كِتَاب الزَّكَاةِ زکاۃ کے احکام و مسائل The Book of Zakat 14. باب فَضْلِ النَّفَقَةِ وَالصَّدَقَةِ عَلَى الأَقْرَبِينَ وَالزَّوْجِ وَالأَوْلاَدِ وَالْوَالِدَيْنِ وَلَوْ كَانُوا مُشْرِكِينَ: باب: والدین اور دیگر اقرباء پر خرچ کرنے کی فضیلت اگرچہ وہ مشرک ہوں۔ Chapter: The virtue of spending and giving charity to relatives, spuses, children and parents, even if they are idolaters حدثنا يحيى بن يحيى ، قال: قرات على مالك ، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة ، انه سمع انس بن مالك ، يقول: كان ابو طلحة اكثر انصاري بالمدينة مالا، وكان احب امواله إليه بيرحى، وكانت مستقبلة المسجد، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يدخلها ويشرب من ماء فيها طيب، قال انس: فلما نزلت هذه الآية لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون سورة آل عمران آية 92 قام ابو طلحة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: إن الله يقول في كتابه لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون سورة آل عمران آية 92، وإن احب اموالي إلي بيرحى، وإنها صدقة لله ارجو برها وذخرها عند الله، فضعها يا رسول الله حيث شئت، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" بخ ذلك مال رابح ذلك مال رابح، قد سمعت ما قلت فيها وإني ارى ان تجعلها في الاقربين"، فقسمها ابو طلحة في اقاربه وبني عمه.حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ إسحاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، يَقُولُ: كَانَ أَبُو طَلْحَةَ أَكْثَرَ أَنْصَارِيٍّ بِالْمَدِينَةِ مَالًا، وَكَانَ أَحَبُّ أَمْوَالِهِ إِلَيْهِ بَيْرَحَى، وَكَانَتْ مُسْتَقْبِلَةَ الْمَسْجِدِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُهَا وَيَشْرَبُ مِنْ مَاءٍ فِيهَا طَيِّبٍ، قَالَ أَنَسٌ: فَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ سورة آل عمران آية 92 قَامَ أَبُو طَلْحَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ فِي كِتَابِهِ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ سورة آل عمران آية 92، وَإِنَّ أَحَبَّ أَمْوَالِي إِلَيَّ بَيْرَحَى، وَإِنَّهَا صَدَقَةٌ لِلَّهِ أَرْجُو بِرَّهَا وَذُخْرَهَا عِنْدَ اللَّهِ، فَضَعْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ حَيْثُ شِئْتَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بَخْ ذَلِكَ مَالٌ رَابِحٌ ذَلِكَ مَالٌ رَابِحٌ، قَدْ سَمِعْتُ مَا قُلْتَ فِيهَا وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَجْعَلَهَا فِي الْأَقْرَبِينَ"، فَقَسَمَهَا أَبُو طَلْحَةَ فِي أَقَارِبِهِ وَبَنِي عَمِّهِ. اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ فرما رہے تھے: ابو طلحہ مدینہ میں کسی بھی انصاری سے زیادہ مالدار تھے، ان کے مال میں سے بیرحاء والا باغ انھیں سب سے زیادہ پسند تھا جو مسجد نبوی کے سامنے واقع تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں تشریف لے جاتے اور اس کا عمدہ پانی نوش فرماتے۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا: جب یہ آیت نازل ہوئی: "تم نیکی حاصل نہیں کرسکوگے جب تک ا پنی محبوب چیز (اللہ کی راہ میں) خرچ نہ کرو گے۔"ابو طلحہ رضی اللہ عنہ اٹھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور عرض کی: اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتے ہیں کہ: تم نیکی حاصل نہیں کرسکو گے حتیٰ کہ ا پنی پسندیدہ چیز (اللہ کی راہ میں) خرچ کرو۔"مجھے اپنے اموال میں سے سب سے زیادہ بیرحاء پسند ہے اور وہ اللہ کے لئے صدقہ ہے، مجھے اس کے اچھے بدلے اور اللہ کے ہاں ذخیرہ (کے طور پر محفوظ) ہوجانے کی امید ہے۔اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ اسے جہاں چاہیں رکھیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بہت خوب، یہ سود مند مال ہے، یہ نفع بخش مال ہے، جو تم نے اس کے بارے میں کہا میں نے سن لیا ہے اور میری رائے یہ ہےکہ تم اسے (اپنے) قرابت داروں کو دے دو۔"توابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے عزیزوں اور اپنے چچا کے بیٹوں میں تقسیم کردیا۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ انصار مدینہ میں سب سے زیادہ مالدار تھے اور ان کا بیر حاء نامی باغ انہیں سب سے زیادہ محبوب تھا جو مسجد نبوی کے سامنے واقع تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں تشریف لے جاتے اور اس کا عمدہ پانی نوش فرماتے تو جب یہ آیت اتری ”تم نیکی حاصل نہیں کر سکو گے جب تک اپنی محبوب چیز(اللہ کی راہ میں) خرچ نہ کرو گے (آل عمران: 2) ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اٹھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور عرض کیا، اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتے ہیں کہ ”تم نیکی حاصل نہیں کر سکو گے۔ حتی کہ اپنی پسندیدہ چیز راہ خدا میں دو۔“ اور مجھے اپنے اموال سے سب سے زیادہ میرا یہ بیرحاء باغ پسند ہے اور وہ اللہ کے لیے صدقہ کرتا ہوں اس امید پر کہ وہ اللہ کے ہاں میرے لیے نیکی کا سامان اور آخرت کا ذخیرہ بنے گا۔ اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپصلی اللہ علیہ وسلم جہاں چاہیں اسے خرچ فرمائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہت خوب یہ سود مند اور نفع بخش مال ہے۔ یہ فائدہ بخش مال ہے میں نے تیری بات سن لی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ تم اسے اپنے اقارب کو (رشتہ داروں کو) دے دو۔“ تو ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے اپنے عزیزوں اور عم زاد بھائیوں میں تقسیم کر دیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثني محمد بن حاتم ، حدثنا بهز ، حدثنا حماد بن سلمة ، حدثنا ثابت ، عن انس ، قال: لما نزلت هذه الآية لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون سورة آل عمران آية 92، قال ابو طلحة: ارى ربنا يسالنا من اموالنا، فاشهدك يا رسول الله اني قد جعلت ارضي بريحا لله، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اجعلها في قرابتك"، قال: فجعلها في حسان بن ثابت وابي بن كعب.حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ سورة آل عمران آية 92، قَالَ أَبُو طَلْحَةَ: أَرَى رَبَّنَا يَسْأَلُنَا مِنْ أَمْوَالِنَا، فَأُشْهِدُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنِّي قَدْ جَعَلْتُ أَرْضِي بَرِيحَا لِلَّهِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اجْعَلْهَا فِي قَرَابَتِكَ"، قَالَ: فَجَعَلَهَا فِي حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ. ثابت نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: جب یہ آیت نازل ہوئی؛"تم نیکی (کی حقیقی لذت) حاصل نہیں کرسکو گے حتیٰ کہ اپنی محبوب ترین چیز (اللہ کی راہ میں) صرف کردو۔" (تو) ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اپنے پروردیگار کو دیکھتا ہوں کہ وہ ہم سے مال کا مطالبہ کررہا ہے، لہذا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنی زمین بیرحاء اللہ تعالیٰ کے لئے وقف کردی۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے ا پنے رشتہ داروں کو دے دو۔"تو انھوں نے وہ حضرت حسان بن ثابت اور ابی بن کعب رضوان اللہ عنھم اجمعین کو دے دی۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت اتری کہ تم حق ادا نہیں کر سکو گے حتی کہ اپنی محبوب ترین چیز (اللہ کی راہ میں) صرف کر دو ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے میں سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ ہم سے ہمارا مال چاہتا ہے۔ اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ کو گواہ بنا کر اپنی بیرحاء زمین اللہ تعالیٰ کے لیے دیتا ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے رشتہ داروں کو دے دو“ تو انھوں نے حضرت حسان بن ثابت اور ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دے دی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
