(مرفوع) حدثنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا شعبة، اخبرني إسماعيل بن رجاء، سمعت اوس بن ضمعج يحدث، عن ابي مسعود البدري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يؤم القوم اقرؤهم لكتاب الله واقدمهم قراءة، فإن كانوا في القراءة سواء فليؤمهم اقدمهم هجرة، فإن كانوا في الهجرة سواء فليؤمهم اكبرهم سنا، ولا يؤم الرجل في بيته ولا في سلطانه ولا يجلس على تكرمته إلا بإذنه"، قال شعبة: فقلت لإسماعيل: ما تكرمته؟ قال: فراشه. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ رَجَاءٍ، سَمِعْتُ أَوْسَ بْنَ ضَمْعَجٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْبَدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللَّهِ وَأَقْدَمُهُمْ قِرَاءَةً، فَإِنْ كَانُوا فِي الْقِرَاءَةِ سَوَاءً فَلْيَؤُمَّهُمْ أَقْدَمُهُمْ هِجْرَةً، فَإِنْ كَانُوا فِي الْهِجْرَةِ سَوَاءً فَلْيَؤُمَّهُمْ أَكْبَرُهُمْ سِنًّا، وَلَا يُؤَمُّ الرَّجُلُ فِي بَيْتِهِ وَلَا فِي سُلْطَانِهِ وَلَا يُجْلَسُ عَلَى تَكْرِمَتِهِ إِلَّا بِإِذْنِهِ"، قَالَ شُعْبَةُ: فَقُلْتُ لِإِسْمَاعِيلَ: مَا تَكْرِمَتُهُ؟ قَالَ: فِرَاشُهُ.
ابومسعود بدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کی امامت وہ شخص کرے جو کتاب اللہ کو سب سے زیادہ پڑھنے والا ہو، اگر لوگ قرأت میں برابر ہوں تو ان میں جس نے پہلے ہجرت کی ہو وہ امامت کرے، اگر ہجرت میں بھی برابر ہوں تو ان میں بڑی عمر والا امامت کرے، آدمی کی امامت اس کے گھر میں نہ کی جائے اور نہ اس کی حکومت میں، اور نہ ہی اس کی «تکرمہ»(مسند وغیرہ جو اس کی عزت کی جگہ ہو) پر اس کی اجازت کے بغیر بیٹھا جائے“۔ شعبہ کا بیان ہے: میں نے اسماعیل بن رجاء سے کہا: آدمی کا «تکرمہ» کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے کہا: اس کا «فراش» یعنی مسند (اس کا بستر) وغیرہ۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 53 (673)، سنن الترمذی/الصلاة 62 (235)، سنن النسائی/الإمامة 3، (781)، 6 (784)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 46 (980)، (تحفة الأشراف: 9976)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/ 118، 121، 122) (صحیح)»
وضاحت: اس باب کی ایک دوسری حدیث میں حافظ کے بعد سنت کے عالم کا درجہ بیان ہوا ہے۔ ہجرت کی فضیلت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی کے ساتھ مخصوص تھی۔ کسی دوسرے شخص کے حلقہ عمل میں بلااجازت امامت کرانا (اور ضمناً فتوے دینے شروع کر دینا) شرعاً ممنوع ہے۔ ایسے ہی اس کی خاص مسند (نشست یا بستر) پر بلااجازت بیٹھنا بھی منع ہے۔
Abu Masud al-Badri reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: The one of you who is most versed in the Books of Allah should act as imam for the people; and the one who is the earliest of them in reciting (the Quran); if they are equally versed in reciting it, then the earliest of them to emigrate (to Madina); if they emigrated at the same time, then the oldest of them. No man must lead another in prayer in his house (i. e. in the house of a latter) or where the latter has authority, or sit in his place of honor without his permission. Shubah said: I asked Ismail: what is the meaning of his place of honor? He replied: his throne.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 582
(مرفوع) حدثنا ابن معاذ، حدثنا ابي، حدثنا شعبة، بهذا الحديث، قال فيه ولا يؤم الرجل الرجل في سلطانه، قال ابو داود وكذا قال يحيى القطان، عن شعبة، اقدمهم قراءة. (مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ فِيهِ وَلَا يَؤُمُّ الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِي سُلْطَانِهِ، قَالَ أَبُو دَاوُد وَكَذَا قَالَ يَحْيَى الْقَطَّانُ، عَنْ شُعْبَةَ، أَقْدَمُهُمْ قِرَاءَةً.
