حدثنا محمد بن رمح بن المهاجر ، اخبرنا الليث ، عن يحيى بن سعيد ، عن ابي الزبير ، عن جابر بن عبد الله ، قال: اتى رجل رسول الله صلى الله عليه وسلم بالجعرانة منصرفه من حنين، وفي ثوب بلال فضة، ورسول الله صلى الله عليه وسلم يقبض منها يعطي الناس، فقال: يا محمد اعدل، قال: " ويلك ومن يعدل إذا لم اكن اعدل لقد خبت وخسرت إن لم اكن اعدل، فقال عمر بن الخطاب رضي الله عنه: دعني يا رسول الله فاقتل هذا المنافق، فقال: معاذ الله ان يتحدث الناس اني اقتل اصحابي، إن هذا واصحابه يقرءون القرآن، لا يجاوز حناجرهم، يمرقون منه كما يمرق السهم من الرمية "،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحِ بْنِ الْمُهَاجِرِ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: أَتَى رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْجِعْرَانَةِ مُنْصَرَفَهُ مِنْ حُنَيْنٍ، وَفِي ثَوْبِ بِلَالٍ فِضَّةٌ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْبِضُ مِنْهَا يُعْطِي النَّاسَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ اعْدِلْ، قَالَ: " وَيْلَكَ وَمَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَكُنْ أَعْدِلُ لَقَدْ خِبْتَ وَخَسِرْتَ إِنْ لَمْ أَكُنْ أَعْدِلُ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: دَعْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ فَأَقْتُلَ هَذَا الْمُنَافِقَ، فَقَالَ: مَعَاذَ اللَّهِ أَنْ يَتَحَدَّثَ النَّاسُ أَنِّي أَقْتُلُ أَصْحَابِي، إِنَّ هَذَا وَأَصْحَابَهُ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ، لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنْهُ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ "،
لیث نے یحییٰ بن سعید سے حدیث بیا ن کی، انھوں نے ابو زبیر سے اور انھوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: حنین سے واپسی کے وقت جعرانہ میں ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا جبکہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں چاندی تھی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے مٹھی بھر بھر کے لوگوں کو دے رہے تھے۔تو اس نے کہا: اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) عدل کیجئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تیرے لئے ویل (ہلاکت یاجہنم) ہو!اگر میں عدل نہیں کررہا تو کون عدل کرے گا؟ اگر میں عدل نہیں کررہا تو میں ناکام ہوگیا اور خسارے میں پڑ گیا۔"اس پر حضر ت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے اجازت دیجئے میں اس منافق کو قتل کردوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " (میں اس بات سے) اللہ کی پناہ (مانگتا ہوں)!کہ لوگ ایسی باتیں کریں کہ میں اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہوں۔یہ شک یہ اور اس کے ساتھی قرآن پڑھیں گے، وہ ان کے حلق سے آگے نہیں بڑھے گا، (یہ لوگ) اس طرح اس (دین اسلام) سے نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے (آگے) نکل جاتا ہے۔"
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حنین سے واپسی کے وقت جعرانہ میں ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ جبکہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کپڑے میں کچھ چاندی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے مٹھی بھر بھر کر لوگوں کو دے رہے تھے تو اس نے کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! انصاف کیجیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو تباہ ہو، اگر میں عدل نہیں کر رہا تو عدل کون کرے گا؟ تو ناکام ہوا اور خسارے میں پڑا۔ اگر میں عدل نہیں کر رہا ہوں“(جس کا متبوع و مقتدی ہی نعوذ باللہ) غیر منصف ہے تو پھر تابع اور مقتدی کی حالت کیا ہوگی تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے اجازت دیجیے میں اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس بات سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں کہ لوگ باتیں کریں کہ میں اپنے ہی ساتھیوں کو مروا دیتا ہوں یہ اور اس کے ساتھی قرآن پڑھیں گے اور وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ اس سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر کمان سے نکل جاتا ہے“
حدثنا هناد بن السري ، حدثنا ابو الاحوص ، عن سعيد بن مسروق ، عن عبد الرحمن بن ابي نعم ، عن ابي سعيد الخدري ، قال: بعث علي رضي الله عنه وهو باليمن، بذهبة في تربتها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقسمها رسول الله صلى الله عليه وسلم بين اربعة نفر: الاقرع بن حابس الحنظلي، وعيينة بن بدر الفزاري، وعلقمة بن علاثة العامري، ثم احد بني كلاب، وزيد الخير الطائي، ثم احد بني نبهان، قال: فغضبت قريش، فقالوا: اتعطي صناديد نجد وتدعنا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إني إنما فعلت ذلك لاتالفهم "، فجاء رجل كث اللحية مشرف الوجنتين غائر العينين ناتئ الجبين محلوق الراس، فقال: اتق الله يا محمد، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " فمن يطع الله إن عصيته ايامنني على اهل الارض ولا تامنوني "، قال: ثم ادبر الرجل فاستاذن رجل من القوم في قتله، يرون انه خالد بن الوليد، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن من ضئضئ هذا، قوما يقرءون القرآن لا يجاوز حناجرهم، يقتلون اهل الإسلام ويدعون اهل الاوثان، يمرقون من الإسلام كما يمرق السهم من الرمية، لئن ادركتهم لاقتلنهم قتل عاد ".حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي نُعْمٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: بَعَثَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ بِالْيَمَنِ، بِذَهَبَةٍ فِي تُرْبَتِهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَسَمَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَرْبَعَةِ نَفَرٍ: الْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ الْحَنْظَلِيُّ، وَعُيَيْنَةُ بْنُ بَدْرٍ الْفَزَارِيُّ، وَعَلْقَمَةُ بْنُ عُلَاثَةَ الْعَامِرِيُّ، ثُمَّ أَحَدُ بَنِي كِلَابٍ، وَزَيْدُ الْخَيْرِ الطَّائِيُّ، ثُمَّ أَحَدُ بَنِي نَبْهَانَ، قَالَ: فَغَضِبَتْ قُرَيْشٌ، فَقَالُوا: أَتُعْطِي صَنَادِيدَ نَجْدٍ وَتَدَعُنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي إِنَّمَا فَعَلْتُ ذَلِكَ لِأَتَأَلَّفَهُمْ "، فَجَاءَ رَجُلٌ كَثُّ اللِّحْيَةِ مُشْرِفُ الْوَجْنَتَيْنِ غَائِرُ الْعَيْنَيْنِ نَاتِئُ الْجَبِينِ مَحْلُوقُ الرَّأْسِ، فَقَالَ: اتَّقِ اللَّهَ يَا مُحَمَّدُ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ إِنْ عَصَيْتُهُ أَيَأْمَنُنِي عَلَى أَهْلِ الْأَرْضِ وَلَا تَأْمَنُونِي "، قَالَ: ثُمَّ أَدْبَرَ الرَّجُلُ فَاسْتَأْذَنَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ فِي قَتْلِهِ، يُرَوْنَ أَنَّهُ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا، قَوْمًا يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ، يَقْتُلُونَ أَهْلَ الْإِسْلَامِ وَيَدَعُونَ أَهْلَ الْأَوْثَانِ، يَمْرُقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، لَئِنْ أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ عَادٍ ".
