كِتَاب الصَّلَاةِ کتاب: نماز کے احکام و مسائل 26. باب مَتَى يُؤْمَرُ الْغُلاَمُ بِالصَّلاَةِ باب: بچے کو نماز پڑھنے کا حکم کب دیا جائے؟
سبرہ بن معبد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بچے سات سال کے ہو جائیں تو انہیں نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب دس سال کے ہو جائیں تو اس (کے ترک) پر انہیں مارو“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصلاة 182 (407)، سنن الدارمی/الصلاة 141 (1471)، (تحفة الأشراف: 3810)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/404) (حسن صحیح)»
وضاحت: اس حکم کا تعلق بچے اور بچی دونوں سے ہے اور مقصد یہ ہے کہ شعور کی عمر کو پہنچتے ہی شریعت کے اوامر ونواہی اور دیگر آداب کی تلقین و مشق کا عمل شروع ہو جانا چاہیے تاکہ بلوغت کو پہنچتے پہنچتے اس کے خوب عادی ہو جائیں۔ اسلام میں جسمانی سزا کا تصور موجود ہے مگر بے تکا نہیں ہے۔ پہلے تین سال تک تو ایک طرح سے والدین کا امتحان ہے کہ زبانی تلقین سے کام لیں اور خود عملی نمونہ پیش کریں۔ اس کے بعد سزا بھی دیں مگر ایسی جو زخمی نہ کرے اور چہرے پر بھی نہ مارا جائے۔ کیونکہ چہرے پر مارنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تمہاری اولاد سات سال کی ہو جائے تو تم ان کو نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو انہیں اس پر (یعنی نماز نہ پڑھنے پر) مارو، اور ان کے سونے کے بستر الگ کر دو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابو داود، (تحفة الأشراف: 8717)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/187) (حسن صحیح)»
وضاحت: اس حدیث سے کئی اہم مسائل معلوم ہوتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ جب بچے دس سال کی عمر کو پہنچ جائیں تو ان کے بستر الگ الگ کر دئیے جائیں۔ چاہے وہ حقیقی بھائی ہوں یا بہنیں یا بھائی بہن ملے جلے۔ اس حکم کا تعلق بچے اور بچی دونوں سے ہے اور مقصد یہ ہے کہ شعور کی عمر کو پہنچتے ہی شریعت کے اوامر ونواہی اور دیگر آداب کی تلقین و مشق کا عمل شروع ہو جانا چاہیے تاکہ بلوغت کو پہنچتے پہنچتے اس کے خوب عادی ہو جائیں۔ اسلام میں جسمانی سزا کا تصور موجود ہے مگر بے تکا نہیں ہے۔ پہلے تین سال تک تو ایک طرح سے والدین کا امتحان ہے کہ زبانی تلقین سے کام لیں اور خود عملی نمونہ پیش کریں۔ اس کے بعد سزا بھی دیں مگر ایسی جو زخمی نہ کرے اور چہرے پر بھی نہ مارا جائے۔ کیونکہ چہرے پر مارنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
داود بن سوار مزنی سے اس سند سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے، اس میں انہوں نے یہ اضافہ کیا ہے کہ ”جب کوئی شخص اپنی لونڈی کی اپنے غلام یا مزدور سے شادی کر دے تو پھر وہ اس لونڈی کی ناف کے نیچے اور گھٹنوں کے اوپر نہ دیکھے“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: وکیع کو داود بن سوار کے نام میں وہم ہوا ہے۔ ابوداود طیالسی نے بھی یہ حدیث انہیں سے روایت کی ہے اور اس میں «حدثنا أبو حمزة سوار الصيرفي» ہے (یعنی ان کے نزدیک بھی صحیح سوار بن داود ہے)۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 8717) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
ہشام بن سعد کا بیان ہے کہ مجھ سے معاذ بن عبداللہ بن خبیب جہنی نے بیان کیا، ہشام کہتے ہیں: ہم معاذ کے پاس آئے تو انہوں نے اپنی بیوی سے پوچھا: بچے کب نماز پڑھنا شروع کریں؟ تو انہوں نے کہا: ہم میں سے ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کر رہا تھا کہ اس کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”جب بچہ اپنے داہنے اور بائیں ہاتھ میں تمیز کرنے لگے تو تم اسے نماز کا حکم دو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 15710) (ضعیف)» (اس میں معاذ کی اہلیہ مبہم اور معاذ کے شیخ مجہول ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
|