اس سند سے بھی شعبہ سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے: «ولا يؤم الرجل الرجل في سلطانه» کوئی شخص کسی کی سربراہی کی جگہ میں اس کی امامت نہ کرے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح یحییٰ قطان نے شعبہ سے «أقدمهم قرائة»(لوگوں کی امامت وہ شخص کرے جو قرأت میں سب سے فائق ہو) کی روایت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبله، (تحفة الأشراف: 9976) (صحیح)»
The version of this tradition narrated through a different chain by Shubah has the words: “A man should not lead the another man in prayer. Abu Dawud said: Yahya al-Qattan narrated from Shubah in a similar way, i. e. the earliest of them in recitation.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 583
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي، حدثنا عبد الله بن نمير، عن الاعمش، عن إسماعيل بن رجاء، عن اوس بن ضمعج الحضرمي، قال: سمعت ابا مسعود، عن النبي صلى الله عليه وسلم، بهذا الحديث، قال: فإن كانوا في القراءة سواء فاعلمهم بالسنة، فإن كانوا في السنة سواء فاقدمهم هجرة، ولم يقل: فاقدمهم قراءة، قال ابو داود: رواه حجاج بن ارطاة، عن إسماعيل، قال: ولا تقعد على تكرمة احد إلا بإذنه. (مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ رَجَاءٍ، عَنْ أَوْسِ بْنِ ضَمْعَجٍ الْحَضْرَمِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: فَإِنْ كَانُوا فِي الْقِرَاءَةِ سَوَاءً فَأَعْلَمُهُمْ بِالسُّنَّةِ، فَإِنْ كَانُوا فِي السُّنَّةِ سَوَاءً فَأَقْدَمُهُمْ هِجْرَةً، وَلَمْ يَقُلْ: فَأَقْدَمُهُمْ قِرَاءَةً، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ حَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: وَلَا تَقْعُدْ عَلَى تَكْرِمَةِ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِهِ.
ابومسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر لوگ قرأت میں برابر ہوں تو وہ شخص امامت کرے جو سنت کا سب سے بڑا عالم ہو، ا گر اس میں بھی برابر ہوں تو وہ شخص امامت کرے جس نے پہلے ہجرت کی ہو“۔ اس روایت میں «فأقدمهم قرائة» کے الفاظ نہیں ہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے حجاج بن ارطاۃ نے اسماعیل سے روایت کیا ہے، اس میں ہے: ”تم کسی کے «تکرمہ»(مسند وغیرہ) پر اس کی اجازت کے بغیر نہ بیٹھو“۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبله، (تحفة الأشراف: 9976) (صحیح)»
وضاحت: ہجرت کی فضیلت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی کے ساتھ مخصوص تھی۔ کسی دوسرے شخص کے حلقہ عمل میں بلااجازت امامت کرانا (اور ضمناً فتوے دینے شروع کر دینا) شرعاً ممنوع ہے۔ ایسے ہی اس کی خاص مسند (نشست یا بستر) پر بلااجازت بیٹھنا بھی منع ہے۔
This tradition has been transmitted through a different chain by Abu Masud This version has words ; “If they are equally versed in recitation, then the one who has most knowledge of the Sunnah ; if they are equal with regard to (the knowledge of) the Sunnah, then the earliest of them to emigrate (to Madina)”. He did not narrate the words; “ The earliest of them in recitation”. Abu Dawud said: Hajjaj bin Artata reported from Ismail: Do not sit in the place of honour of anyone except with his permission.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 584