(ام المومنین) حضرت میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اپنی ایک لونڈی کو آزاد کیا۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس کا تذکرہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر تم اسے اپنے ماموؤں کو دے دیتیں تو یہ (کام) تمھارے اجر کو بڑا کردیتا۔" حضرت میمونہ بنت الحارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک لونڈی آزاد کی۔ اور اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم اسے اپنے ماموؤں کو دیتیں تو تمہیں اجر زیادہ ملتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا حسن بن الربيع ، حدثنا ابو الاحوص ، عن الاعمش ، عن ابي وائل ، عن عمرو بن الحارث ، عن زينب امراة عبد الله ، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" تصدقن يا معشر النساء، ولو من حليكن"، قالت: فرجعت إلى عبد الله، فقلت: إنك رجل خفيف ذات اليد، وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد امرنا بالصدقة، فاته فاساله فإن كان ذلك يجزي عني، وإلا صرفتها إلى غيركم، قالت: فقال لي عبد الله: بل ائتيه انت، قالت: فانطلقت فإذا امراة من الانصار بباب رسول الله صلى الله عليه وسلم، حاجتي حاجتها، قالت: وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد القيت عليه المهابة، قالت: فخرج علينا بلال، فقلنا له: ائت رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبره ان امراتين بالباب تسالانك اتجزئ الصدقة عنهما على ازواجهما، وعلى ايتام في حجورهما؟، ولا تخبره من نحن، قالت: فدخل بلال على رسول الله صلى الله عليه وسلم فساله، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من هما؟" فقال: امراة من الانصار، وزينب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اي الزيانب؟"، قال: امراة عبد الله، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لهما اجران: اجر القرابة، واجر الصدقة"،حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَصَدَّقْنَ يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ، وَلَوْ مِنْ حُلِيِّكُنَّ"، قَالَتْ: فَرَجَعْتُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ، فَقُلْتُ: إِنَّكَ رَجُلٌ خَفِيفُ ذَاتِ الْيَدِ، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَمَرَنَا بِالصَّدَقَةِ، فَأْتِهِ فَاسْأَلْهُ فَإِنْ كَانَ ذَلِكَ يَجْزِي عَنِّي، وَإِلَّا صَرَفْتُهَا إِلَى غَيْرِكُمْ، قَالَتْ: فَقَالَ لِي عَبْدُ اللَّهِ: بَلِ ائْتِيهِ أَنْتِ، قَالَتْ: فَانْطَلَقْتُ فَإِذَا امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ بِبَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَاجَتِي حَاجَتُهَا، قَالَتْ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أُلْقِيَتْ عَلَيْهِ الْمَهَابَةُ، قَالَتْ: فَخَرَجَ عَلَيْنَا بِلَالٌ، فَقُلْنَا لَهُ: ائْتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبِرْهُ أَنَّ امْرَأَتَيْنِ بِالْبَابِ تَسْأَلَانِكَ أَتُجْزِئُ الصَّدَقَةُ عَنْهُمَا عَلَى أَزْوَاجِهِمَا، وَعَلَى أَيْتَامٍ فِي حُجُورِهِمَا؟، وَلَا تُخْبِرْهُ مَنْ نَحْنُ، قَالَتْ: فَدَخَلَ بِلَالٌ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ هُمَا؟" فَقَالَ: امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ، وَزَيْنَبُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيُّ الزَّيَانِبِ؟"، قَالَ: امْرَأَةُ عَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَهُمَا أَجْرَانِ: أَجْرُ الْقَرَابَةِ، وَأَجْرُ الصَّدَقَةِ"، ابواحوص نے اعمش سے حدیث بیان کی، انھوں نے ابو وائل سے، انھوں نے عمرو بن حارث سے اور انھوں نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ (بن مسعود) کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا (بنت عبداللہ بن ابی معاویہ) سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اے عورتوں کی جماعت! صدقہ کرو، اگرچہ اپنے زیورات سے ہی کیوں نہ ہو۔"کہا: تو میں (اپنے خاوند) عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس واپس آئی اور کہا: تم کم مایا آدمی ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا ہے، لہذا تم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر آپ سے پوچھ لو اگراس (کو تمھیں دینے) سے میری طرف سے ادا ہوجائےگا (تو ٹھیک) ورنہ میں اے تمھارے علاوہ دوسروں کی طرف بھیج دو گی، کہا: تو عبداللہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: بلکہ تم خود ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلی جاؤ۔