سعید بن مسروق نے عبدالرحمان بن ابی نعم سے اور انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: حضرت علی رضی اللہ عنہ جب یمن میں تھے تو انھوں نےکچھ سونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا جو اپنی مٹی کے اندر ہی تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چار افراد: اقرع بن حابس حنظلی، عینیہ (بن حصین بن حذیفہ) بن بدر فزاری، علقمہ بن علاثہ عامری رضی اللہ عنہ جو اس کے بعد (آگے بڑے قبیلے) بنو کلاب (بن ربیعہ بن عامر) کا ایک فرد تھا اور زید الخیر طائی جو اس کے بعد (آگے بنوطے کی ذیلی شاخ) بن نہہمان کا ایک فرد تھا، میں تقسیم فرمادیا، کہا: اس پر قریش ناراض ہوگئے اور کہنےلگے: کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نجدی سرداروں کو عطا کریں گے اور ہمیں چھوڑدیں گے؟تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ کام میں نے ان کی تالیف قلب کی خاطر کیا ہے۔"اتنے میں گھنی داڑھی، ابھرے ہوئے رخساروں، دھنسی ہوئی آنکھوں، نکلی ہوئی پیشانی، منڈھے ہوئے سر والا ایک شخص آیا اور کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ سے ڈریں!تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر میں اس کی نافرمانی کروں گاتو اس کی فرمانبرداری کون کرے گا!وہ تو مجھے تمام روئے زمین کے لوگوں پر امین سمجھتا ہے اور تم مجھے امین نہیں سمجھتے؟"پھر وہ آدمی پیٹھ پھیر کر چل دیا، لوگوں میں سے ایک شخص نے اس کو قتل کرنے کی اجازت طلب کی۔۔۔بیان کرنے والے سمجھتے ہیں کہ وہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس کی اصل (جس قبیلے سے اس کا اپنا تعلق ہے) سے ایسی قوم ہوگی جو قرآن پڑھے گی لیکن وہ ان کے گلے سے نیچے نہیں اتر ےگا۔وہ اہل اسلام کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑدیں گے۔وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر نشانہ بنائے جانے والے شکار سے نکل جاتا ہے، اگر میں نے ان کو پالیاتو میں ہر صورت انھیں اس طرح قتل کروں گا جس طرح (عذاب بھیج کر) قوم عاد کو قتل کیا گیا۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے: کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ یمن سے مٹی میں ملا ہوا کچھ سونا بھیجا یعنی غیر صاف شدہ سونا، رول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چار اشخاص میں تقسیم فرما دیا: یعنی اقرع بن حابس حنظلی،عینیہ بن بدر فزاری،علقمہ بن علاثہ عامری رضی اللہ تعالیٰ عنہم (جو بنو کلاب کا ایک فرد ہے) اور زید الخیر طائی جو بنو نبھان سے ہے، کو دے دیا۔ اس پر قریش ناراض ہو گئے اور کہنےلگے: کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نجدی سرداروں کو دیں گے اور ہمیں محروم چھوڑدیں گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کام میں نے ان کی تالیف (مانوس کرنے) کے لیے کیا“ اتنے میں ایک آدمی آگیا، جس کی داڑھی گھنی تھی، رخسار ابھرے ہوئے تھے، آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں، پیشانی بلند تھی، یا کن پٹی ابھری ہوئی تھی، سر منڈا ہوا تھا، اس نے کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ سے ڈر! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں ہی اللہ کی نافرمانی کروں تو پھر اس کی اطاعت کون کرے گا! کیا وہ اہل زمین کے بارے میں مجھ پر اعتماد فرماتا ہے او تم مجھ پر بےاعتمادی کرتے ہو؟“ حضرت انس رضی اللہ تعالی کہتے ہیں پھر وہ آدمی پیٹھ پھیر کر چل دیا، لوگوں میں سے ایک آدمی نے اس کو قتل کرنے کی اجازت چاہی۔ (لوگوں کا خیال ہے وہ خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ تھے) اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی نسل سے ایسے لوگ ہوں گے، جوقرآن بڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اتر ےگا۔ وہ اہل اسلام کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے۔ وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے، اگر میں نے ان کو پا لیا، تو انہیں عادیوں کے طرح ختم کر ڈالوں گا۔
