كِتَاب الصَّلَاةِ کتاب: نماز کے احکام و مسائل 4. باب فِي وَقْتِ صَلاَةِ الظُّهْرِ باب: ظہر کے وقت کا بیان۔
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ظہر پڑھتا تو ایک مٹھی کنکری اٹھا لیتا تاکہ وہ میری مٹھی میں ٹھنڈی ہو جائے، میں اسے گرمی کی شدت کی وجہ سے اپنی پیشانی کے نیچے رکھ کر اس پر سجدہ کرتا تھا۔
تخریج الحدیث: «وقد تفرد بہ أبو داود: (تحفة الأشراف: 2252)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/التطبیق 33 (1080)، مسند احمد (3/327) (حسن)»
وضاحت: معلوم ہوا کہ ظہر کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اول وقت میں گرمی کے وقت میں ادا فرماتے تھے اور آپ کے بعد خلفائے راشدین کا بھی یہی معمول رہا۔ شرعی ضرورت کے تحت اس قسم کا عمل جیسے کہ جابر رضی اللہ عنہ نے کیا جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني: حسن
اسود کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی (نماز ظہر) کا اندازہ گرمی میں تین قدم سے پانچ قدم تک اور جاڑے میں پانچ قدم سے سات قدم تک تھا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/المواقیت 5 (504)، (تحفة الأشراف: 9186) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ آپ زوال کے بعد جو زیادہ سے زیادہ تاخیر کرتے وہ اسی قدر ہوتی تھی کہ گرمیوں میں سایہ تین سے پانچ قدم اور سردیوں میں پانچ سے سات قدم تک ہوتا تھا، یعنی اصلی سایہ اور زائد دونوں کا مجموعہ ملا کر اس مقدار کو پہنچتا تھا نہ کہ صرف زائد۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، مؤذن نے ظہر کی اذان کہنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(ظہر) ٹھنڈی کر لو“، پھر اس نے اذان کہنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ٹھنڈی کر لو“، اسی طرح دو یا تین بار فرمایا یہاں تک کہ ہم نے ٹیلوں کے سائے دیکھ لیے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گرمی کی شدت جہنم کے جوش مارنے سے ہوتی ہے لہٰذا جب گرمی کی شدت ہو تو نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھو“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المواقیت 9 (535)، صحیح مسلم/المساجد 32 (616)، سنن الترمذی/الصلاة 6 (158)، (تحفة الأشراف: 11914)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/155، 162، 176) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب گرمی کی شدت ہو تو نماز کو ٹھنڈی کر کے پڑھو، (ابن موہب کی روایت میں «فأبردوا عن الصلاة» کے بجائے «فأبردوا بالصلاة» ہے)، کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی لپٹ سے ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المواقیت 9 (536)، صحیح مسلم/المساجد 32 (615)، سنن الترمذی/الصلاة 5 (157)، سنن النسائی/المواقیت 4 (501)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 4 (678)، (تحفة الأشراف: 13226، 15237)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/وقوت الصلاة 7 (28،29)، مسند احمد (2/229، 238، 256، 266، 348، 377، 393، 400، 411)، سنن الدارمی/الصلاة 14 (1243)، الرقاق 119 (2887) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اسے حقیقی اور ظاہری معنی میں لینا زیادہ صحیح ہے، کیونکہ بخاری و مسلم کی (متفق علیہ) حدیث میں ہے کہ جہنم کی آگ نے اللہ رب العزت سے شکایت کی کہ میرے بعض حصے گرمی کی شدت اور گھٹن سے بعض کو کھا گئے ہیں، تو اللہ رب العزت نے اسے دو سانسوں کی اجازت دی، ایک جاڑے کے موسم میں، اور ایک گرمی کے موسم میں، جہنم جاڑے میں سانس اندر کو لیتی ہے، اور گرمی میں باہر کو، اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ گرمی کی شدت میں ظہر کو دیر سے پڑھنا جلدی پڑھنے سے بہتر ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایک مثل کے بعد پڑھے، اس سے مقصود صرف اتنا ہے کہ بہ نسبت دوپہر کے کچھ ٹھنڈک ہو جائے اور جب سورج زیادہ ڈھل جاتا ہے تو دوپہر کی بہ نسبت کچھ ٹھنڈک آ ہی جاتی ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بلال رضی اللہ عنہ ظہر کی اذان اس وقت دیتے تھے جب سورج ڈھل جاتا تھا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 2149)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المساجد 33 (618)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 3 (673)، مسند احمد (5/106) (حسن صحیح)»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
|