عمر بن حفص بن غیاث نے اپنے والد سے، انھوں نے اعمش سے باقی ماندہ سابقہ سند کے ساتھ روایت کی۔ (اعمش نے) کہا: میں نے (یہ حدیث) ابراہیم نخعی سے بیان کی تو انھوں نے مجھے ابو عبیدہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے عمرو بن حارث سے اور انھوں نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا سے روایت کی، بالکل اسی (مذکوہ بالا روایت) کے مانند، اور کہا: انھوں (زینب رضی اللہ عنہا) نےکہا: میں مسجد میں تھی (اس دروازے پر جو مسجد میں تھا) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (بلال رضی اللہ عنہ کے بتانے پر) مجھے دیکھا تو فرمایا: "صدقہ کرو، چاہے اپنے زیورات ہی سے کیوں نہ ہو۔"اعمش نے باقی حدیث ابواحوص کی (مذکورہ بالا) روایت کے ہم معنی بیان کی ہے۔
حضرت عبد اللہ کی بیوی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مذکورہ بالا روایت ہی مروی ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ میں مسجد میں تھی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ لیا اور فرمایا: ”(صدقہ) کرو اگرچہ اپنے زیورات ہی سے سہی۔“ آگے ابو احوص کی مذکورہ بالا روایت ہے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2319
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت زینب کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ نے انہیں نفلی صدقہ کرنے کا حکم دیا اور اس کے خاوند کو دینے کی بھی اجازت دی حالانکہ بیوی کے نان و نفقہ کا ذمہ دار خاوند ہے اس لیے اس کو ملنے والا صدقہ بیوی پر بھی خرچ ہو گا اس کے باوجود آپﷺ نے اسے دوہرے اجر کا باعث قرار دیا ہے اسی پر فرضی صدقات کو قیاس کیا جاتا ہے کہ وہ بھی ان رشتہ داروں کو دیے جا سکتے ہیں جن کے نان و نفقہ کا انسان پابند یا ذمہ دار نہیں ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ صاحبین (امام ابو یوسف، امام محمد) اہل ظاہر اور ایک قول کی رو سے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بیوی خاوند کو زکاۃ دے سکتی ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے ایک قول کی رو سے نفلی صدقہ دے سکتی ہے فرضی صدقہ دینا جائز نہیں ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صدقہ کے عموم سے استدلال کیا ہے کہ اس میں نفلی و فرضی کی تخصیص نہیں ہے اس لیے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