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا عبد الواحد ، عن عمارة بن القعقاع ، حدثنا عبد الرحمن بن ابي نعم ، قال: سمعت ابا سعيد الخدري ، يقول: بعث علي بن ابي طالب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من اليمن بذهبة في اديم مقروظ، لم تحصل من ترابها، قال: فقسمها بين اربعة نفر: بين عيينة بن حصن، والاقرع بن حابس، وزيد الخيل، والرابع إما علقمة بن علاثة وإما عامر بن الطفيل، فقال رجل من اصحابه: كنا نحن احق بهذا من هؤلاء، قال: فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: " الا تامنوني وانا امين من في السماء، ياتيني خبر السماء صباحا ومساء "، قال: فقام رجل غائر العينين مشرف الوجنتين ناشز الجبهة كث اللحية محلوق الراس مشمر الإزار، فقال: يا رسول الله اتق الله، فقال: " ويلك اولست احق اهل الارض ان يتقي الله "، قال: ثم ولى الرجل، فقال خالد بن الوليد: يا رسول الله الا اضرب عنقه؟، فقال: " لا لعله ان يكون يصلي "، قال خالد: وكم من مصل يقول بلسانه ما ليس في قلبه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إني لم اومر ان انقب عن قلوب الناس، ولا اشق بطونهم "، قال: ثم نظر إليه وهو مقف، فقال: " إنه يخرج من ضئضئ هذا، قوم يتلون كتاب الله رطبا، لا يجاوز حناجرهم يمرقون من الدين، كما يمرق السهم من الرمية "، قال: اظنه قال: " لئن ادركتهم لاقتلنهم قتل ثمود "،حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي نُعْمٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ ، يَقُولُ: بَعَثَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْيَمَنِ بِذَهَبَةٍ فِي أَدِيمٍ مَقْرُوظٍ، لَمْ تُحَصَّلْ مِنْ تُرَابِهَا، قَالَ: فَقَسَمَهَا بَيْنَ أَرْبَعَةِ نَفَرٍ: بَيْنَ عُيَيْنَةَ بْنِ حِصْنٍ، وَالْأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ، وَزَيْدِ الْخَيْلِ، وَالرَّابِعُ إِمَّا عَلْقَمَةُ بْنُ عُلَاثَةَ وَإِمَّا عَامِرُ بْنُ الطُّفَيْلِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ: كُنَّا نَحْنُ أَحَقَّ بِهَذَا مِنْ هَؤُلَاءِ، قَالَ: فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " أَلَا تَأْمَنُونِي وَأَنَا أَمِينُ مَنْ فِي السَّمَاءِ، يَأْتِينِي خَبَرُ السَّمَاءِ صَبَاحًا وَمَسَاءً "، قَالَ: فَقَامَ رَجُلٌ غَائِرُ الْعَيْنَيْنِ مُشْرِفُ الْوَجْنَتَيْنِ نَاشِزُ الْجَبْهَةِ كَثُّ اللِّحْيَةِ مَحْلُوقُ الرَّأْسِ مُشَمَّرُ الْإِزَارِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ اتَّقِ اللَّهَ، فَقَالَ: " وَيْلَكَ أَوَلَسْتُ أَحَقَّ أَهْلِ الْأَرْضِ أَنْ يَتَّقِيَ اللَّهَ "، قَالَ: ثُمَّ وَلَّى الرَّجُلُ، فَقَالَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا أَضْرِبُ عُنُقَهُ؟، فَقَالَ: " لَا لَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ يُصَلِّي "، قَالَ خَالِدٌ: وَكَمْ مِنْ مُصَلٍّ يَقُولُ بِلِسَانِهِ مَا لَيْسَ فِي قَلْبِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي لَمْ أُومَرْ أَنْ أَنْقُبَ عَنْ قُلُوبِ النَّاسِ، وَلَا أَشُقَّ بُطُونَهُمْ "، قَالَ: ثُمَّ نَظَرَ إِلَيْهِ وَهُوَ مُقَفٍّ، فَقَالَ: " إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا، قَوْمٌ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ رَطْبًا، لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ، كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ "، قَالَ: أَظُنُّهُ قَالَ: " لَئِنْ أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ ثَمُودَ "،
