صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
كِتَاب الزَّكَاةِ
زکاۃ کے احکام و مسائل
The Book of Zakat
6. باب إِثْمِ مَانِعِ الزَّكَاةِ:
باب: زکوٰۃ نہ دینے کا عذاب۔
Chapter: The sin of one who withholds Zakat
حدیث نمبر: 2290
Save to word اعراب
وحدثني سويد بن سعيد ، حدثنا حفص يعني ابن ميسرة الصنعاني ، عن زيد بن اسلم ، ان ابا صالح ذكوان اخبره، انه سمع ابا هريرة ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما من صاحب ذهب ولا فضة لا يؤدي منها حقها، إلا إذا كان يوم القيامة صفحت له صفائح من نار، فاحمي عليها في نار جهنم، فيكوى بها جنبه وجبينه وظهره، كلما بردت اعيدت له في يوم كان مقداره خمسين الف سنة، حتى يقضى بين العباد، فيرى سبيله إما إلى الجنة، وإما إلى النار، قيل: يا رسول الله فالإبل؟، قال: ولا صاحب إبل لا يؤدي منها حقها، ومن حقها حلبها يوم وردها، إلا إذا كان يوم القيامة بطح لها بقاع قرقر اوفر ما كانت، لا يفقد منها فصيلا واحدا، تطؤه باخفافها وتعضه بافواهها، كلما مر عليه اولاها رد عليه اخراها في يوم كان مقداره خمسين الف سنة، حتى يقضى بين العباد، فيرى سبيله إما إلى الجنة، وإما إلى النار، قيل: يا رسول الله فالبقر والغنم؟، قال: ولا صاحب بقر ولا غنم لا يؤدي منها حقها، إلا إذا كان يوم القيامة بطح لها بقاع قرقر، لا يفقد منها شيئا ليس فيها عقصاء ولا جلحاء ولا عضباء، تنطحه بقرونها وتطؤه باظلافها، كلما مر عليه اولاها رد عليه اخراها في يوم كان مقداره خمسين الف سنة، حتى يقضى بين العباد، فيرى سبيله إما إلى الجنة، وإما إلى النار، قيل: يا رسول الله فالخيل؟، قال: الخيل ثلاثة: هي لرجل وزر، وهي لرجل ستر، وهي لرجل اجر، فاما التي هي له وزر، فرجل ربطها رياء وفخرا ونواء على اهل الإسلام، فهي له وزر، واما التي هي له ستر، فرجل ربطها في سبيل الله، ثم لم ينس حق الله في ظهورها ولا رقابها، فهي له ستر، واما التي هي له اجر، فرجل ربطها في سبيل الله لاهل الإسلام، في مرج وروضة فما اكلت من ذلك المرج او الروضة من شيء، إلا كتب له عدد ما اكلت حسنات، وكتب له عدد ارواثها وابوالها حسنات، ولا تقطع طولها فاستنت شرفا او شرفين، إلا كتب الله له عدد آثارها وارواثها حسنات، ولا مر بها صاحبها على نهر، فشربت منه ولا يريد ان يسقيها، إلا كتب الله له عدد ما شربت حسنات، قيل: يا رسول الله فالحمر؟، قال: ما انزل علي في الحمر شيء إلا هذه الآية الفاذة الجامعة فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره {7} ومن يعمل مثقال ذرة شرا يره {8} سورة الزلزلة آية 7-8 "،وحَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ يَعْنِي ابْنَ مَيْسَرَةَ الصَّنْعَانِيَّ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، أَنَّ أَبَا صَالِحٍ ذَكْوَانَ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ صَاحِبِ ذَهَبٍ وَلَا فِضَّةٍ لَا يُؤَدِّي مِنْهَا حَقَّهَا، إِلَّا إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ صُفِّحَتْ لَهُ صَفَائِحُ مِنْ نَارٍ، فَأُحْمِيَ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ، فَيُكْوَى بِهَا جَنْبُهُ وَجَبِينُهُ وَظَهْرُهُ، كُلَّمَا بَرَدَتْ أُعِيدَتْ لَهُ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ الْعِبَادِ، فَيَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِمَّا إِلَى النَّارِ، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَالْإِبِلُ؟، قَالَ: وَلَا صَاحِبُ إِبِلٍ لَا يُؤَدِّي مِنْهَا حَقَّهَا، وَمِنْ حَقِّهَا حَلَبُهَا يَوْمَ وِرْدِهَا، إِلَّا إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ بُطِحَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ أَوْفَرَ مَا كَانَتْ، لَا يَفْقِدُ مِنْهَا فَصِيلًا وَاحِدًا، تَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا وَتَعَضُّهُ بِأَفْوَاهِهَا، كُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ أُولَاهَا رُدَّ عَلَيْهِ أُخْرَاهَا فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ الْعِبَادِ، فَيَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِمَّا إِلَى النَّارِ، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَالْبَقَرُ وَالْغَنَمُ؟