنچنا تو مجھے بتانا، چنانچہ جب میں اس آیت پر پہنچا تو انہیں اس کی خبر دی، تو انہوں نے مجھ سے اسے یوں لکھوایا: «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وصلاة العصر وقوموا لله قانتين» ۱؎ ۲؎، پھر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 36 (629)، سنن الترمذی/تفسیر البقرة (2982)، سنن النسائی/الصلاة 14 (473)، (تحفة الأشراف: 17809)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/صلاة الجماعة 7 (25)، مسند احمد (6/73) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز وسطیٰ (درمیانی نماز) نماز عصر نہیں کوئی اور نماز ہے لیکن یہ قرأت شاذ ہے اس سے استدلال صحیح نہیں، یا یہ عطف عطف تفسیری ہے۔ ۲؎: نمازوں کی حفاظت کرو خصوصی طور پر درمیان والی نماز کی اور عصر کی اور اللہ کے سامنے باادب کھڑے رہا کرو۔ قال الشيخ الألباني: صحيح ثم
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر دوپہر کو پڑھا کرتے تھے، اور کوئی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب پر اس سے زیادہ سخت نہ ہوتی تھی، تو یہ آیت نازل ہوئی: «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى» ۱؎ زید نے کہا: بیشک اس سے پہلے دو نماز ہیں (ایک عشاء کی، دوسری فجر کی) اور اس کے بعد دو نماز ہیں (ایک عصر کی دوسری مغرب کی)۔
تخریج الحدیث: «تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف: 3731)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/183)، موطا امام مالک/صلاة الجماعة 7 (27موقوفا) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: نماز وسطی سے مراد کون سی نماز ہے اس سلسلے میں مختلف حدیثیں وارد ہیں، زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ اس سے عصر مراد ہے، اکثر علماء کا رجحان اسی جانب ہے، واللہ اعلم بالصواب۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے سورج ڈوبنے سے پہلے عصر کی ایک رکعت پالی تو اس نے نماز عصر پالی، اور جس شخص نے سورج نکلنے سے پہلے فجر کی ایک رکعت پالی تو اس نے نماز فجر پالی“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 30 (608)، سنن النسائی/المواقیت 10 (515)، 28 (551)، (تحفة الأشراف: 13576)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/المواقیت 28 (579)، سنن الترمذی/الصلاة 25 (186)، سنن النسائی/11 (516، 517)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 11 (1122)، موطا امام مالک/وقوت الصلاة 1(5)، مسند احمد (2/254، 260، 282، 348، 399، 462، 474)، سنن الدارمی/الصلاة 22 (1258) (صحیح)»
وضاحت: مذکورہ بالاحدیث صاحب عذر کے لیے ہے مثلاً جب کوئی سوتا رہ گیا ہو یا بھول گیا ہو اور بالکل آخر وقت میں جاگا ہو آخر وقت میں نماز یاد آئی ہو تو اس کے لیے یہی وقت ہے۔ مگر جو بغیر کسی عذر کے تاخیر کرے تو اس کے لیے انتہائی مکروہ ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
علاء بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ ہم ظہر کے بعد انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو دیکھا کہ وہ عصر پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں، جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے نماز کے جلدی ہونے کا ذکر کیا یا خود انہوں نے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”یہ منافقوں کی نماز ہے، یہ منافقوں کی نماز ہے، یہ منافقوں کی نماز ہے کہ آدمی بیٹھا رہے یہاں تک کہ جب سورج زرد ہو جائے اور وہ شیطان کی دونوں سینگوں کے بیچ ہو جائے یا اس کی دونوں سینگوں پر ہو جائے ۱؎ تو اٹھے اور چار ٹھونگیں لگا لے اور اس میں اللہ کا ذکر صرف تھوڑا سا کرے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 34 (622)، سنن الترمذی/الصلاة 6 (160)، سنن النسائی/المواقیت 8 (512)، (تحفة الأشراف: 1122)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/القرآن 10(46)، مسند احمد (3/102، 103، 149، 185، 247) (صحیح)»
وضاحت: یہ حدیث گویا پہلی حدیث ۴۱۲ کی شرح ہے کہ اگر کسی سے عذر شرعی کی بناء پر تاخیر ہوئی ہو اور اس نے سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے ایک رکعت پالی ہو تو اس نے گویا وقت میں نماز پالی اور یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر خاص رحمت ہے۔ اور اگر بغیر عذر کے تاخیر کرے تو یہ منافقت کی علامت ہے۔ ”سورج کا شیطان کے دو سینگوں کے درمیان ہونا“ کے مفہوم میں اختلاف ہے، علامہ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”کہا جاتا ہے کہ یہ حقیقت ہے اور سورج کے طلوع و غروب کے وقت شیطان سورج کے سامنے آ جاتا ہے اور ایسے لگتا ہے گویا سورج اس کے سر کے درمیان سے نکل رہا ہے یا غروب ہو رہا ہے اور سورج کے پجاری بھی ان اوقات میں اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہی تو یہ سمجھتا ہے کہ اسے ہی سجدہ کیا جا رہا ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ”دو سینگوں“ سے مراد مجاز شیطان کا بلند ہونا اور شیطانی قوتوں کا غلبہ ہے اور کفار طلوع و غروب کے اوقات مین سورج کو سجدہ کرتے ہیں۔“ استثنائی صورتوں کو قاعدہ یا کلیہ نہیں بنانا چاہیے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کی عصر چھوٹ گئی گویا اس کے اہل و عیال تباہ ہو گئے اور اس کے مال و اسباب لٹ گئے“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عبیداللہ بن عمر نے «وتر» (واؤ کے ساتھ) کے بجائے «أتر» (ہمزہ کے ساتھ) کہا ہے (دونوں کے معنی ہیں: لوٹ لیے گئے)۔ اس حدیث میں «وتر» اور «أتر» کا اختلاف ایوب کے تلامذہ میں ہوا ہے۔ اور زہری نے سالم سے، سالم نے اپنے والد عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اور عبداللہ بن عمر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ نے «وتر» فرمایا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المواقیت 14 (552)، صحیح مسلم/المساجد 35 (626)، سنن النسائی/الصلاة 17 (479)، (تحفة الأشراف: 8345)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصلاة 16 (175)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 6 (685)، موطا امام مالک/وقوت الصلاة 5 (21)، مسند احمد (2/8، 13، 27، 48، 64، 75، 76، 102، 134، 145، 147)، سنن الدارمی/الصلاة 27 (1267) (صحیح)»
وضاحت: امام خطابی نے کہا ہے وُتِرَ کے معنی ہیں کم کر دیا گیا یا چھین لیا گیا، پس وہ شخص بغیر اہل اور مال کے تنہا رہ گیا، اس لیے ایک مسلمان کو نماز عصر کو فوت کرنے سے اسی طرح بچنا چاہیے جیسے وہ گھر والوں سے اور مال کے فوت ہونے سے ڈرتا ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو «باب ماجاء فی السھوعن وقت صلاۃ العصر» کے ذیل میں درج فرمایا ہے۔ اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ انسان عصر کی نماز میں بھول کر بھی تاخیر کرے تو بے حدوشمار گھاٹے اور خسارے میں ہے، کجا یہ کہ عمداً تغافل کا شکار ہو۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوعمرو یعنی اوزاعی کا بیان ہے کہ عصر فوت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ زمین پر جو دھوپ ہے وہ تمہیں زرد نظر آنے لگے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابو داود، (تحفة الأشراف: 18965) (ضعیف)» (ولید مدلس راوی ہیں، نیز یہ اوزاعی کا اپنا خیال ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف مقطوع
|