عبدالواحد نے عمارہ بن قعقاع سے ر وایت کی، انھوں نے کہا: ہمیں عبدالرحمان بن نعیم نے حدیث بیان کی، کہا: میں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ حضرت علی بن ابی طالب نے یمن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رنگے ہوئے (دباغت شدہ) چمڑے میں (خام) سونے کا ایک ٹکڑا بھیجاجسے مٹی سے الگ نہیں کیاگیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چار افراد: عینیہ بن حصن، اقرع بن حابس، زید الخیل اور چوتھے فرد علقمہ بن علاثہ یا عامر بن طفیل کے درمیان تقسیم کردیا۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے ایک آدمی نے کہا: ہم اس (عطیے) کے ان لوگوں کی نسبت زیادہ حق دار تھے۔کہا: یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم مجھے امین نہیں سمجھتے؟حالانکہ میں اس کا امین ہوں جو آسمان میں ہے، میرے پاس صبح وشام آسمان کی خبر آتی ہے۔" (ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے) کہا: گھنی داڑھی، ابھرے ہوئے رخساروں، دھنسی ہوئی آنکھوں، نکلی ہوئی پیشانی، منڈھے ہوئے سر والا اور پنڈلی تک اٹھے تہبند والا ایک شخص کھڑا ہوا، اس نے کہا: اےاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ سے ڈریئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"تجھ پر افسوس، کیا میں تمام اہل زمین سے بڑھ کر اللہ سے ڈرنے کا حقدار نہیں ہوں!"پھر وہ آدمی پیٹھ پھیر کر چل دیا۔توخالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں، ہوسکتا ہے کہ وہ نماز پڑھتا ہو۔"خالد رضی اللہ عنہ نے عرض کی: کتنے ہی نمازی ہیں جو زبان سے (وہ بات) کہتے ہیں (کلمہ پڑھتے ہیں) جو ان کے دلوں میں نہیں۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا کہ لوگوں کے دلوں میں سوراخ کروں اور نہ یہ کہ ان کے پیٹ چاک کروں۔"پھر جب وہ پشت پھیر کر جارہاتھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا: "یہ حقیقت ہے کہ اس کی اصل سے ایسے لوگ نکلیں گے جو اللہ کی کتاب کو بڑی تراوٹ سے پڑھیں گے (لیکن) لیکن وہ ان کے گلے سے نیچے نہیں اترے گی، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر نشانہ بنائے جانے والے شکار سے نکلتا ہے۔" (ابو سعیدخدری رضی اللہ عنہ نے) کہا: میر اخیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر میں نے ان کو پالیا تو انھیں اس طرح قتل کروں گا جس طرح ثمود قتل ہوئے تھے۔"
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ بیان کرتے ہیں: کہ حضرت علی بن ابی طالب نے یمن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رنگے ہوئے چمڑے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ سونا بھیجا جسے مٹی سے الگ نہیں کیا گیا تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چار افراد: عینیہ بن حصن، اقرع بن حابس، زید الخیل اور چوتھا علقمہ بن علاثہ ہے یا عامر بن طفیل کے درمیان تقسیم کر دیا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے ایک آدمی نے کہا: ان سے ہم ا سکے زیادہ حقدار تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ بات پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم مجھے امین نہیں سمجھتے؟ اور آسمان والا مجھے امین سمجھتا ہے، صبح شام میرے پاس آسمانی خبریں آتی ہیں“ ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے: اس پر ایک آدمی کھڑا ہوا، جس کی آنکھیں دھنسی ہوئیں تھیں، گال ابھرے ہوئے تھے، پیشانی اونچی تھی، داڑھی گھنی تھی، سر منڈا ہوا تھا اور تہبند پنڈلی تک اٹھا ہوا تھا۔ اس نے کہا: اےاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ سے ڈر۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تجھ پر افسوس، کیا میں تمام اہل زمین سے زیادہ اللہ سے ڈرنے کے قابل نہیں ہوں“ پھر وہ آدمی پیٹھ پھیر کر چل دیا۔ توخالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، کیا میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، ممکن ہے یہ نمازی ہو۔“ خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، کتنے ہی نمازی ہیں جو زبان سے ایسی بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے لوگوں کے دل چیرنے کا اور ان کے پیٹ چاک کرنے کا حکم نہیں دیا گیا، کہ ان کے دل کی بات جانو۔“ حضرت ابو سعید کہتے ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نظر دوڑائی جبکہ وہ پیٹھ پھیر کر جا رہا تھا اور فرمایا: ”واقعہ یہ ہے کہ اس کی نسل سے ایسے لوگ نکلیں گے جو اللہ کی کتاب کو آسانی سے پڑھیں گے اور وہ ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گی، وہ دین (اطاعت) سے اس طرح نکل گے جیسے تیر شکار سے نکلتا ہے۔“ ابو سعیدخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں: میر اخیال ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں نے ان کو پا لیا تو قوم ثمود کی طرح ان کو تہس نہس کر ڈالوں گا)۔“