، قَالَ: وَلَا صَاحِبُ بَقَرٍ وَلَا غَنَمٍ لَا يُؤَدِّي مِنْهَا حَقَّهَا، إِلَّا إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ بُطِحَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ، لَا يَفْقِدُ مِنْهَا شَيْئًا لَيْسَ فِيهَا عَقْصَاءُ وَلَا جَلْحَاءُ وَلَا عَضْبَاءُ، تَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا وَتَطَؤُهُ بِأَظْلَافِهَا، كُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ أُولَاهَا رُدَّ عَلَيْهِ أُخْرَاهَا فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ الْعِبَادِ، فَيَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِمَّا إِلَى النَّارِ، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَالْخَيْلُ؟، قَالَ: الْخَيْلُ ثَلَاثَةٌ: هِيَ لِرَجُلٍ وِزْرٌ، وَهِيَ لِرَجُلٍ سِتْرٌ، وَهِيَ لِرَجُلٍ أَجْرٌ، فَأَمَّا الَّتِي هِيَ لَهُ وِزْرٌ، فَرَجُلٌ رَبَطَهَا رِيَاءً وَفَخْرًا وَنِوَاءً عَلَى أَهْلِ الْإِسْلَامِ، فَهِيَ لَهُ وِزْرٌ، وَأَمَّا الَّتِي هِيَ لَهُ سِتْرٌ، فَرَجُلٌ رَبَطَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ثُمَّ لَمْ يَنْسَ حَقَّ اللَّهِ فِي ظُهُورِهَا وَلَا رِقَابِهَا، فَهِيَ لَهُ سِتْرٌ، وَأَمَّا الَّتِي هِيَ لَهُ أَجْرٌ، فَرَجُلٌ رَبَطَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ، فِي مَرْجٍ وَرَوْضَةٍ فَمَا أَكَلَتْ مِنْ ذَلِكَ الْمَرْجِ أَوِ الرَّوْضَةِ مِنْ شَيْءٍ، إِلَّا كُتِبَ لَهُ عَدَدَ مَا أَكَلَتْ حَسَنَاتٌ، وَكُتِبَ لَهُ عَدَدَ أَرْوَاثِهَا وَأَبْوَالِهَا حَسَنَاتٌ، وَلَا تَقْطَعُ طِوَلَهَا فَاسْتَنَّتْ شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ، إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ عَدَدَ آثَارِهَا وَأَرْوَاثِهَا حَسَنَاتٍ، وَلَا مَرَّ بِهَا صَاحِبُهَا عَلَى نَهْرٍ، فَشَرِبَتْ مِنْهُ وَلَا يُرِيدُ أَنْ يَسْقِيَهَا، إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ عَدَدَ مَا شَرِبَتْ حَسَنَاتٍ، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَالْحُمُرُ؟، قَالَ: مَا أُنْزِلَ عَلَيَّ فِي الْحُمُرِ شَيْءٌ إِلَّا هَذِهِ الْآيَةَ الْفَاذَّةُ الْجَامِعَةُ فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ {7} وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ {8} سورة الزلزلة آية 7-8 "،
حفص بن میسرہ صنعانی نے زید بن اسلم سے حدیث بیان کی کہ ان کو ابو صالح ذکوان نے خبر دی کہ انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو بھی سونے اور چاندی کا مالک ان میں سے (یا ان کی قیمت میں سے) ان کا حق (زکاۃ) ادا نہیں کرتا تو جب قیامت کا دن ہوگا (انھیں) اس کے لئے آگ کی تختیاں بنا دیا جائے گا اور انھیں جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا اور پھران سے اس کے پہلو، اس کی پیشانی اور اس کی پشت کو داغا جائےگا، جب وہ (تختیاں) پھر سے (آگ میں) جائیں گی، انھیں پھر سے اس کے لئے واپس لایا جائےگا، اس دن جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے (یہ عمل مسلسل ہوتا رہے گا) حتیٰ کہ بندوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے گا، پھر وہ جنت یا دوزخ کی طرف اپنا راستہ دیکھ لےگا۔"آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اونٹوں کا کیا حکم ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کوئی اونٹوں کا مالک نہیں جو ان کا حق ادا نہیں کرتا اور ان کا حق یہ بھی ہے کہ ان کو پانی پلانے کے دن (ضرورت مندوں اور مسافروں کےلئے) ان کا دودھ نکالا جائے، اور جب قیامت کا دن ہوگااس (مالک) ایک وسیع چٹیل میدان میں ان (اونٹوں) کے سامنے بچھا (لٹا) دیاجائے گا، وہ (اونٹ دنیا میں تعداد اور فربہی کے اعتبار سے) جتنے زیادہ سے زیادہ وافر تھے اس حالت میں ہوں گے، وہ ان میں سے دودھ چھڑائے ہوئے ایک بچے کو بھی گم نہیں پائے گا، وہ اسے اپنے قدموں سے روندیں گے اور اپنے منہ سے کاٹیں گے، جب بھی ان میں سے پہلا اونٹ اس پر سے گزر جائےگا تو دوسرا اس پر واپس لے آیا جائے گا، یہ اس دن میں (بار بار) ہوگا جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہوگی، یہاں تک کہ بندوں کے درمیان فیصلہ ہوجائےگا اور اسے اور اسے جنت کادوزخ کی طرف اس کا راستہ دیکھایاجائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عر ض کی گئی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !تو گائے اور بکریاں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اورنہ گائے اور بکریوں کا کوئی مالک ہوگا جو ان کا حق ادا نہیں کرتا، مگر جب قیامت کادن ہوگا تو اسے ان کے سامنے وسیع چٹیل میدان میں بچھایا (لِٹایا) جائے گا۔وہ ان میں سے کسی ایک (جانور) کو بھی گم نہیں پائےگا۔ان میں کوئی (گائے یا بکری) نہ مڑے سینگوں والی ہوگی، نہ بغیر سینگوں کے اور نہ ہی کوئی ٹوٹے سینگوں والی ہوگی (سب سیدھے تیز سینگوں والی ہوں گی) وہ اسے اپنے سینگوں سے ماریں گی اور اپنے سمو سے روندیں گی، (یہ معاملہ) اس دن میں (ہوگا) جو پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا، جب پہلا (جانور) گزر جائے گا تو ان کا دوسرا (جانور واپس) لے آیا جائے گا حتیٰ کہ بندوں کے درمیان فیصلہ ہوجائے گا، اور سے جنت یا دوزخ کی طرف اس کا راستہ د یکھایا جائے گا۔"عرض کی گئی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !تو گھوڑے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "گھوڑے تین طرح کے ہیں: وہ جو آدمی کے بوجھ ہیں، دوسرے وہ جو آدمی کے لئے ستر (پردہ پوشی کا باعث) ہیں۔تیسرے وہ جو آدمی کے لئے اجر وثواب کا باعث ہیں۔بوجھ اور گناہ کا باعث وہ گھوڑے ہیں جن کو ان مالک ریاکاری، فخر وغرور، اور مسلمانوں کی دشمنی کے لئے باندھتا ہے تو یہ گھوڑے اس کے لئے بوجھ (گناہ) ہیں۔ اور وہ جو اسکے لئے پردہ پوشی کا باعث ہیں تو وہ (اس) آدمی (کے گھوڑے ہیں) جس نے انھیں (موقع ملنے پر) اللہ کی راہ میں (خود جہاد کرنے کے لئے) باندھ رکھا ہے، پھر وہ ان کی پشتوں اور گردنوں میں اللہ کے حق کو نہیں بھولا تو یہ اس کے لئے باعث ستر ہیں (چاہے اسے جہاد کا موقع ملے یا نہ ملے) اور وہ گھوڑے جو اس کے لئے اجر وثواب کا باعث ہیں تو وہ (اس) آدمی (کے گھوڑے ہیں) جس نے انھیں اللہ کی راہ میں اہل اسلام کی خاطر کسی چراگاہ یا باغیچے میں باندھ رکھا ہے (اور وہ خود جہاد پر جاسکے یا نہ جاسکے انھیں دوسروں کو جہاد کے لئے دیتا ہے) یہ گھوڑے اس چراگاہ یاباغ میں سے جتنا بھی کھائیں گے تو اس شخص کے لئے اتنی تعداد میں نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور اس شخص کے لئے ان کی لید اور پیشاب کی مقدار کے برابر (بھی) نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور وہ گھوڑے اپنی رسی تڑواکر ایک دو ٹیلوں کی دوڑ نہیں لگائیں گے مگر اللہ تعالیٰ ا س شخص کےلئے ان کے قدموں کے نشانات اور لید کی تعداد کے برابر نیکیاں لکھ دے گا اور نہ ہی ان کا مالک انھیں لے کر کسی نہر پر سے گزرے گا اور وہ گھوڑے اس نہر میں سے پانی پیئں گے جبکہ وہ (مالک) ان کو پانی پلانا (بھی) نہیں چاہتا مگر اللہ تعالیٰ اس شخص کے لئے اتنی نیکیاں لکھ دے گا جتنا ان گھوڑوں نے پانی پیا۔"عرض کی گئی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اور گدھے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھ پر گدھوں کے بارے میں اس منفرد اور جامع آیت کے سوا کوئی چیز نازل نہیں کی گئی: فَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّ‌ۃٍ خَیْرً‌ا یَرَ‌ہُ ﴿﴾ وَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّ‌ۃٍ شَرًّ‌ا یَرَ‌ہُ ﴿﴾"جو کوئی ایک زرے کی مقداار میں نیکی کرے گا (قیامت کے دن) اسے دیکھ لے گا اور جو کوئی ایک زرے کے برابر بُرائی کرے گا اسے دیکھ لے گا۔"
حدیث نمبر: 2291
Save to word اعراب
وحدثني يونس بن عبد الاعلى الصدفي ، اخبرنا عبد الله بن وهب ، حدثني هشام بن سعد ، عن زيد بن اسلم في هذا الإسناد بمعنى حديث حفص بن ميسرة إلى آخره، غير انه قال: " ما من صاحب إبل لا يؤدي حقها " ولم يقل: " منها حقها "، وذكر فيه: " لا يفقد منها فصيلا واحدا "، وقال: " يكوى بها جنباه وجبهته وظهره ".وحَدَّثَنِي يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الصَّدَفِيُّ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنِي هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ بِمَعْنَى حَدِيثِ حَفْصِ بْنِ مَيْسَرَةَ إِلَى آخِرِهِ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: " مَا مِنْ صَاحِبِ إِبِلٍ لَا يُؤَدِّي حَقَّهَا " وَلَمْ يَقُلْ: " مِنْهَا حَقَّهَا "، وَذَكَرَ فِيهِ: " لَا يَفْقِدُ مِنْهَا فَصِيلًا وَاحِدًا "، وَقَالَ: " يُكْوَى بِهَا جَنْبَاهُ وَجَبْهَتُهُ وَظَهْرُهُ ".
