كِتَاب الصَّلَاةِ کتاب: نماز کے احکام و مسائل 30. باب فِي الرَّجُلِ يُؤَذِّنُ وَيُقِيمُ آخَرُ باب: ایک شخص اذان دے اور دوسرا اقامت (تکبیر) کہے یہ جائز ہے۔
عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان کے سلسلہ میں کئی کام کرنے کا (جیسے ناقوس بجانے یا سنکھ میں پھونک مارنے کا) ارادہ کیا لیکن ان میں سے کوئی کام کیا نہیں۔ محمد بن عبداللہ کہتے ہیں: پھر عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کو خواب میں اذان دکھائی گئی تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو اس کی خبر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے بلال کو سکھا دو“، چنانچہ عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے اسے بلال رضی اللہ عنہ کو سکھا دیا، اور بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی، اس پر عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہا: اسے میں نے دیکھا تھا اور میں ہی اذان دینا چاہتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو تم تکبیر کہہ لو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 5310)، مسند احمد (4/42) (ضعیف)» (ا س کے راوی محمد بن عمرو انصاری لین الحدیث ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
عبداللہ بن محمد کہتے ہیں میرے دادا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ یہ حدیث بیان کرتے تھے، اس میں ہے: ”تو میرے دادا نے اقامت کہی“۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبله، (تحفة الأشراف: 3653) (ضعیف)» (محمد بن عمرو انصاری کے سبب سے یہ حدیث ضعیف ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب صبح کی پہلی اذان کا وقت ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (اذان دینے کا) حکم دیا تو میں نے اذان کہی، پھر میں کہنے لگا: اللہ کے رسول! اقامت کہوں؟ تو آپ مشرق کی طرف فجر کی روشنی دیکھنے لگے اور فرما رہے تھے: ”ابھی نہیں (جب تک طلوع فجر نہ ہو جائے)“، یہاں تک کہ جب فجر طلوع ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اترے اور وضو کیا، پھر میری طرف واپس پلٹے اور صحابہ کرام اکھٹا ہو گئے، تو بلال رضی اللہ عنہ نے تکبیر کہنی چاہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”صدائی نے اذان دی ہے اور جس نے اذان دی ہے وہی تکبیر کہے“۔ زیاد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تو میں نے تکبیر کہی۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصلاة 32 (199)، سنن ابن ماجہ/الأذان 3 (717)، (تحفة الأشراف: 3653)، مسند احمد (4/169) (ضعیف)» (اس کے راوی عبدالرحمن افریقی ضعیف ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
|