حدثنا عثمان بن ابي شيبة ، حدثنا جرير ، عن عمارة بن القعقاع بهذا الإسناد قال وعلقمة بن علاثة، ولم يذكر عامر بن الطفيل، وقال: " ناتئ الجبهة "، ولم يقل: " ناشز "، وزاد: فقام إليه عمر بن الخطاب رضي الله عنه، فقال: يا رسول الله الا اضرب عنقه، قال: " لا "، قال: ثم ادبر، فقام إليه خالد سيف الله، فقال: يا رسول الله الا اضرب عنقه، قال: " لا "، فقال: " إنه سيخرج من ضئضئ هذا قوم يتلون كتاب الله لينا رطبا "، وقال: قال عمارة: حسبته قال: " لئن ادركتهم لاقتلنهم قتل ثمود "،حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ قَالَ وَعَلْقَمَةُ بْنُ عُلَاثَةَ، وَلَمْ يَذْكُرْ عَامِرَ بْنَ الطُّفَيْلِ، وَقَالَ: " نَاتِئُ الْجَبْهَةِ "، وَلَمْ يَقُلْ: " نَاشِزُ "، وَزَادَ: فَقَامَ إِلَيْهِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا أَضْرِبُ عُنُقَهُ، قَالَ: " لَا "، قَالَ: ثُمَّ أَدْبَرَ، فَقَامَ إِلَيْهِ خَالِدٌ سَيْفُ اللَّهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا أَضْرِبُ عُنُقَهُ، قَالَ: " لَا "، فَقَالَ: " إِنَّهُ سَيَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا قَوْمٌ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ لَيِّنًا رَطْبًا "، وَقَالَ: قَالَ عُمَارَةُ: حَسِبْتُهُ قَالَ: " لَئِنْ أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ ثَمُودَ "،
جریر نے عمارہ بن قعقاع سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی، انھوں نے علقمہ بن علاثہ کاذکر کیا اور عامر بن طفیل کا ذکر نہیں کیا۔نیز ناتی الجبہۃ (نکلی ہوئی پیشانی والا) کہا اور (عبدالواحد کی طرح ناشز (ابھری ہوئی پیشانی والا) نہیں کہا اور ان الفاظ کا اضافہ کیاکہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیا میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں۔"کہا: پھر وہ پیٹھ پھیر کر چل پڑا تو خالد سیف اللہ رضی اللہ عنہ اٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں اس کی گردن نہ اڑادوں؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: "نہیں۔"پھر فرمایا: " حقیقت یہ ہے کہ عنقریب اس کی اصل سے ایسے لوگ نکلیں گے جو اللہ تعالیٰ کی کتاب نرمی اور تراوٹ سے پڑھیں گے۔" (جریر نے) کہا: عمارہ نے کہا: میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر میں نے ان کو پالیا تو ان کو اسی طرح قتل کروں گا جس طرح ثمود قتل ہوئے۔
مصنف اپنے ایک اور استاد سے عمارۃ بن القعقاع کی سند سے روایت کرتے ہیں۔ اس میں صرف علقمہ بن علاثہ کا نام ہے عامر بن طفیل کا ذکر نہیں ہے اسی طرح ”ناشز الجبهة“ کی بجائے ”ناتئ الجبهة“ ہے اور یہ اضافہ ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“ حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں پھر وہ پیٹھ پھیر کر چل پڑا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خالد سیف اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اللہ کی تلوار) حاضر ہوئے۔ اور عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا میں اس کی گردن نہ اتاردوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی نسل سے جلدی ایسے لوگ نکلیں گے جو اللہ تعالیٰ کی کتاب بہت آسانی سے تازہ بتازہ (روزانہ) پڑھیں گے“ عمارہ کہتے ہیں میرا خیال ہے آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں نے ان کو پا لیا تو ثمودیوں کی طرح تمھیں نہس کر ڈالوں گا)۔“