ہشام بن سعد نے زید بن اسلم سے اسی سند کے ساتھ حفص بن میسرہ کی حدیث کے آخر تک اس کے ہم معنی روایت بیان کی، البتہ انھوں نے"جو اونٹوں کا مالک ان کا حق ادا نہیں کرتا"کہا: اورمنہاحقہا (اور میں سے ان کا حق) کے الفاظ نہیں کہے اور انھون نے (بھی) اپنی حدیث میں"وہ ان میں سے دودھ چھڑائے ہوئے ای بچے کوبھی گم نہ پائے گا"کے الفاظ روایت کئے ہیں اور اسی طرح (ان سے اس کے پہلو، پیشانی اور کمر کو داغا جائے گا کے بجائے) یکوی بہا جنباہ وجبہتہ وظہرہ (اس کے دونوں پہلو، اس کی پیشانی اور کمر کو داغا جائے گا) کے الفاظ کہے۔
حدیث نمبر: 2292
Save to word اعراب
وحدثني محمد بن عبد الملك الاموي ، حدثنا عبد العزيز بن المختار ، حدثنا سهيل بن ابي صالح ، عن ابيه ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما من صاحب كنز لا يؤدي زكاته، إلا احمي عليه في نار جهنم، فيجعل صفائح فيكوى بها جنباه وجبينه، حتى يحكم الله بين عباده في يوم كان مقداره خمسين الف سنة، ثم يرى سبيله إما إلى الجنة وإما إلى النار، وما من صاحب إبل لا يؤدي زكاتها، إلا بطح لها بقاع قرقر، كاوفر ما كانت تستن عليه، كلما مضى عليه اخراها ردت عليه اولاها، حتى يحكم الله بين عباده في يوم كان مقداره خمسين الف سنة، ثم يرى سبيله إما إلى الجنة وإما إلى النار، وما من صاحب غنم لا يؤدي زكاتها، إلا بطح لها بقاع قرقر، كاوفر ما كانت، فتطؤه باظلافها وتنطحه بقرونها ليس فيها عقصاء ولا جلحاء، كلما مضى عليه اخراها ردت عليه اولاها، حتى يحكم الله بين عباده في يوم كان مقداره خمسين الف سنة مما تعدون، ثم يرى سبيله إما إلى الجنة وإما إلى النار، قال سهيل: فلا ادري اذكر البقر ام لا؟، قالوا: فالخيل يا رسول الله، قال: الخيل في نواصيها، او قال: الخيل معقود في نواصيها، قال سهيل: انا اشك الخير إلى يوم القيامة، الخيل ثلاثة: فهي لرجل اجر، ولرجل ستر، ولرجل وزر، فاما التي هي له اجر، فالرجل يتخذها في سبيل الله، ويعدها له، فلا تغيب شيئا في بطونها إلا كتب الله له اجرا، ولو رعاها في مرج ما اكلت من شيء إلا كتب الله له بها اجرا، ولو سقاها من نهر كان له بكل قطرة تغيبها في بطونها اجر، حتى ذكر الاجر في ابوالها وارواثها، ولو استنت شرفا او شرفين كتب له بكل خطوة تخطوها اجر، واما الذي هي له ستر، فالرجل يتخذها تكرما وتجملا، ولا ينسى حق ظهورها وبطونها في عسرها ويسرها، واما الذي عليه وزر، فالذي يتخذها اشرا وبطرا وبذخا ورياء الناس، فذاك الذي هي عليه وزر، قالوا: فالحمر يا رسول الله؟، قال: ما انزل الله علي فيها شيئا إلا هذه الآية الجامعة الفاذة فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره {7} ومن يعمل مثقال ذرة شرا يره {8} سورة الزلزلة آية 7-8 "،وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ الْأُمَوِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ ، حَدَّثَنَا سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ صَاحِبِ كَنْزٍ لَا يُؤَدِّي زَكَاتَهُ، إِلَّا أُحْمِيَ عَلَيْهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ، فَيُجْعَلُ صَفَائِحَ فَيُكْوَى بِهَا جَنْبَاهُ وَجَبِينُهُ، حَتَّى يَحْكُمَ اللَّهُ بَيْنَ عِبَادِهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، ثُمَّ يَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِمَّا إِلَى النَّارِ، وَمَا مِنْ صَاحِبِ إِبِلٍ لَا يُؤَدِّي زَكَاتَهَا، إِلَّا بُطِحَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ، كَأَوْفَرِ مَا كَانَتْ تَسْتَنُّ عَلَيْهِ، كُلَّمَا مَضَى عَلَيْهِ أُخْرَاهَا رُدَّتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا، حَتَّى يَحْكُمَ اللَّهُ بَيْنَ عِبَادِهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، ثُمَّ يَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِمَّا إِلَى النَّارِ، وَمَا مِنْ صَاحِبِ غَنَمٍ لَا يُؤَدِّي زَكَاتَهَا، إِلَّا بُطِحَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ، كَأَوْفَرِ مَا كَانَتْ، فَتَطَؤُهُ بِأَظْلَافِهَا وَتَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا لَيْسَ فِيهَا عَقْصَاءُ وَلَا جَلْحَاءُ، كُلَّمَا مَضَى عَلَيْهِ أُخْرَاهَا رُدَّتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا، حَتَّى يَحْكُمَ اللَّهُ بَيْنَ عِبَادِهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ، ثُمَّ يَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِمَّا إِلَى النَّارِ، قَالَ سُهَيْلٌ: فَلَا أَدْرِي أَذَكَرَ الْبَقَرَ أَمْ لَا؟