كِتَاب الزَّكَاةِ زکاۃ کے احکام و مسائل The Book of Zakat 20. باب الْحَثِّ عَلَى الصَّدَقَةِ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ أَوْ كَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ وَأَنَّهَا حِجَابٌ مِنَ النَّارِ: باب: ایک کھجور یا ایک کام کی بات بھی صدقہ ہے اور دوزخ سے آڑ کرنے والا ہے۔ Chapter: Encouragement to give charity even if it is with half a date or a kind word. And charity is a shield against the fire. عبد اللہ بن معقل نے حضرت عدیبن حاتم رضی اللہ عنہ سے روا یت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہو ئے سنا: " تم میں سے جو شخص آگ سے محفوظ رہنے کی استطا عت رکھے چا ہے کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعے سے کیوں نہ ہو وہ ضرور (ایسا) کرے۔ حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جو شخص آگ سے بچ سکتا ہے۔ اگرچہ کھجور کے ٹکڑا کے سبب ہی سہی تو وہ ایسا کرے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
علی بن حجر سعدی اسحاق بن ابرا ہیم اور علی بن خشرم میں سے علی بن حجر نے کہا: ہمیں عیسیٰ بن یو نس نے حدیث بیا ن کی اور باقی دو نوں نے کہا: ہمیں خبر دی انھوں نے کہا: ہمیں اعمش نے خثیمہ کے واسطے سے حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی نہیں مگر عنقریب اللہ اس طرح اس سے بات کرے گا کہ اس کے اور اللہ تعا لیٰ کے درمیان کوئی تر جمان نہیں ہو گا۔اور اپنی دا ئیں جا نب دیکھے گا تو اسے وہی کچھ نظر آئے گا جو اس نے آگے بھیجا اور اپنی بائیں جا نب دیکھے گا تو وہی کچھ دکھا ئی دے گا جو اس نے آگے بھیجا اور اپنے آگے دیکھے گا تو اسے اپنے منہ کے سامنے آگ دکھا ئی دے گی اس لیے آگ سے بچو اگر چہ آدھی کھجور کے ذریعے ہی سے کیوں نہ ہو۔" (علی) بن حجر نے اضافہ کیا: اعمش نے کہا: مجھے عمرو بن مرہ نے خیثمہ سے اسی جیسی حدیث بیان کی اور اس میں اضافہ کیا: چا ہے پا کیزہ بو ل کے ساتھ (بچو۔) اسحاق نے کہا: اعمش نے کہا: عمرو بن مرہ سے روایت ہے (کہا) خیثمہ سے روا یت ہے۔ حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے ہر شخص سے اللہ تعالیٰ یقیناً اس طرح گفتگو فرمائے گا کہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہو گا وہ اپنے دائیں دیکھے گا۔ تو اسے اپنے آگے بھیجے ہوئے اعمال ہی نظر آئیں گے اور اپنے بائیں دیکھے گا۔ تب بھی آگے بھیجے ہوئے اعمال ہی دکھائی دیں گے۔ اور اپنے آگے دیکھے گا تو اسے اپنے سامنے آگ ہی دکھائی دے گی۔ اس لیے آگ سے بچو۔ اگرچہ آدھی کھجور ہی کے ذریعہ“ ابن حجر کی روایت میں یہ اضافہ ہے (اگرپاکیزہ بول یا اچھی بات سے ہی سہی) اسحاق کی روایت میں اعمش اور خثیمہ کے درمیان عمروبن مزہ کا اضافہ ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وابو كريب ، قالا: حدثنا ابو معاوية ، عن الاعمش ، عن عمرو بن مرة ، عن خيثمة ، عن عدي بن حاتم ، قال: ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم النار فاعرض واشاح، ثم قال: " اتقوا النار "، ثم اعرض واشاح حتى ظننا انه كانما ينظر إليها، ثم قال: " اتقوا النار ولو بشق تمرة، فمن لم يجد فبكلمة طيبة " ولم يذكر ابو كريب كانما، وقال: حدثنا ابو معاوية حدثنا الاعمش.حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ خَيْثَمَةَ ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ ، قَالَ: ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّارَ فَأَعْرَضَ وَأَشَاحَ، ثُمَّ قَالَ: " اتَّقُوا النَّارَ "، ثُمَّ أَعْرَضَ وَأَشَاحَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ كَأَنَّمَا يَنْظُرُ إِلَيْهَا، ثُمَّ قَالَ: " اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ، فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَبِكَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ " وَلَمْ يَذْكُرْ أَبُو كُرَيْبٍ كَأَنَّمَا، وَقَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ. ابو بکر بن ابی شیبہ اور ابو کریب دو نوں نے کہا: ہمیں ابو معاویہ نے اعمش سے حدیث بیان کی انھوں نے عمرو بن مرہ سے انھوں نے خیثمہ سے انھوں نے حضرت عدی بن حا تم رضی اللہ عنہ سے روا یت کی انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گ کا تذکرہ فرمایا تو چہرہ مبا رک ایک طرف موڑ ا اور اس میں مبا لغہ کیا پھر فرمایا: "آگ سے بچو۔