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد، اخبرنا ايوب، عن عمرو بن سلمة، قال: كنا بحاضر يمر بنا الناس إذا اتوا النبي صلى الله عليه وسلم، فكانوا إذا رجعوا مروا بنا فاخبرونا ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: كذا وكذا، وكنت غلاما حافظا فحفظت من ذلك قرآنا كثيرا، فانطلق ابي وافدا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم في نفر من قومه فعلمهم الصلاة، فقال:" يؤمكم اقرؤكم"، وكنت اقراهم لما كنت احفظ، فقدموني فكنت اؤمهم وعلي بردة لي صغيرة صفراء فكنت إذا سجدت تكشفت عني، فقالت امراة من النساء: واروا عنا عورة قارئكم، فاشتروا لي قميصا عمانيا فما فرحت بشيء بعد الإسلام فرحي به، فكنت اؤمهم وانا ابن سبع سنين او ثمان سنين. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سَلَمَةَ، قَالَ: كُنَّا بِحَاضِرٍ يَمُرُّ بِنَا النَّاسُ إِذَا أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَانُوا إِذَا رَجَعُوا مَرُّوا بِنَا فَأَخْبَرُونَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: كَذَا وَكَذَا، وَكُنْتُ غُلَامًا حَافِظًا فَحَفِظْتُ مِنْ ذَلِكَ قُرْآنًا كَثِيرًا، فَانْطَلَقَ أَبِي وَافِدًا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَفَرٍ مِنْ قَوْمِهِ فَعَلَّمَهُمُ الصَّلَاةَ، فَقَالَ:" يَؤُمُّكُمْ أَقْرَؤُكُمْ"، وَكُنْتُ أَقْرَأَهُمْ لِمَا كُنْتُ أَحْفَظُ، فَقَدَّمُونِي فَكُنْتُ أَؤُمُّهُمْ وَعَلَيَّ بُرْدَةٌ لِي صَغِيرَةٌ صَفْرَاءُ فَكُنْتُ إِذَا سَجَدْتُ تَكَشَّفَتْ عَنِّي، فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنَ النِّسَاءِ: وَارُوا عَنَّا عَوْرَةَ قَارِئِكُمْ، فَاشْتَرَوْا لِي قَمِيصًا عُمَانِيًّا فَمَا فَرِحْتُ بِشَيْءٍ بَعْدَ الْإِسْلَامِ فَرَحِي بِهِ، فَكُنْتُ أَؤُمُّهُمْ وَأَنَا ابْنُ سَبْعِ سِنِينَ أَوْ ثَمَانِ سِنِينَ.
عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم ایسے مقام پر (آباد) تھے جہاں سے لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے جاتے گزرتے تھے، تو جب وہ لوٹتے تو ہمارے پاس سے گزرتے اور ہمیں بتاتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ایسا فرمایا ہے، اور میں ایک اچھے حافظہ والا لڑکا تھا، اس طرح سے میں نے بہت سا قرآن یاد کر لیا تھا، چنانچہ میرے والد اپنی قوم کے کچھ لوگوں کے ساتھ وفد کی شکل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز سکھائی اور فرمایا: ”تم میں لوگوں کی امامت وہ کرے جو سب سے زیادہ قرآن پڑھنے والا ہو“، اور میں ان میں سب سے زیادہ قرآن پڑھنے والا تھا اس لیے کہ میں قرآن یاد کیا کرتا تھا، لہٰذا لوگوں نے مجھے آگے بڑھا دیا، چنانچہ میں ان کی امامت کرتا تھا اور میرے جسم پر ایک چھوٹی زرد رنگ کی چادر ہوتی، تو جب میں سجدہ میں جاتا تو میری شرمگاہ کھل جاتی، چنانچہ ایک عورت نے کہا: تم لوگ اپنے قاری (امام) کی شرمگاہ ہم سے چھپاؤ، تو لوگوں نے میرے لیے عمان کی بنی ہوئی ایک قمیص خرید دی، چنانچہ اسلام کے بعد مجھے جتنی خوشی اس سے ہوئی کسی اور چیز سے نہیں ہوئی، ان کی امامت کے وقت میں سات یا آٹھ برس کا تھا ۱؎۔
Amr bin Salamah said ; we lived at a place where the people would pass by us when they came to the prophet ﷺ. When they returned they would again pass by us. And they used to inform us that the Messenger of Allah ﷺ said so –and-so. I was a boy with a good memory. From the ( process) I memorized a large portion of the Quran. Then my father went to the Messenger of Allah ﷺ along with a group of his clan. He (the Prophet) taught them prayer. And he said: The one of you who