، قَالُوا: فَالْخَيْلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: الْخَيْلُ فِي نَوَاصِيهَا، أَوَ قَالَ: الْخَيْلُ مَعْقُودٌ فِي نَوَاصِيهَا، قَالَ سُهَيْلٌ: أَنَا أَشُكُّ الْخَيْرُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، الْخَيْلُ ثَلَاثَةٌ: فَهِيَ لِرَجُلٍ أَجْرٌ، وَلِرَجُلٍ سِتْرٌ، وَلِرَجُلٍ وِزْرٌ، فَأَمَّا الَّتِي هِيَ لَهُ أَجْرٌ، فَالرَّجُلُ يَتَّخِذُهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَيُعِدُّهَا لَهُ، فَلَا تُغَيِّبُ شَيْئًا فِي بُطُونِهَا إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ أَجْرًا، وَلَوْ رَعَاهَا فِي مَرْجٍ مَا أَكَلَتْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِهَا أَجْرًا، وَلَوْ سَقَاهَا مِنْ نَهْرٍ كَانَ لَهُ بِكُلِّ قَطْرَةٍ تُغَيِّبُهَا فِي بُطُونِهَا أَجْرٌ، حَتَّى ذَكَرَ الْأَجْرَ فِي أَبْوَالِهَا وَأَرْوَاثِهَا، وَلَوِ اسْتَنَّتْ شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ كُتِبَ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ تَخْطُوهَا أَجْرٌ، وَأَمَّا الَّذِي هِيَ لَهُ سِتْرٌ، فَالرَّجُلُ يَتَّخِذُهَا تَكَرُّمًا وَتَجَمُّلًا، وَلَا يَنْسَى حَقَّ ظُهُورِهَا وَبُطُونِهَا فِي عُسْرِهَا وَيُسْرِهَا، وَأَمَّا الَّذِي عَلَيْهِ وِزْرٌ، فَالَّذِي يَتَّخِذُهَا أَشَرًا وَبَطَرًا وَبَذَخًا وَرِيَاءَ النَّاسِ، فَذَاكَ الَّذِي هِيَ عَلَيْهِ وِزْرٌ، قَالُوا: فَالْحُمُرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: مَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيَّ فِيهَا شَيْئًا إِلَّا هَذِهِ الْآيَةَ الْجَامِعَةَ الْفَاذَّةَ فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ {7} وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ {8} سورة الزلزلة آية 7-8 "،
عبدالعزیز بن مختار نے کہا: ہمیں سہیل بن ابی صالح نے اپنے والد سے حدیث سنائی، انھوں نے حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نےکہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کوئی بھی خزانے کا مالک نہیں جو اس کی زکاۃ ادا نہیں کرتا، مگر اس کے خزانے کو جہنم کی آگ میں تپایا جائےگا، پھر اس کی تختیاں بنائی جائیں گی اور ان سے اس کے دونوں پہلوؤں اور پیشانی کو داغا جائےگا حتیٰ کہ اللہ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرمادے گا، (یہ) اس دن میں ہوگا جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہے، پھر اسے جنت یا جہنم کی طرف اس کا راستہ دکھا دیاجائے گا۔اور کوئی بھی اونٹوں کا مالک نہیں جو ان کی زکاۃ ادا نہیں کرتا مگر اسے ان (اونٹوں) کے سامنے وسیع چٹیل میدان میں لٹایا جائے گا جبکہ وہ اونٹ (تعداد اور جسامت میں) جتنے زیادہ سے زیادہ وافر تھے اس حالت میں ہوں گے (وہ) اس کے اوپر دوڑ لگائیں گے۔جب بھی ان میں آ خری اونٹ گزرے گا پہلا اونٹ، اس پر دوبارہ لایا جائےگا، حتیٰ کہ اللہ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرماد ے گا۔ (یہ) ایک ایسے دن میں (ہوگا) جو پچاس ہزار سال کے برابرہوگا، پھر اسے جنت یا دوزخ کی طرف اس کا راستہ دیکھا دیا جائے گا۔اور جو بھی بکریوں کا مالک ان کی زکاۃ ادا نہیں کرتا تو اسے وہ وافر ترین حالت میں جس میں وہ تھیں، ان کے سامنے ایک وسیع وعریض چٹیل میدان میں بچھا (لٹا) دیا جائے گا، وہ اسے اپنے کھروں سے روندیں گی اور اپنے سینگوں سے ماریں گی۔ان میں نہ کوئی مڑے سینگوں والی ہوگی اور نہ بغیر سینگوں کے۔جب بھی آخری بکری گزرے گی اسی و قت پہلی دوبارہ اس پر لائی جائے گی۔حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ ایک ایسے دن میں جو پچاس ہزار سال کے برابر ہے، اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کردے گا۔