پھر رخ مبا رک پھیرا اور دور ہو نے کا اشارہ کیا حتیٰ کہ ہمیں غمان ہوا جیسے آپ اس (آگ) کی طرف دیکھ رہے ہیں پھر فرمایا: "آگ سے بچو چا ہے آدھی کھجور کے ساتھ جسے (یہ بھی) نہ ملے تو اچھی بات کے ساتھ۔ ابو کریب نےکانما (جیسے) کا (لفظ) ذکر نہیں کیا اور کہا: ہمیں ابو معاویہ نے حدیث بیان کی انھوں نے کہا: ہمیں اعمش نے حدیث بیان کی۔ حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگ کا تذکرہ کیا اور منہ پھیر لیا۔ اور ڈرایا یا چوکنا کیا۔ پھر فرمایا: ”آگ سے بچو۔“ پھر اعراض کیا اور رخ پھیر لیا حتی کہ ہم نے گمان کیا۔ گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے دیکھ رہے ہیں۔ پھر فرمایا: ”آگ سے بچو! اگرچہ کھجور کے ٹکڑے کے سبب، جس کے پاس اتنی بھی سکت نہ ہو تو اچھے بول کے باعث“ ابوکریب کی روایت میں کَانَّمَا کا لفظ نہیں ہے اور عن اعمش کی جگہ حدثنا اعمش ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
شعبہ نے عمرو بن مرہ سے با قی ماندہ سابقہ سند کے ساتھ روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگ کا ذکر کیا تو اس سے پناہ مانگی اور تین بار اپنے چہرہ مبا رک کے ساتھ دور ہو نے کا اشارہ کیا، پھر فرمایا: " آگ سے بچو چا ہے کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعے سے (بچو) اگر تم (یہ بھی) نہ پاؤ تو اچھی بات کے ساتھ۔ حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگ کا تذکرہ فرمایا اس سے پناہ طلب کی اور رخ بدل لیا اس طرح تین دفعہ کیا۔ پھر فرمایا: ”آگ سے بچو خواہ کھجور کے ٹکڑے کے سبب اگر یہ بھی نہ مل سکے تو اچھے اور پاکیزہ بول کے سبب۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثني محمد بن المثنى العنزي ، اخبرنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عون بن ابي جحيفة ، عن المنذر بن جرير ، عن ابيه ، قال: كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم في صدر النهار، قال: فجاءه قوم حفاة عراة مجتابي النمار او العباء، متقلدي السيوف عامتهم من مضر بل كلهم من مضر، فتمعر وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم لما راى بهم من الفاقة، فدخل ثم خرج، فامر بلالا فاذن واقام فصلى، ثم خطب فقال:" يايها الناس اتقوا ربكم الذي خلقكم من نفس واحدة سورة النساء آية 1 إلى آخر الآية إن الله كان عليكم رقيبا سورة النساء آية 1 والآية التي في الحشر اتقوا الله ولتنظر نفس ما قدمت لغد واتقوا الله سورة الحشر آية 18 تصدق رجل من ديناره من درهمه من ثوبه من صاع بره من صاع تمره، حتى قال: ولو بشق تمرة"، قال: فجاء رجل من الانصار بصرة كادت كفه تعجز عنها بل قد عجزت، قال: ثم تتابع الناس حتى رايت كومين من طعام وثياب، حتى رايت وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم يتهلل كانه مذهبة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من سن في الإسلام سنة حسنة فله اجرها واجر من عمل بها بعده من غير ان ينقص من اجورهم شيء، ومن سن في الإسلام سنة سيئة كان عليه وزرها ووزر من عمل بها من بعده من غير ان ينقص من اوزارهم شيء"،حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْعَنَزِيُّ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ ، عَنْ الْمُنْذِرِ بْنِ جَرِيرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَدْرِ النَّهَارِ، قَالَ: فَجَاءَهُ قَوْمٌ حُفَاةٌ عُرَاةٌ مُجْتَابِي النِّمَارِ أَوِ الْعَبَاءِ، مُتَقَلِّدِي السُّيُوفِ عَامَّتُهُمْ مِنْ مُضَرَ بَلْ كُلُّهُمْ مِنْ مُضَرَ، فَتَمَعَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَا رَأَى بِهِمْ مِنَ الْفَاقَةِ، فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ، فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ وَأَقَامَ فَصَلَّى، ثُمَّ خَطَبَ فَقَالَ:" يَأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ سورة النساء آية 1 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا سورة النساء آية 1 وَالْآيَةَ الَّتِي فِي الْحَشْرِ اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ سورة الحشر آية 18 تَصَدَّقَ رَجُلٌ مِنْ دِينَارِهِ مِنْ دِرْهَمِهِ مِنْ ثَوْبِهِ مِنْ صَاعِ بُرِّهِ مِنْ صَاعِ تَمْرِهِ، حَتَّى قَالَ: وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ"، قَالَ: فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ بِصُرَّةٍ كَادَتْ كَفُّهُ تَعْجِزُ عَنْهَا بَلْ قَدْ عَجَزَتْ، قَالَ: ثُمَّ تَتَابَعَ النَّاسُ حَتَّى رَأَيْتُ كَوْمَيْنِ مِنْ طَعَامٍ وَثِيَابٍ، حَتَّى رَأَيْتُ وَجْهَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَهَلَّلُ كَأَنَّهُ مُذْهَبَةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ أَجْرُهَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ، وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْءٌ"، محمد بن جعفر نے کہا: ہمیں شعبہ نے عون بن ابی جحیفہ سے حدیث بیان کی، ا نھوں نے منذر بن جریر سے اور انھوں نے اپنے والد سے روایت کی، انھوں نے کہا ؛ ہم دن کے ابتدا ئی حصے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حا جر تھے کہ آپ کے پا س کچھ لو گ ننگے پاؤں ننگے بدن سوراخ کر کے دن کی دھا ری دار چادریں یا غبائیں گلے میں ڈا لے اور تلواریں لٹکا ئے ہو ئے آئے ان میں سے اکثر بلکہ سب کے سب مضر قبیلے سے تھے ان کی فاقہ زدگی کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ نور غمزدہ ہو گیا آپ اندر تشریف لے گئے پھر با ہر نکلے تو بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا انھوں نے اذان دی اور اقامت کہی آپ نے نماز ادا کی، پھر خطبہ دیا اور فرما یا: "اے لو گو!اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جا ن سے پیدا کیا۔۔۔آیت کے آخر تک "بے شک اللہ تم پر نگرا ن ہے اور وہ آیت جو سورہ حشر میں ہے اللہ سے ڈرو اور ہر جا ن دیکھے کہ اس نے کل کے لیے آگے کیا بھیجا ہے (پھر فرمایا) آدمی پر لازم ہے کہ وہ اپنے دینا ر سےاپنے درہم سے اپنے کپڑے سے اپنی گندم کے ایک صاع سے اپنی کھجور کے ایک صاع سے۔ حتیٰ کہ آپ نے فرمایا:۔۔۔چا ہے کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعے سے صدقہ کرے (جریرنے) کہا: تو انصار میں سے ایک آدمی ایک تھیلی لا یا اس کی ہتھیلی اس (کو اٹھا نے) سے عاجز آنے لگی تھی بلکہ عا جز آگئی تھی کہا: پھر لو گ ایک دوسرے کے پیچھے آنے لگے یہاں تک کہ میں نے کھا نے اور کپڑوں کے دو ڈھیر دیکھے حتیٰ کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک دیکھا وہ اس طرح دمک رہا تھا جیسے اس پر سونا چڑاھا ہوا ہو۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جس نے اسلا م میں کوئی اچھا طریقہ رائج کیا تو اس کے لیے اس کا (اپنا بھی) اجر ہےے اور ان کے جیسا اجر بھی جنھوں نے اس کے بعد اس (طریقے) پر عمل کیا اس کے بغیر کہ ان کے اجر میں کوئی کمی ہو اور جس نے اسلا م میں کسی برے طریقے کی ابتدا کی اس کا بو جھ اسی پر ہے اور ان کا بو جھ بھی جنھوں نے اس کے بعد اس پر عمل کیا اس کے بغیر کہ ان کے بو جھ میں کوئی کمی ہو۔ حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم دن کے آغاز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ لوگ ننگے پاؤں ننگے بدن گلے میں دھاری داراونی چادریں یا عبائیں پہنے ہوئے اور تلواریں لٹکائے ہوئے آئے ان میں سے اکثر بلکہ سب کے سب مضر قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے ان کے فقرو فاقہ کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ انور متغیر ہو گیا آپصلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لے گئے پھر باہر نکلے اور بلال کو حکم دیا انھوں نے اذان اور اقامت کہی آپصلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھ کر خطبہ دیا اور فرمایا: ”اے لوگو! اپنے اس رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا پوری آیت پڑھی نساء آیت 1۔ بے شک اللہ تم پر نگہبان اور محافظ ہے۔ اور سورۃ حشر کی آیت کو اللہ سے ڈرو اور ہر نفس غور و فکر کرے اس نے آنے والے کل کے لیے آگے بھیجا ہے اور اللہ کے (غضب اور نافرمانی سے) بچو آیت18 ہر آدمی اپنا (دینار درہم اپنا کپڑا اپنا گندم کا صاع، کھجور کا صاع صدقہ کرے“ حتیٰ کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خواہ کھجور کا ٹکڑا ہی صدقہ کرے)“ تو ایک انصاری ایک تھیلی لایا اس کا ہاتھ اس کو اٹھانے سے بےبس اور عاجز ہو رہا تھا بلکہ عاجز ہو ہی گیا تھا پھر لوگ لگاتار لا رہے تھے حتیٰ کہ میں نے غلہ اور کپڑوں کے دو ڈھیر دیکھے یہاں تک کہ میں نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارکہ (خوشی و مسرت) سے جگ مگ کر رہا تھا گویا کہ اس پر سونے کا جھول پھیرا گیا ہے۔ اس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اسلام میں اچھا طریقہ اپنایا تو اسے اس کا اجر ملے گا اور ان لوگوں کا اجر بھی جنہوں نے(اسے دیکھ کر)اس کے بعد اس پر عمل کیا۔ بغیر اس کے کہ اجرو ثواب میں کسی قسم کی کمی ہو اور جس نے اسلام میں غلط راہ عمل اختیار کی (بری چال اپنائی) اس پر اس کا گناہ اور بوجھ ہوگا اور اس کے بعد (اس کے دیکھا دیکھی) جو اس پر عمل کریں گے ان کا گناہ بھی بغیر اس کے کہ ان کے گناہ میں کسی قسم کی کمی واقع ہو۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابو اسامہ اور معاذ عنبری دو نوں نے کہا: ہمیں شعبہ نے حدیث بیا ن کی، ا نھوں نے کہا مجھے عون بن ابی جحیفہ نے حدیث بیا ن کی انھوں نے کہا: میں منذر بن جریر سے سنا انھوں نے اپنے والد سے روایت کی انھوں نے کہا: ہم دن کے ابتدا ئی حصے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (حا ضر) تھے۔۔۔ (آگے ابن جعفر کی حدیث کی طرح ہے۔اور ابن معاذ کی حدیث میں اضافہ ہے، کہا: پھر آپ نے ظہر کی نماز ادا فرمائی، پھر خطبہ دیا۔ امام صاحب دو اور ساتذہ سے یہی حدیث بیان کرتے ہیں کہ حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم دن کے آغازمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے جیسا کہ ابن جعفر کی روایت گزر چکی ہے۔ امام صاحب کے استاد ابن معاذ کی حدیث میں اتنا اضافہ ہے کہ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھی پھر خطاب فرمایا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عبدالملک بن عمیر نے منذر بن جریر سے اور انھوں نےاپنے والد سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہواتھا کہ آپ کی خدمت میں ایک قوم درمیا ن میں سوراخ کرکے اون کی دھاری دار چیتھڑے گلے میں ڈالے آئی۔۔۔اور پورا واقعہ بیان کیا اور اس میں ہے: آپ نے ظہر کی نماز پڑھائی، پھر ایک چھوٹے سے منبر پر تشریف لےگئے، اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی، پھر فرمایا: "بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نازل فرمایا ہے: "اےلوگو!اپنے رب سے ڈرو۔"آیت کے آخر تک۔ حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک قوم اون کی دھاری دار تہبند باندھے آئی۔ اور پورا واقعہ بیان کیا اور اس میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھائی پھر چھوٹے منبر پر چڑھ گئے اور اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا بیان فرمائی پھر فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نازل فرمایا ہے: اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو،“ الایۃ۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عبدالرحمان بن ہلال عبسی نے حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: بدوؤں میں سے کچھ لوگو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان کے جسم پراونی کپڑے تھے، آپ نے ان کی بدحالی دیکھی، وہ فاقہ زدہ تھے۔۔۔پھر ان (سابقہ راویان حدیث) کی حدیث کے ہم معنی روایت بیان کی۔ حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ بدوی لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اون پہنے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بدحالی دیکھی کہ وہ حاجت مند ہیں پھر مذکورہ بالا حدیث بیان کی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|