كِتَاب الصَّلَاةِ کتاب: نماز کے احکام و مسائل 24. باب فِي الْمَوَاضِعِ الَّتِي لاَ تَجُوزُ فِيهَا الصَّلاَةُ باب: ان جگہوں کا بیان جہاں پر نماز ناجائز ہے۔
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے لیے ساری زمین ذریعہ طہارت اور مسجد بنائی گئی ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابوداود، (تحفة الأشراف: 11969)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/145، 147، 248، 256) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی ہر پاک زمین تیمم کرنے اور نماز پڑھنے کے لائق بنا دی گئی ہے، یہ صرف امت محمدیہ کی خصوصیت ہے کہ ہم بالعموم ہر جگہ نماز پڑھ سکتے ہیں، سوائے چند مخصوص مقامات کے جن کا ذکر آگے احادیث میں آ رہا ہے۔ پہلی امتوں کو اس کے لئے بڑا اہتمام کرنا پڑتا تھا، وہ صرف عبادت خانوں ہی میں نماز پڑھ سکتی تھیں، دوسری جگہوں پر نہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوصالح غفاری کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ بابل سے گزر رہے تھے کہ ان کے پاس مؤذن انہیں نماز عصر کی خبر دینے آیا، تو جب آپ بابل کی سر زمین پار کر گئے تو مؤذن کو حکم دیا اس نے عصر کے لیے تکبیر کہی، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے قبرستان میں اور سر زمین بابل میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے ۱؎ کیونکہ اس پر لعنت کی گئی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابو داود، (تحفة الأشراف: 10328) (ضعیف)» (اس کے راوی ”عمار“ ضعیف ہیں اور ”ابوصالح الغفاری“ کا سماع علی رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں)
وضاحت: ۱؎: یہ روایت اس باب کی صحیح روایت کے معارض ہے کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ بفرض صحت اس سے مقصود یہ ہے کہ بابل میں سکونت اختیار نہ کی جائے یا یہ ممانعت خاص علی رضی اللہ عنہ کے لئے تھی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ معلوم تھا کہ یہاں کے لوگوں سے انہیں ضرر پہنچے گا۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
اس سند سے بھی علی رضی اللہ عنہ سے سلیمان بن داود کی حدیث کے ہم معنی حدیث مروی ہے، مگر اس میں: «فلما برز» کے بجائے «فلما خرج» ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 10328) (ضعیف)» (اس کے رواة میں ”الحجاج“ بھی ضعیف ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اور موسیٰ (موسیٰ بن اسمٰعیل) نے اپنی روایت میں کہا، عمرو (عمرو بن یحییٰ) کا خیال ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا): ”ساری زمین نماز پڑھنے کی جگہ ہے، سوائے حمام (غسل خانہ) اور قبرستان کے“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصلاة 120 (317)، سنن ابن ماجہ/المساجد والجماعات 4 (745)، (تحفة الأشراف: 4406)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/83، 96) (صحیح)»
وضاحت: مذکورہ سندوں میں روایت مسدد یقینی طور پر مرفوع ہے، محدثین کرام رحمہ اللہ علیہم فرامین رسول کے نقل کرنے میں بہت ہی حساس اور محتاط واقع ہوئے تھے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|