صحيح مسلم
كِتَاب الزَّكَاةِ
زکاۃ کے احکام و مسائل
14. باب فَضْلِ النَّفَقَةِ وَالصَّدَقَةِ عَلَى الأَقْرَبِينَ وَالزَّوْجِ وَالأَوْلاَدِ وَالْوَالِدَيْنِ وَلَوْ كَانُوا مُشْرِكِينَ:
باب: والدین اور دیگر اقرباء پر خرچ کرنے کی فضیلت اگرچہ وہ مشرک ہوں۔
حدیث نمبر: 2317
حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو ، عَنْ بُكَيْرٍ ، عَنْ كُرَيْبٍ ، عَنْ مَيْمُونَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ ، أَنَّهَا أَعْتَقَتْ وَلِيدَةً فِي زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" لَوْ أَعْطَيْتِهَا أَخْوَالَكِ كَانَ أَعْظَمَ لِأَجْرِكِ".
(ام المومنین) حضرت میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اپنی ایک لونڈی کو آزاد کیا۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس کا تذکرہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر تم اسے اپنے ماموؤں کو دے دیتیں تو یہ (کام) تمھارے اجر کو بڑا کردیتا۔"
حضرت میمونہ بنت الحارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک لونڈی آزاد کی۔ اور اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم اسے اپنے ماموؤں کو دیتیں تو تمہیں اجر زیادہ ملتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 2317 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2317
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
باپ کے رشتہ داروں کی طرح ماں کے رشتہ دار اور اس کے بھائی بھی انسان کے رشتے دار ہیں اور ان کو دینا بھی اجرو ثواب میں اضافہ کا باعث بنتا ہے۔
اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا عورت اپنا مال خاوند کو بتائے بغیر بھی خرچ کر سکتی ہے اگرچہ بہتر یہ ہے کہ اس کو اعتماد میں لے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2317
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2592
2592. حضرت میمونہ بنت حارث ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے اپنی ایک لونڈی کو آزاد کردیا جس کی بابت انھوں نے نبی کریم ﷺ سے اجازت نہیں لی تھی۔ جب ان کی باری کے دن آپ تشریف لائے تو انھوں نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ! کیا آپ کو معلوم ہے کہ میں نے اپنی لونڈی کو آزاد کردیا ہے؟آپ نے فرمایا: ” کیا واقعی تم آزاد کرچکی ہو؟“ انھوں نے کہا: جی ہاں!آپ نے فرمایا: ”اگر تم وہ لونڈی اپنے ننھیال کو دیتیں تو تمھیں زیادہ ثواب ہوتا۔“ بکر بن مضر نے عمروسے، انھوں نے بکیر سے، انھوں نے کریب سے بیان کیا کہ حضرت میمونہ ؓ نے (لونڈی) آزاد کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2592]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے دو چیزیں ثابت ہوتی ہیں:
ایک تو رسول اللہ ﷺ کی عدم موجودگی میں لونڈی آزاد کرنا، امام بخاری ؒ کا یہی مقصود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے باطل قرار نہیں دیا بلکہ اسے برقرار رکھتے ہوئے ایک بہتر کام کی طرف رہنمائی کی ہے اور دوسری صلہ رحمی کرنا کیونکہ آپ نے فرمایا:
”صلہ رحمی کا ثواب اسے آزاد کرنے سے زیادہ ہوتا۔
“ اس مقام پر ہدیہ نہیں صلہ رحمی ہے۔
حدیث میں ہے:
”مسکین پر صدقہ کرنا تو صرف صدقہ ہے لیکن رشتے دار کے ساتھ دست تعاون بڑھانا صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی۔
“ (فتح الباري: 269/5، و سنن النسائي، الزکاة، حدیث: 2583) (2)
دراصل امام بخاری ؒ ایک حدیث کے ناقابل استدلال ہونے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ خاوند کی اجازت کے بغیر بیوی کا عطیہ نافذ نہیں ہو گا۔
(سنن أبي داود، البیوع، حدیث: 3547)
امام مالک نے ان دونوں احادیث میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ ایک تہائی سے کم اجازت کے بغیر ہبہ کر سکتی ہے لیکن اس سے زیادہ اگر ہبہ کرنا ہو تو خاوند سے اجازت لینا ہو گی۔
(فتح الباري: 268/5) (3)
امام بخاری ؒ نے حدیث میمونہ کے بعد جو تعلیق ذکر کی ہے اس کے دو مقاصد ہیں:
محمد بن اسحاق جب یہ روایت بکیر سے بیان کرتے ہیں تو بکیر عن سلیمان بن یسار کے طریق کا ذکر کرتے ہیں جبکہ مذکورہ روایت میں یزید جب بکیر سے بیان کرتے ہیں تو "بکیر عن کریب" بیان کرتے ہیں۔
امام بخاری ؒ بتانا چاہتے ہیں کہ عمرو بھی یزید کی متابعت کرتے ہوئے اسے بکیر عن کریب ہی بیان کرتے ہیں اور یہی صحیح ہے۔
دوسری بات یہ ذکر کی کہ عمرو بیان کرتے ہیں تو مرسل ذکر کرتے ہیں، یعنی ان کی روایت میں کریب کا انداز یوں ہے کہ انہوں نے خود واقعے کا مشاہدہ کیا۔
(فتح الباري: 270/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2592