پھر اسے جنت کا دوزخ کی طرف اس کا راستہ دکھایا جائے گا۔" سہیل نے کہا: میں نے نہیں جانتا کہ آپ نے گائے کا تذکرہ فرمایا یا نہیں۔صحابہ (رضوان اللہ عنھم اجمعین) نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !تو گھوڑے (کا کیا حکم ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت کے دن تک خیر، گھوڑوں کی پیشانی میں ہے۔۔۔"یا فرمایا: "گھوڑوں کی پیشانی سے بندھی ہوئی ہے۔۔۔"سہیل نے کہا: مجھے شک ہے۔۔۔ (فرمایا) "گھوڑے تین قسم کے ہیں۔یہ ایک آدمی کے لئے باعث اجر ہیں، ایک آدمی کے لئے پردہ پوشی کا باعث ہیں۔اور ایک کے لئے بوجھ اور گناہ کا سبب ہیں۔وہ گھوڑے جو اس (مالک) کے لئے اجر (کا سبب) ہیں تو (ان کا مالک) وہ آدمی ہے جو انھیں اللہ کے راستے میں (جہاد کے لئے) پالتا ہے۔اور تیار کرتا ہے تو یہ گھوڑے کوئی چیز اپنے پیٹ میں نہیں ڈالتے مگر اللہ اس کی وجہ سے اس کے لئے اجر لکھ دیتاہے۔اگر وہ انھیں چراگاہ میں چراتا ہے تو وہ کوئی چیز بھی نہیں کھاتے۔مگر اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے لئے اجر لکھ دیتا ہے۔اور اگر وہ انھیں کسی نہر سے پانی پلاتا ہے تو پانی کے ہر قطرے کے بدلے جسے وہ اپنے پیٹ میں اتارتے ہیں۔اس کے لئے اجر ہے۔حتیٰ کہ آپ نے ان کے پیشاب اور لید کرنے میں بھی اجر ملنے کا تذکرہ کیا۔۔۔اور اگر یہ گھوڑے ایک یا دو ٹیلوں (کافاصلہ) دوڑیں۔تو اس کے لئے ان کے ہر قدم کے عوض جو وہ اٹھاتے ہیں، اجر لکھ دیا جاتا ہے۔اور وہ انسان جس کے لئے یہ باعث پردہ ہیں تو وہ آدمی ہے جو انھیں عزت وشرف اور زینت کے طور پر رکھتا ہے۔اور وہ تنگی اور آسانی (ہرحالت) میں ان کی پشتوں اور ان کے پیٹوں کا حق نہیں بھولتا۔رہا وہ آدمی جس کے لئے وہ بوجھ ہیں تو وہ شخص ہے جو انھیں ناسپاس گزاری کے طور پر، غرور اور تکبر کرنے اور لوگوں کو دکھانے کے لئے ر کھتا ہے تو وہی ہے جس کے لئے یہ گھوڑے بوجھ کاباعث ہیں۔"لوگوں نے کہا: اے اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم ! تو گدھے (ان کا کیا حکم ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ان کے بارے میں اس منفرد اور جامع آیت کے سوا کچھ نازل نہیں کیا: "تو جو کوئی زرہ برابر نیکی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا۔"
حدیث نمبر: 2293
Save to word اعراب
وحدثناه قتيبة بن سعيد ، حدثنا عبد العزيز يعني الدراوردي ، عن سهيل بهذا الإسناد، وساق الحديث،وحَدَّثَنَاه قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي الدَّرَاوَرْدِيَّ ، عَنْ سُهَيْلٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ،
عبدالعزیز دراوردی نے سہیل سے اسی سند کے ساتھ روایت کی اور (پوری) حدیث بیان کی۔
حدیث نمبر: 2294
Save to word اعراب
وحدثنيه محمد بن عبد الله بن بزيع ، حدثنا يزيد بن زريع ، حدثنا روح بن القاسم ، حدثنا سهيل بن ابي صالح بهذا الإسناد، وقال بدل " عقصاء ": " عضباء "، وقال: " فيكوى بها جنبه وظهره "، ولم يذكر: " جبينه "،وحَدَّثَنِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ بَدَلَ " عَقْصَاءُ ": " عَضْبَاءُ "، وَقَالَ: " فَيُكْوَى بِهَا جَنْبُهُ وَظَهْرُهُ "، وَلَمْ يَذْكُر: " جَبِينُهُ "،
روح بن قاسم نے کہا: ہمیں سہیل بن ابی صالح نے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی اورعقصاء (مرے ہوئے سینگوں والی) کے بجائےعضباء (ٹوٹے ہوئے سینگوں والی) کہا: اور اس کے زریعے سے اس کا پہلو اور اس کی پشت داغی جائے گی"کہا اور پیشانی کا ذکر نہیں کیا۔
حدیث نمبر: 2295
Save to word اعراب
وحدثني هارون بن سعيد الايلي ، حدثنا ابن وهب ، اخبرني عمرو بن الحارث ، ان بكيرا حدثه، عن ذكوان ، عن ابي هريرة ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه قال: " إذا لم يؤد المرء حق الله او الصدقة في إبله "، وساق الحديث بنحو حديث سهيل، عن ابيه.وحَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، أَنَّ بُكَيْرًا حَدَّثَهُ، عَنْ ذَكْوَانَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " إِذَا لَمْ يُؤَدِّ الْمَرْءُ حَقَّ اللَّهِ أَوِ الصَّدَقَةَ فِي إِبِلِهِ "، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ.