knows most of the Quran should act as your imam. I knew the Quran better than most of them because I had memorized it. They, therefore, put me in front of them, and I would lead them in prayer. I wore a small yellow mantle which, when I prostrated myself, went up on me, and a woman of the clan said: Cover the back side of your leader from us. So they bought an ‘Ammani shirt for me, and I have never been so pleased about anything after embracing Islam as I was about that (shirt). I used to lead them in prayer and I was only seven or eight year old.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 585
(مرفوع) حدثنا النفيلي، حدثنا زهير، حدثنا عاصم الاحول، عن عمرو بن سلمة، بهذا الخبر، قال: فكنت اؤمهم في بردة موصلة فيها فتق، فكنت إذا سجدت خرجت استي. (مرفوع) حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سَلَمَةَ، بِهَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: فَكُنْتُ أَؤُمُّهُمْ فِي بُرْدَةٍ مُوَصَّلَةٍ فِيهَا فَتْقٌ، فَكُنْتُ إِذَا سَجَدْتُ خَرَجَتِ اسْتِي.
اس سند سے بھی عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث مروی ہے، اس میں ہے میں ایک پیوند لگی ہوئی پھٹی چادر میں ان کی امامت کرتا تھا، تو جب میں سجدہ میں جاتا تو میری سرین کھل جاتی تھی۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبله، (تحفة الأشراف: 4565) (صحیح)»
This tradition has also been transmitted through a different chain by Amr bin Salamah. This version says: “I used to lead them in prayer with a sheet of cloth on me that was patched and torn. When I prostrated myself, my buttocks were disclosed.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 586
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا وكيع، عن مسعر بن حبيب الجرمي، حدثنا عمرو بن سلمة، عن ابيه، انهم وفدوا إلى النبي صلى الله عليه وسلم فلما ارادوا ان ينصرفوا، قالوا: يا رسول الله،" من يؤمنا؟ قال: اكثركم جمعا للقرآن، او اخذا للقرآن"، قال: فلم يكن احد من القوم جمع ما جمعته، قال: فقدموني وانا غلام وعلي شملة لي فما شهدت مجمعا من جرم إلا كنت إمامهم، وكنت اصلي على جنائزهم إلى يومي هذا، قال ابو داود: ورواه يزيد بن هارون، عن مسعر بن حبيب الجرمي، عن عمرو بن سلمة، قال: لما وفد قومي إلى النبي صلى الله عليه وسلم، لم يقل: عن ابيه. (مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مِسْعَرِ بْنِ حَبِيبٍ الْجَرْمِيِّ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُمْ وَفَدُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا أَرَادُوا أَنْ يَنْصَرِفُوا، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ،" مَنْ يَؤُمُّنَا؟ قَالَ: أَكْثَرُكُمْ جَمْعًا لِلْقُرْآنِ، أَوْ أَخْذًا لِلْقُرْآنِ"، قَالَ: فَلَمْ يَكُنْ أَحَدٌ مِنَ الْقَوْمِ جَمَعَ مَا جَمَعْتُهُ، قَالَ: فَقَدَّمُونِي وَأَنَا غُلَامٌ وَعَلَيَّ شَمْلَةٌ لِي فَمَا شَهِدْتُ مَجْمَعًا مِنْ جَرْمٍ إِلَّا كُنْتُ إِمَامَهُمْ، وَكُنْتُ أُصَلِّي عَلَى جَنَائِزِهِمْ إِلَى يَوْمِي هَذَا، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرَوَاهُ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ مِسْعَرِ بْنِ حَبِيبٍ الْجَرْمِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سَلَمَةَ، قَالَ: لَمَّا وَفَدَ قَوْمِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَمْ يَقُلْ: عَنْ أَبِيهِ.