انھوں نے کہا: میں گئی تو اس وقت ایک اور انصاری عورت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر کھڑی تھی اور (مسئلہ دریافت کرنے کے حوالے سے) اسکی ضرورت بھی وہی تھی جو میری تھی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیبت عطا کی گئی تھی۔کہا: بلال رضی اللہ عنہ نکل کر ہماری طرف آئے تو ہم نے ان سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جاؤ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتاؤ کے درواز ے پر دو عور تیں ہیں آپ سے پوچھ رہی ہیں کہ ان کی طرف سے ان کے خاوندوں اور ان یتیم بچوں پر جوا ن کی کفالت میں ہیں، صدقہ جائز ہے؟اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ نہ بتاناکہ ہم کون ہیں۔بلال رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ سے کہا: وہ دونوں کون ہیں؟"انھوں نے کہا: ایک انصاری عورت ہے اور ایک زینب ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: " زینبوں میں سے کون سی؟"انھوں نے کہا: عبداللہ رضی اللہ عنہ کی بیوی۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: "ان کے لئے دو اجر ہیں: (ایک) قرابت نبھانے کا اجر اور (دوسرا) صدقہ کرنے کا اجر۔" حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عورتوں کا گروہ! صدقہ کرو، اگرچہ اپنے زیورات سے کرو۔ تو میں (اپنے خاوند) عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئی اور کہا تم کم مال والے آدمی ہو۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا ہے آپ کے پاس جا کر یہ مسئلہ پوچھ لو (کہ اگر تمھیں دینا) کفایت کرتا ہو (تو ٹھیک ہے) وگرنہ میں کسی اور کو دے دوں گی، تو عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے کہا بلکہ تم خود ہی آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ تو میں گئی اور ایک اور انصاری عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازہ پر کھڑی تھی اور اس کو میرے والے مسئلہ پوچھنے کی حاجت تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ بہت بارعب تھا۔ (آپصلی اللہ علیہ وسلم سے ہیبت آتی تھی) ہمارے پاس اندر سے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے تو ہم نے ان سے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپصلی اللہ علیہ وسلم کو بتاؤ کہ دروازہ پردو عورتیں آپ سے پوچھتی ہیں کہ اگر وہ صدقہ اپنے خاوندوں کو دے دیں اور ان یتیم بچوں کو جو ان کی کفالت میں ہیں تو کفایت کر جائے گا؟ اور آپ کو ہمارے بارے میں نہ بتانا کہ ہم کون ہیں تو بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال سے پوچھا وہ کون ہیں انھوں نے کہا ایک انصاری عورت ہے اور ایک زینب ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کون سی زینب؟“ انھوں نے کہا: عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کو بتایا کہ (انہیں دہرا اجر ملے گا، صلہ رحمی رشتہ داری) کا اجر اور صدقہ کا اجر۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عمر بن حفص بن غیاث نے اپنے والد سے، انھوں نے اعمش سے باقی ماندہ سابقہ سند کے ساتھ روایت کی۔ (اعمش نے) کہا: میں نے (یہ حدیث) ابراہیم نخعی سے بیان کی تو انھوں نے مجھے ابو عبیدہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے عمرو بن حارث سے اور انھوں نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا سے روایت کی، بالکل اسی (مذکوہ بالا روایت) کے مانند، اور کہا: انھوں (زینب رضی اللہ عنہا) نےکہا: میں مسجد میں تھی (اس دروازے پر جو مسجد میں تھا) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (بلال رضی اللہ عنہ کے بتانے پر) مجھے دیکھا تو فرمایا: "صدقہ کرو، چاہے اپنے زیورات ہی سے کیوں نہ ہو۔"اعمش نے باقی حدیث ابواحوص کی (مذکورہ بالا) روایت کے ہم معنی بیان کی ہے۔ حضرت عبد اللہ کی بیوی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مذکورہ بالا روایت ہی مروی ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ میں مسجد میں تھی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ لیا اور فرمایا: ”(صدقہ) کرو اگرچہ اپنے زیورات ہی سے سہی۔“ آگے ابو احوص کی مذکورہ بالا روایت ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابواسامہ نے کہا: ہمیں ہشام بن عروہ نے اپنے و الد سے حدیث بیان کی، انھوں نے زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا سے اور انھوں نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیا ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی اولاد پر خرچ کرنے میں میرے لئے اجر ہے؟میں ان پر خرچ کر تی ہوں، میں انھیں ایسے، ایسے چھوڑنے والی نہیں ہوں، وہ میرے بچے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں، تمھارے لئے ان میں، جو تم ان پر خرچ کروگی، اجر ہے۔" حضرت اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے میری اولاد پر مجھے خرچ کرنے پر اجر ملے گا؟ جبکہ میں انہیں چھوڑ تو سکتی نہیں ہوں کہ وہ اِدھر اُدھر سے مانگتے پھریں، آخر وہ میرے ہی بیٹے ہیں تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں تمھیں ان پر خرچ کرنے کا اجر ملے گا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
علی بن مسہر اور معمر (راشد) دونوں نے باقی ماندہ اسی سند کے ساتھ ہشام بن عروہ سے اسی کے مانند ر وایت کی۔ امام صاحب اپنے دوسرے دو استادوں سے ہشام کی سند سے ہی مذکوہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عبیداللہ بن معاذ عنبری کے والد نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں شعبہ نے عدی بن ثابت سے حدیث بیان کی، انھوں نے عبداللہ بن یزید سے، انھوں نے حضرت ابو مسعود بدری رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مسلمان جب اپنے اہل وعیال پر خرچ کرتا ہے اور اس سے اللہ کی رضا چاہتا ہے تو وہ اس کے لئے صدقہ ہے۔" حضرت ابو مسعود بدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان اگر اپنے اہل پر بھی ثواب کی نیت سے خرچ کرتا ہے تو یہ اس کا صدقہ ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
محمد بن جعفر اور وکیع دونوں نے باقی ماندہ اسی سند کے ساتھ شعبہ سے یہی حدیث بیان کی۔ مصنف اپنے تین اور استادوں سے شعبہ ہی کی سند سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عبداللہ بن ادریس نے ہشام بن عروہ سے، انھوں نے اپنے والد سے، اور انھوں نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میرے والدہ میرے پاس آئی ہیں اور (صلہ رحمی کی) خواہش مند ہیں۔یا (خالی ہاتھ واپسی سے) خائف ہیں۔کیا میں ان سے صلہ رحمی کروں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں۔" حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میری والدہ میرے پاس آئی ہے اور وہ (صلہ رحمی کی) خواہش مند ہے(اور محرومی سے) خائف بھی ہے (کہ شاید میں اسے کچھ نہ دوں) کیا میں اس سے صلہ رحمی کروں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ہشام کے ایک اور شاگرد ابو اسامہ نے اسی سند کے ساتھ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا قریش کے ساتھ معاہدے کے زمانے میں، جب آپ نے ان سے معاہدہ صلح کیا تھا، میری والدہ آئیں، وہ مشرک تھیں تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اور عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میری والدہ میرے پاس آئی ہیں اور (مجھ سے صلہ رحمی کی) اُمید رکھتی ہیں تو کیا میں اپنی ماں سے صلہ رحمی کروں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں، اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔" حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے قریش کے ساتھ معاہدہ صلح کے دور میں میری والدہ آئی اور وہ مشرکہ تھی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا میں نے کہا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میری ماں میرے پاس آئی ہے اور وہ (صدقہ کی) خواہش مند ہے تو کیا میں اپنی ماں سے صلہ رحمی کروں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|