كِتَاب الزَّكَاةِ زکاۃ کے احکام و مسائل The Book of Zakat 45. باب إِعْطَاءِ مَنْ يُخَافُ عَلَى إِيمَانِهِ: باب: ضعیف الایمان لوگوں کو دینے کا بیان۔ Chapter: Giving to one whose faith one fears حدثنا الحسن بن علي الحلواني ، وعبد بن حميد ، قالا: حدثنا يعقوب وهو ابن إبراهيم بن سعد ، حدثنا ابي ، عن صالح ، عن ابن شهاب ، اخبرني عامر بن سعد ، عن ابيه سعد ، انه اعطى رسول الله صلى الله عليه وسلم رهطا وانا جالس فيهم، قال: فترك رسول الله صلى الله عليه وسلم منهم رجلا لم يعطه وهو اعجبهم إلي، فقمت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فساررته فقلت: يا رسول الله ما لك عن فلان والله إني لاراه مؤمنا؟، قال: " او مسلما " فسكت قليلا، ثم غلبني ما اعلم منه، فقلت: يا رسول الله ما لك عن فلان فوالله إني لاراه مؤمنا؟، قال: " او مسلما " فسكت قليلا، ثم غلبني ما اعلم منه، فقلت: يا رسول الله ما لك عن فلان فوالله إني لاراه مؤمنا؟، قال: " او مسلما "، قال: " إني لاعطي الرجل، وغيره احب إلي منه، خشية ان يكب في النار على وجهه "، وفي حديث الحلواني تكرير القول مرتين،حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ سَعْدٍ ، أَنَّهُ أَعْطَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَهْطًا وَأَنَا جَالِسٌ فِيهِمْ، قَالَ: فَتَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ رَجُلًا لَمْ يُعْطِهِ وَهُوَ أَعْجَبُهُمْ إِلَيَّ، فَقُمْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَارَرْتُهُ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَكَ عَنْ فُلَانٍ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا؟، قَالَ: " أَوْ مُسْلِمًا " فَسَكَتُّ قَلِيلًا، ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَعْلَمُ مِنْهُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَكَ عَنْ فُلَانٍ فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا؟، قَالَ: " أَوْ مُسْلِمًا " فَسَكَتُّ قَلِيلًا، ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَعْلَمُ مِنْهُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَكَ عَنْ فُلَانٍ فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا؟، قَالَ: " أَوْ مُسْلِمًا "، قَالَ: " إِنِّي لَأُعْطِي الرَّجُلَ، وَغَيْرُهُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْهُ، خَشْيَةَ أَنْ يُكَبَّ فِي النَّارِ عَلَى وَجْهِهِ "، وَفِي حَدِيثِ الْحُلْوَانِيِّ تَكْرِيرُ الْقَوْلِ مَرَّتَيْنِ، حسن بن علی حلوانی اور عبدبن حمید نے کہا: ہمیں یعقوب بن ابرا ہیم بن سعد نے حدیث سنا ئی کہا میرے والد نے ہمیں صالح سے حدیث بیان کی انھوں نے ابن شہاب سے روایت کی انھوں نے کہا: مجھے عامر بن سعد نے اپنے والد حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے خبردی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو مال دیا جبکہ میں بھی ان میں بٹھا ہوا تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک آدمی کو چھوڑ دیا اس کو نہ دیا۔ وہ میرے لیے ان سب کی نسبت زیادہ پسندیدہ تھا میں اٹھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور ازداری کے ساتھ آپ سے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیا وجہ ہے آپ فلا ں سے اعراض فر ما رہے ہیں؟ اللہ کی قسم! میں تو اسے مو من سمجھتا ہوں آپ نے فرمایا: " یا مسلمان۔میں کچھ دیر کے لیے چپ رہا پھر جو میں اس کے بارے میں جانتا تھا وہ بات مجھ پر گالب آگئی اور میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیا وجہ ہے کہ فلا ں کو نہیں دے رہے؟اللہ کی قسم! میں اسے مومن سمجھتا ہوں آپ نے فرمایا مسلمان۔"اس کے بعد میں تھوڑی دیر چپ رہا پھر جو میں اسکے بارے میں جا نتا تھا وہ بات مجھ پر غالب آگئی میں نے پھر عرض کی: فلاں سے آپ کے اعراض کا سبب کیا ہے اللہ کی قسم! میں تو اسے مو من سمجھتا ہوں آپ نے فرمایا: "مسلما۔" (پھر) آپ نے فرمایا: "میں ایک آدمی کو دیتا ہوں جبکہ دوسرا مجھے اس سے زیادہ محبوبہو تا ہے اس ڈر سے (دیتا ہوں) کہ وہ اوندھے منہ آگ میں نہ ڈال دیا جا ئے اور حلوانی کی حدیث میں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فر ما ن "یا مسلمان کا) تکرا ر دوبارہے (تین بار نہیں۔) عامر بن سعد اپنے باپ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو کچھ مال دیا اور میں بھی ان میں بیٹھا ہوا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک آدمی کو نظر انداز کر دیا۔ اس کو نہ دیا حالانکہ میرے نزدیک ان سب سے پسندیدہ تھا۔ میں اٹھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور آپ کو راز دارانہ انداز میں کہا، اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا معاملہ ہے آپ فلاں سے اعراض فرما رہے ہیں؟ اللہ کی قسم! میں تو اسے مومن سمجھتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اطاعت گزار) تو میں کچھ دیر خاموش رہا پھر مجھ پر اس کے بارے میں میری معلومات غالب آ گئیں تو میں نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا بات ہے آپ فلاں کو نہیں دے رہے؟ اللہ کی قسم! میں تو اسے صحیح مومن پاتا ہوں آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا فرمانبردار“ میں کچھ دیر چپ رہا۔ پھر میں اس کے بارے میں جو کچھ جانتا تھا وہ مجھ پر غالب آ گیا اور میں نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا وجہ ہے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم فلاں کو نہیں دے رہے؟ اللہ کی قسم! میں تو اسے مومن سمجھتا ہوں۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا اطاعت کیش۔“ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں ایک ایسے آدمی کو دیتا ہوں جس کے مقابلہ میں مجھے دوسرا اس سے محبوب ہوتا ہے۔ اس ڈر سے کہ وہ اوندھے منہ آگ میں ڈال دیا جائے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
سفیان ثوری ابن شہاب (زہری) کے بھتیجے (محمد بن عبد اللہ بن شہاب) اور معمر سب نے (زہری) سے اسی سند کے ساتھ اسی (سابقہ حدیث) کے ہم معنی حدیث روایت کی۔ امام صاحب نے اپنے کئی دوسرے اساتذہ سے یہی روایت زہری ہی کی سند سے نقل کی ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
محمد بن سعد یہ حدیث بیان کرتے ہیں یعنی زہری مذکورہ با لا حدیث انھوں نے اپنی حدیث میں کہا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری گردن اور کندھے کے در میان اپنا ہا تھ مارا اور فرمایا: " جنگ کر رہے ہو؟ اے سعد!میں ایک شخص کو دیتا ہوں۔۔۔ (آگے اسی طرح ہے جس طرح پہلی روایت میں ہے) امام صاحب اپنے ایک اور استاد سے محمد بن سعد کی یہ روایت بیان کرتے ہیں اس میں ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میری گردن اور کندھے کے درمیان مارا پھر فرمایا: (اے سعد! کیا لڑائی چاہتے ہو؟ میں ایک ایسے آدمی کو دیتا ہوں۔)
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|