مسعر بن حبیب جرمی نے عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ سے انہوں نے اپنے والد سے بیان کیا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا وفد کے کر گئے۔ ان لوگوں نے جب واپسی کا ارادہ کیا تو کہا: اے اللہ کے رسول! ہماری امامت کون کرائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس نے قرآن زیادہ یاد کیا ہو۔“ چنانچہ برادری میں کوئی ایسا نہ تھا جسے اس قدر قرآن آتا ہو جتنا کہ مجھے آتا تھا۔ تو انہوں نے مجھے آگے کر دیا اور میں نوعمر لڑکا تھا اور مجھ پر میری چادر (شملہ) ہوتی تھی۔ میں اپنی قوم بنی جرم کے جس اجتماع میں بھی ہوتا میں ہی ان کی امامت کرایا کرتا اور ان کے جنازے بھی پڑھاتا اور آج تک پڑھا رہا ہوں۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یزید بن ہارون نے مسعر بن حبیب سے، انہوں نے عمرو بن سلمہ سے روایت کیا کہ جب میری قوم اپنا وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر آئی۔ اس سند میں «عن أبيه» کا واسطہ نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبله، (تحفة الأشراف: 4565) (صحیح)» لیکن: «عن أبيه» کا قول غیر محفوظ ہے
وضاحت: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز فرض ہو یا نفل نابالغ لڑکا (جو اچھا قاری اور نماز کے ضروری مسائل سے واقف ہو) امام بنایا جا سکتا ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ”ان کی امامت کے وقت میں سات یا آٹھ برس کا تھا“(سنن ابوداود، حدیث ۵۸۵)۔
Amr bin Salamah reported on the authority of his father (Salamah) that they visited the Prophet ﷺ. When they intended to return, they said: Messenger of Allah, who will lead us in prayer? He said: The one of you who knows most of the Quran, or memorizes most of the Quran, (should act as your imam). There was none in the clan who knew more of the Quran than I did. They, therefore, put me in front of them and I was only a boy. And I wore a mantle, Whenever I was present in the gathering of Jarm (name of his clan), I would act as their Imam, and lead them in their funeral prayer until today. Abu Dawud said: This tradition has been narrated by Amr bin Salamah through a different chain of transmitter. This version has: “When my clan visited the Prophet ﷺ. . . . ” He did not report it on the authority of his father.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 587
قال الشيخ الألباني: صحيح لكن قوله عن أبيه غير محفوظ
(مرفوع) حدثنا القعنبي، حدثنا انس يعني ابن عياض. ح وحدثنا الهيثم بن خالد الجهني المعنى، قالا: حدثنا ابن نمير، عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر، انه قال: لما قدم المهاجرون الاولون نزلوا العصبة قبل مقدم النبي صلى الله عليه وسلم" فكان يؤمهم سالم مولى ابي حذيفة وكان اكثرهم قرآنا"، زاد الهيثم: وفيهم عمر بن الخطاب، وابو سلمة بن عبد الاسد. (مرفوع) حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا أَنَسٌ يَعْنِي ابْنَ عِيَاضٍ. ح وحَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ خَالِدٍ الْجُهَنِيُّ الْمَعْنَى، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ الْمُهَاجِرُونَ الْأَوَّلُونَ نَزَلُوا الْعُصْبَةَ قَبْلَ مَقْدَمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" فَكَانَ يَؤُمُّهُمْ سَالِمٌ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ وَكَانَ أَكْثَرَهُمْ قُرْآنًا"، زَادَ الْهَيْثَمُ: وَفِيهِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الْأَسَدِ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے جب مہاجرین اوّلین (مدینہ) آئے اور عصبہ ۱؎ میں قیام پذیر ہوئے تو ان کی امامت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام سالم رضی اللہ عنہ کیا کرتے تھے، انہیں قرآن سب سے زیادہ یاد تھا۔ ہیثم نے اضافہ کیا ہے کہ ان میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور ابوسلمہ بن عبدالاسد رضی اللہ عنہ بھی موجود ہوتے۔
