كِتَاب الصَّلَاةِ کتاب: نماز کے احکام و مسائل 9. باب فِي الْمُحَافَظَةِ عَلَى وَقْتِ الصَّلَوَاتِ باب: اوقات نماز کی حفاظت اور اہتمام کا بیان۔
عبداللہ بن صنابحی نے کہا کہ ابومحمد کا کہنا ہے کہ وتر واجب ہے تو اس پر عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے کہا: ابومحمد نے غلط کہا ۱؎، میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”اللہ تعالیٰ نے پانچ نماز فرض کی ہیں، جو شخص ان کے لیے اچھی طرح وضو کرے گا، اور انہیں ان کے وقت پر ادا کرے گا، ان کے رکوع و سجود کو پورا کرے گا تو اللہ تعالیٰ کا اس سے وعدہ ہے کہ اسے بخش دے گا، اور جو ایسا نہیں کرے گا تو اللہ کا اس سے کوئی وعدہ نہیں چاہے تو اس کو بخش دے، چاہے تو عذاب دے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 5101)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الصلاة 6 (462)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 194 (1401)، مسند احمد (5/317) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: عبادہ رضی اللہ عنہ کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ وتر پانچ نمازوں کی طرح فرض اور واجب نہیں ہے۔ مگر مسنون اور موکد ہونے میں کوئی اختلاف نہیں جیسے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں بھی وتر نہ چھوڑا کرتے تھے۔ کامل و مقبول نماز کے لیے تمام سنن و واجبات کو جاننا اور ان پر عمل کرنا چاہیے یعنی مسنون کامل وضو، مشروع افضل وقت، اعتدال ارکان اور حضور قلب وغیرہ۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ام فروہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا: کون سا عمل افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز کو اس کے اول وقت میں ادا کرنا“۔ خزاعی کی روایت میں ہے کہ انہوں نے (قاسم نے) اپنی پھوپھی (جنہیں ام فروہ کہا جاتا تھا اور جنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی) سے روایت کی ہے، اس میں «سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم» کی بجائے «أن النبي صلى الله عليه وسلم سئل» ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصلاة 13(170)، (تحفة الأشراف: 18341)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/375، 374، 440) (صحیح)» (اس کے راوی قاسم مضطرب الحدیث اور عبداللہ بن عمر سیٔ الحفظ ہیں، نیز بعض أمھاتہ مجہول راوی ہیں) لیکن یہ حدیث شواہد کی بنا پر اس باب میں صحیح ہے، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث متفق علیہ (بخاری و مسلم) میں ہے
قال الشيخ الألباني: صحيح
عمارہ بن رویبہ کہتے ہیں کہ اہل بصرہ میں سے ایک آدمی نے ان سے پوچھا اور کہا: آپ مجھے ایسی بات بتائیے جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”وہ آدمی جہنم میں داخل نہ ہو گا جس نے سورج نکلنے سے پہلے اور سورج ڈوبنے سے پہلے نماز پڑھی“، اس شخص نے کہا: کیا آپ نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ یہ جملہ اس نے تین بار کہا، انہوں نے کہا: ہاں، ہر بار وہ یہی کہتے تھے: میرے دونوں کانوں نے اسے سنا ہے اور میرے دل نے اسے یاد رکھا ہے، پھر اس شخص نے کہا: میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے فرماتے سنا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 37 (634)، سنن النسائی/الصلاة 13 (472)، 21 (488)، (تحفة الأشراف: 10378)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/136، 261) (صحیح)»
وضاحت: اس حدیث میں نماز فجر اور عصر کی خاص اہمیت کا بیان ہے۔ اور کہا جا سکتا ہے کہ جو ان کی پابندی کرے گا وہ باقی نمازوں کی بھی پابندی کرے گا یا اسے توفیق مل جائے گی۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
فضالہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جو باتیں سکھائیں ان میں یہ بات بھی تھی کہ پانچوں نماز پر محافظت کرو، میں نے کہا: یہ ایسے اوقات ہیں جن میں مجھے بہت کام ہوتے ہیں، آپ مجھے ایسا جامع کام کرنے کا حکم دیجئیے کہ جب میں اس کو کروں تو وہ مجھے کافی ہو جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عصرین پر محافظت کرو“، عصرین کا لفظ ہماری زبان میں مروج نہ تھا، اس لیے میں نے پوچھا: عصرین کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو نماز: ایک سورج نکلنے سے پہلے، اور ایک سورج ڈوبنے سے پہلے (فجر اور عصر)“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف: 11042)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/344) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو بہت زیادہ مصروف ہو اس کے لئے فقط دو وقت کی نماز کافی ہو جائے گی، بلکہ مطلب یہ ہے کہ کم سے کم ان دو وقتوں کی نماز کو اول وقت پر پابندی سے پڑھ لیا کرے (بیہقی، عراقی)۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ چیزیں ہیں، جو انہیں ایمان و یقین کے ساتھ ادا کرے گا، وہ جنت میں داخل ہو گا: جس نے وضو کے ساتھ ان پانچوں نماز کی، ان کے رکوع اور سجدوں کی اور ان کے اوقات کی محافظت کی، رمضان کے روزے رکھے، اور بیت اللہ تک پہنچنے کی طاقت رکھنے کی صورت میں حج کیا، خوش دلی و رضا مندی کے ساتھ زکاۃ دی، اور امانت ادا کی“۔ لوگوں نے پوچھا: ابوالدرداء! امانت ادا کرنے کا کیا مطلب ہے؟ تو آپ نے کہا: اس سے مراد جنابت کا غسل کرنا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف: 10930) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ ابوقتادہ بن ربعی رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: میں نے آپ کی امت پر پانچ (وقت کی) نماز فرض کی ہیں اور میری طرف سے یہ وعدہ ہے کہ جو ان کے وقتوں پر ان کی محافظت کرتے ہوئے میرے پاس آئے گا، میں اسے جنت میں داخل کروں گا، اور جس نے ان کی محافظت نہیں کی، میرا اس سے کوئی وعدہ نہیں“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 194 (1403)، (تحفة الأشراف: 12082) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: حسن
|