بکیرنے (ابو صالح) ذکوان سے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ر وایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"جب انسان اپنے اونٹوں میں اللہ کا حق یا زکاۃ ادا نہیں کرتا۔۔۔"آگے سہیل کی روایت کی طرح حدیث بیا ن کی۔
حدیث نمبر: 2296
Save to word اعراب
حدثنا إسحاق بن إبراهيم ، اخبرنا عبد الرزاق . ح وحدثني محمد بن رافع واللفظ له، حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا ابن جريج ، اخبرني ابو الزبير ، انه سمع جابر بن عبد الله الانصاري ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " ما من صاحب إبل لا يفعل فيها حقها، إلا جاءت يوم القيامة اكثر ما كانت قط، وقعد لها بقاع قرقر تستن عليه بقوائمها واخفافها، ولا صاحب بقر لا يفعل فيها حقها، إلا جاءت يوم القيامة اكثر ما كانت، وقعد لها بقاع قرقر تنطحه بقرونها وتطؤه بقوائمها، ولا صاحب غنم لا يفعل فيها حقها، إلا جاءت يوم القيامة اكثر ما كانت، وقعد لها بقاع قرقر تنطحه بقرونها وتطؤه باظلافها، ليس فيها جماء ولا منكسر قرنها، ولا صاحب كنز لا يفعل فيه حقه، إلا جاء كنزه يوم القيامة شجاعا اقرع يتبعه فاتحا فاه، فإذا اتاه فر منه، فيناديه خذ كنزك الذي خباته فانا عنه غني، فإذا راى ان لا بد منه سلك يده في فيه، فيقضمها قضم الفحل "، قال ابو الزبير : سمعت عبيد بن عمير يقول هذا القول، ثم سالنا جابر بن عبد الله عن ذلك، فقال مثل قول عبيد بن عمير ، وقال ابو الزبير : سمعت عبيد بن عمير ، يقول: قال رجل: يا رسول الله ما حق الإبل؟، قال: " حلبها على الماء، وإعارة دلوها، وإعارة فحلها ومنيحتها، وحمل عليها في سبيل الله ".حَدَّثَنَا إسحاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ . ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيَّ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَا مِنْ صَاحِبِ إِبِلٍ لَا يَفْعَلُ فِيهَا حَقَّهَا، إِلَّا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَكْثَرَ مَا كَانَتْ قَطُّ، وَقَعَدَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ تَسْتَنُّ عَلَيْهِ بِقَوَائِمِهَا وَأَخْفَافِهَا، وَلَا صَاحِبِ بَقَرٍ لَا يَفْعَلُ فِيهَا حَقَّهَا، إِلَّا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَكْثَرَ مَا كَانَتْ، وَقَعَدَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ تَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا وَتَطَؤُهُ بِقَوَائِمِهَا، وَلَا صَاحِبِ غَنَمٍ لَا يَفْعَلُ فِيهَا حَقَّهَا، إِلَّا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَكْثَرَ مَا كَانَتْ، وَقَعَدَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ تَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا وَتَطَؤُهُ بِأَظْلَافِهَا، لَيْسَ فِيهَا جَمَّاءُ وَلَا مُنْكَسِرٌ قَرْنُهَا، وَلَا صَاحِبِ كَنْزٍ لَا يَفْعَلُ فِيهِ حَقَّهُ، إِلَّا جَاءَ كَنْزُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعَ يَتْبَعُهُ فَاتِحًا فَاهُ، فَإِذَا أَتَاهُ فَرَّ مِنْهُ، فَيُنَادِيهِ خُذْ كَنْزَكَ الَّذِي خَبَأْتَهُ فَأَنَا عَنْهُ غَنِيٌّ، فَإِذَا رَأَى أَنْ لَا بُدَّ مِنْهُ سَلَكَ يَدَهُ فِي فِيهِ، فَيَقْضَمُهَا قَضْمَ الْفَحْلِ "، قَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ : سَمِعْتُ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ يَقُولُ هَذَا الْقَوْلَ، ثُمَّ سَأَلْنَا جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ مِثْلَ قَوْلِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ ، وقَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ : سَمِعْتُ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ ، يَقُولُ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا حَقُّ الْإِبِلِ؟، قَالَ: " حَلَبُهَا عَلَى الْمَاءِ، وَإِعَارَةُ دَلْوِهَا، وَإِعَارَةُ فَحْلِهَا وَمَنِيحَتُهَا، وَحَمْلٌ عَلَيْهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ".
ابن جریج نے کہا: مجھے ابو زبیر نے بتایا کہ انھوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرمارہے تھے: "کوئی اونٹوں کا مالک نہیں جو ان کے معاملے میں اس طرح نہیں کرتا جس طرح ان کا حق ہے مگر وہ قیامت کے دن اپنی انتہائی زیادہ تعداد میں آئیں گے جو کبھی ان کی تھی اور وہ ان (اونٹوں) کے سامنے وسیع چٹیل میدان میں بیٹھے گا اور وہ اسے اپنے اگلے قدموں اور اپنے پاؤں سے روندیں گے۔اسی طرح کوئی گائے کا مالک نہیں جو ان کا حق ادا نہیں کرتا مگر وہ قیامت کے دن اس سے زیادہ سے زیادہ تعداد میں آئیں گی جو کبھی ان کی تھی۔