Ibn Umar said: when the first emigrants came (to Madina), they stayed at al-‘Asbah (a place near Madina) before the advent of the Messenger of Allah ﷺ. Salim, the client of Abu Hudhaifah, acted as their imam, as he knew the Quran better than all of them, al-Haitham (the narrator) added: and Umar bin al-Khattab and Abu Salamah bin Abd al-Asad were among them.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 588
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا إسماعيل. ح وحدثنا مسدد، حدثنا مسلمة بن محمد، المعنى واحد، عن خالد، عن ابي قلابة، عن مالك بن الحويرث، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال له او لصاحب له:" إذا حضرت الصلاة، فاذنا ثم اقيما ثم ليؤمكما اكبركما سنا"، وفي حديث مسلمة، قال: وكنا يومئذ متقاربين في العلم، وقال في حديث إسماعيل: قال خالد: قلت لابي قلابة: فاين القرآن؟ قال: إنهما كانا متقاربين. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ. ح وحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا مَسْلَمَةُ بْنُ مُحَمَّدٍ، الْمَعْنَى وَاحِدٌ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهُ أَوْ لِصَاحِبٍ لَهُ:" إِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ، فَأَذِّنَا ثُمَّ أَقِيمَا ثُمَّ لِيَؤُمَّكُمَا أَكْبَرُكُمَا سِنًّا"، وَفِي حَدِيثِ مَسْلَمَةَ، قَالَ: وَكُنَّا يَوْمَئِذٍ مُتَقَارِبَيْنِ فِي الْعِلْمِ، وقَالَ فِي حَدِيثِ إِسْمَاعِيلَ: قَالَ خَالِدٌ: قُلْتُ لِأَبِي قِلَابَةَ: فَأَيْنَ الْقُرْآنُ؟ قَالَ: إِنَّهُمَا كَانَا مُتَقَارِبَيْنِ.
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یا ان کے ایک ساتھی سے فرمایا: ”جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم اذان دو، پھر تکبیر کہو، پھر جو تم دونوں میں عمر میں بڑا ہو وہ امامت کرے“۔ مسلمہ کی روایت میں ہے: اور ہم دونوں علم میں قریب قریب تھے۔ اسماعیل کی روایت میں ہے: خالد کہتے ہیں کہ میں نے ابوقلابہ سے پوچھا: پھر قرآن کہاں رہا؟ (یعنی قرآت قرآن کا مسئلہ کہ جس کو قرآن زیادہ یاد ہو وہ امامت کرائے) انہوں نے کہا: اس میں بھی وہ دونوں قریب قریب تھے۔
Malik bin al-Huwairith said that the Prophet ﷺ told him or some of his companions: When the time of prayer comes, call the Adhan, then call the iqamah, then the one who is oldest of you should act as your imam. The version narrated by Maslamah goes: He said: On that day we were almost equal in knowledge. The version narrated by Ismail says: Khalid said: I said to Abu Qilabah: where is the Quran (i. e. why did the Prophet ﷺ not say: The one who knows the Quran most should act as imam)? He replied: Both of them were equal in the knowledge of the Quran.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 589
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے وہ لوگ اذان دیں جو تم میں بہتر ہوں، اور تمہاری امامت وہ لوگ کریں جو تم میں عالم و قاری ہوں“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الأذان 5 (726)، (تحفة الأشراف: 6039) (ضعیف)» (اس کے راوی حسین حنفی ضعیف ہیں)