سنن ابي داود
كِتَاب الطَّهَارَةِ
کتاب: طہارت کے مسائل
130. باب فِي الْغُسْلِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ
باب: جمعہ کے دن غسل کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 348
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا، حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ شَيْبَةَ، عَنْ طَلْقِ بْنِ حَبِيبٍ الْعَنَزِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا حَدَّثَتْهُ،" أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَغْتَسِلُ مِنْ أَرْبَعٍ: مِنَ الْجَنَابَةِ، وَيَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَمِنَ الْحِجَامَةِ، وَمِنْ غُسْلِ الْمَيِّتِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چار چیزوں کی وجہ سے غسل کرتے تھے: (ا) جنابت کی وجہ سے، (۲) جمعہ کے دن (۳) پچھنے لگانے سے، (۴) اور میت کو نہلانے سے۔
تخریج الحدیث: «تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف: 16193)، ویأتی عند المؤلف فی الجنازة برقم (3160) (ضعیف)» (اس کے راوی ”مصعب بن شیبہ“ ضعیف ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
مشكوة المصابيح (542)
صححه ابن خزيمه (256 وسنده حسن) مصعب بن شيبه: حسن الحديث وثقه الجمھور
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 348 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 348
348۔ اردو حاشیہ:
امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس روایت کے بارے میں کہا ہے کہ «ليس بذاك» یعنی غیر معیاری ہے۔ امام احمد بن حنبل اور علی بن مدینی رحمۃ اللہ علیہم کہتے ہیں کہ غسل میت کے بارے میں کوئی حدیث صحیح نہیں۔ [منذري]
مگر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ”التلخیص الحبیر“ میں کہا ہے کہ کثرت طرق کی بنا پر یہ ”درجہ حسن“ سے کم نہیں اور جمہور اس کے استحباب کے قائل ہیں۔ [الروضة النديه]
اور ظاہر ہے کہ غسل جنابت واجب ہے۔ جمعہ کا غسل واجب یا بہت زیادہ مؤکد ہے۔ سینگی اور میت کو غسل دینے سے غسل بطور نظافت مستحب ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 348
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 98
´غسلِ جنابت بالاتفاق فرض ہے`
«. . . وعن عائشة رضي الله عنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يغتسل من اربع: من الجنابة، ويوم الجمعة، ومن الحجامة، ومن غسل الميت . . .»
”. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چار چیزوں کی وجہ سے غسل فرمایا کرتے تھے۔ جنابت، جمعہ کے روز، سینگی لگوانے کے بعد اور میت کو غسل دینے کی وجہ سے . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 98]
فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث میں جن چار چیزوں سے غسل کرنے کا ذکر ہے ان میں سے غسل جنابت بالاتفاق فرض ہے۔
➋ جمعے کے روز غسل جمہور صحابہ و تابعین اور اکثر ائمہ کے نزدیک مسنون ہے، البتہ امام احمد اور امام مالک رحمہما اللہ کا ایک قول یہ ہے کہ فرض ہے۔ امام داود ظاہری اور ابن خزیمہ رحمہما اللہ کا بھی یہی موقف ہے، اور حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کا بھی زاد المعاد میں اسی طرف رحجان ہے۔
➌ سینگی لگوانے سے غسل مسنون ہے، فرض نہیں۔ پیچھے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث گزر چکی ہے کہ آپ نے سینگی لگوائی اور وضو کیے بغیر نماز پڑھی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ نے سینگی لگوانے کے بعد کبھی غسل کیا اور کبھی وضو بھی نہیں کیا۔ رہا میت کو غسل دینے سے غسل تو اس کے بارے میں بھی بیان گزر چکا ہے کہ یہ مستحب ہے، فرض نہیں۔ جمہور اہل علم کا یہی موقف ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 98