اور وہ ان کے سامنے چٹیل میدان میں بیٹھے گا، وہ اسے اپنے سینگوں سے ماریں گی اور اپنے پیروں سے روندیں گی اور اسی طرح بکریوں کا کوئی مالک نہیں جو ان کا حق ادا نہیں کرتا تو وہ قیامت کے دن اپنی زیادہ سے زیادہ تعداد میں آئیں گی جو کبھی ان کی تھی اور وہ ان کے سامنے وسیع چٹیل میدان میں بیٹھے گا اور وہ اسے اپنے سینگوں سے ماریں گی اور اپنے سموں سے اسے روندیں گی اور ان میں نہ کوئی سینگوں کے بغیر ہوگی اور نہ ہی کوئی ٹوٹے سینگوں والی ہوگی اور کوئی (سونے چاندی کے) خزانے کا مالک نہیں جو اس کا حق ادا نہیں کرتا مگر قیامت کے دن اس کا خزانہ گنجا سانپ بن کر آئے گا اور اپنا منہ کھولے ہوئے اس کاتعاقب کرے گا، جب اس کے پاس پہنچے گا تو وہ اس سے بھاگے گا، پھر وہ (سانپ) اسے آواز دے گا: اپنا خزانہ لے لو جو تم نے (دنیامیں) چھپا کررکھا تھا۔مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔جب (خزانے والا) دیکھے گا اس سے بچنے کی کوئی صورت نہیں تو وہ اپنا ہاتھ اس (سانپ) کے منہ میں داخل کرے گا، وہ اسے اس طرح چبائے گا جس طرح سانڈھ چباتا ہے۔" ابو زبیر نے کہا: میں نے عبید بن عمیر کو یہ بات کہتے ہوئے سنا، پھر ہم نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے اس (حدیث) کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے اسی طرح کہا جس طرح عبید بن عمیر نے کہا۔ اور ابو زبیر نے کہا: میں نے عبید بن عمیر کو کہتے ہوئے سنا ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اونٹوں کا حق کیا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پانی (پلانے کاموقع) پر ان کا دودھ دوہنا (اور لوگوں کو پلانا) اور اس کا ڈول ادھار دینا اور اس کا سانڈ ادھار دینا اور اونٹنی کو دودھ پینے کے لئے دینا اور اللہ کی راہ میں سواری کی خاطر دینا۔"
حدیث نمبر: 2297
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، حدثنا ابي ، حدثنا عبد الملك ، عن ابي الزبير ، عن جابر بن عبد الله ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " ما من صاحب إبل ولا بقر ولا غنم لا يؤدي حقها، إلا اقعد لها يوم القيامة بقاع قرقر، تطؤه ذات الظلف بظلفها، وتنطحه ذات القرن بقرنها ليس فيها يومئذ جماء ولا مكسورة القرن، قلنا: يا رسول الله وما حقها؟، قال: إطراق فحلها، وإعارة دلوها ومنيحتها، وحلبها على الماء، وحمل عليها في سبيل الله، ولا من صاحب مال لا يؤدي زكاته، إلا تحول يوم القيامة شجاعا اقرع يتبع صاحبه حيثما ذهب، وهو يفر منه، ويقال: هذا مالك الذي كنت تبخل به، فإذا راى انه لا بد منه، ادخل يده في فيه فجعل يقضمها كما يقضم الفحل ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَا مِنْ صَاحِبِ إِبِلٍ وَلَا بَقَرٍ وَلَا غَنَمٍ لَا يُؤَدِّي حَقَّهَا، إِلَّا أُقْعِدَ لَهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِقَاعٍ قَرْقَرٍ، تَطَؤُهُ ذَاتُ الظِّلْفِ بِظِلْفِهَا، وَتَنْطَحُهُ ذَاتُ الْقَرْنِ بِقَرْنِهَا لَيْسَ فِيهَا يَوْمَئِذٍ جَمَّاءُ وَلَا مَكْسُورَةُ الْقَرْنِ، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا حَقُّهَا؟، قَالَ: إِطْرَاقُ فَحْلِهَا، وَإِعَارَةُ دَلْوِهَا وَمَنِيحَتُهَا، وَحَلَبُهَا عَلَى الْمَاءِ، وَحَمْلٌ عَلَيْهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَلَا مِنْ صَاحِبِ مَالٍ لَا يُؤَدِّي زَكَاتَهُ، إِلَّا تَحَوَّلَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعَ يَتْبَعُ صَاحِبَهُ حَيْثُمَا ذَهَبَ، وَهُوَ يَفِرُّ مِنْهُ، وَيُقَالُ: هَذَا مَالُكَ الَّذِي كُنْتَ تَبْخَلُ بِهِ، فَإِذَا رَأَى أَنَّهُ لَا بُدَّ مِنْهُ، أَدْخَلَ يَدَهُ فِي فِيهِ فَجَعَلَ يَقْضَمُهَا كَمَا يَقْضَمُ الْفَحْلُ ".
عبدالملک نے ابو زبیر سے، انھوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اونٹوں، گائے اور بکریوں کا جو بھی مالک ان کا حق ادا نہیں کرتا تو اسے قیامت کے دن ان کے سامنے وسیع چٹیل میدان میں بٹھایا جائےگا۔سموں والا جانور اسے اپنے سموں سے روندے گا اور سینگوں والا اسے اپنے سینگوں سے مارے گا، ان میں سے اس دن نہ کوئی (گائے یا بکری) بغیر سینگ کے ہوگی اور نہ ہی کوئی ٹوٹے ہوئے سینگوں والی ہوگی۔"ہم نے پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ان کا حق کیا ہے؟آپ نے فرمایا: "ان میں سے نر کو جفتی کے لئے دینا، ان کا ڈول ادھار دینا، ان کو دودھ پینے کے لئے دینا، ان کو پانی کے گھاٹ پر دوہنا (اور لوگوں کو پلانا) اور اللہ کی راہ میں سواری کے لئے د ینا۔اور جو بھی صاحب مال اسکی زکاۃ ادا نہیں کرتا۔تو قیامت کے دن وہ مال گنجے سانپ کی شکل اختیار کرلے گا، اس کا مالک جہاں جائے گا وہ اس کے پیچھے لگا رہے گا اور وہ اس سے بھاگے گا، اسے کہا جائےگا: یہ تیرا وہی مال ہے جس میں تو بخل کیا کرتاتھا۔جب وہ د یکھے گا کہ اس سے بچنے کی کوئی صورت نہیں ہے تو وہ اپنا ہاتھ اسکے منہ میں داخل کرے گا، وہ اسے اس طرح چبائے گا جس طرح اونٹ (چارے کو) چباتا ہے۔"

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.