عمارہ بن قعقاع کے ایک دوسرے شاگرد ابن فضیل نے اسی سند کے ساتھ یہ حدیث بیان کی اور کہا: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خام سونا) چار افراد: زید الخیل، اقرع بن حابس، عینیہ بن حصن اور علقمہ بن علاثہ یا عامر بن طفیل میں (تقسیم کیا۔) اور عبدالواحدکی روایت کی طرح"ابھری ہوئی پیشانی والا"کہا اور انھوں نے"اس کی اصل سے (جس سے اس کا تعلق ہے) ایک قوم نکلے گی"کے الفاظ بیان کیے اورلئن ادرکت لاقتلنہم قتل ثمود (اگر میں نے ان کو پالیاتو ان کو اس طرح قتل کروں گا جس طرح ثمود قتل ہوئے) کے الفاظ ذکر نہیں کیے۔
امام صاحب اپنے استاد ابن نمیر سے مذکورہ بالا سند ہی سے بیان کرتے ہیں کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے چار شخصوں زید الخیر، اقرع بن حابس، عیینہ بن حصین اور علقمہ بن علاثہ یا عامر بن طفیل کے درمیان تقسیم کر دیا اور یہاں عبد الوحد کی روایت کی طرح ”ناشز الجبهة“ کا لفظ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اس کی نسل سے جلد ہی ایک قوم نکلے گی) اور یہ بیان نہیں کیا۔ (اگر میں نے ان کو پا لیا تو ثمودیوں کی طرح قتل کر ڈالوں گا)۔“
وحدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا عبد الوهاب ، قال: سمعت يحيى بن سعيد ، يقول: اخبرني محمد بن إبراهيم ، عن ابي سلمة ، وعطاء بن يسار ، انهما اتيا ابا سعيد الخدري فسالاه عن الحرورية، هل سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكرها؟، قال: لا ادري من الحرورية، ولكني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " يخرج في هذه الامة ولم يقل منها قوم تحقرون صلاتكم مع صلاتهم، فيقرءون القرآن لا يجاوز حلوقهم او حناجرهم، يمرقون من الدين مروق السهم من الرمية، فينظر الرامي إلى سهمه إلى نصله إلى رصافه، فيتمارى في الفوقة هل علق بها من الدم شيء ".وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ ، يَقُولُ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، وَعَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، أنهما أتيا أبا سعيد الخدري فسألاه عَنْ الْحَرُورِيَّةِ، هَلْ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُهَا؟، قَالَ: لَا أَدْرِي مَنْ الْحَرُورِيَّةُ، وَلَكِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " يَخْرُجُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ وَلَمْ يَقُلْ مِنْهَا قَوْمٌ تَحْقِرُونَ صَلَاتَكُمْ مَعَ صَلَاتِهِمْ، فَيَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حُلُوقَهُمْ أَوْ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ، فَيَنْظُرُ الرَّامِي إِلَى سَهْمِهِ إِلَى نَصْلِهِ إِلَى رِصَافِهِ، فَيَتَمَارَى فِي الْفُوقَةِ هَلْ عَلِقَ بِهَا مِنَ الدَّمِ شَيْءٌ ".
محمد بن ابراہیم نے ابو سلمہ اورعطاء بن یسار سے روایت کی کہ وہ دونوں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اوران سے حروریہ کے بارے میں دریافت کیا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا تذکرہ کرتے ہوئے سناتھا؟انھوں نے کہا: حروریہ کوتو میں نہیں جانتا، البتہ میں نے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے یہ سنا ہے؛"اس امت میں ایک قوم نکلے گی۔آپ نے"اس امت میں سے"نہیں کہا۔تم اپنی نمازوں کو ان کی نمازوں سے ہیچ سمجھو گے، وہ قرآن پڑھیں گے اور وہ ان کے حلق۔۔۔یا ان کے گلے۔۔۔سے نیچے نہیں اترے گا۔وہ اس طرح دین سے نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار کیے ہوئے جانور سے نکل جاتا ہے اور تیر انداز اپنے تیر کی لکڑی کو، اس کے پھل کو، اسکی تانت کو دیکھتا ہے اور اس کے پچھلے حصے (سوفار یا چٹکی) کے بارے میں شک میں مبتلا ہوتا ہے کے کہا اس کے ساتھ (شکار کے) خون میں کچھ لگا ہے۔" (تیر تیزی سے نکل جائے تو اس پر خون وغیرہ زیادہ نہیں لگتا۔اسی طرح تیزی کے ساتھ دین سے نکلنے والے پردین کا کوئی اثر باقی نہیں رہتا۔)
ابو سلمہ اور عطاء بن یسار حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے حرویہ کے بارے میں پوچھا؟ کیا آپ نے ان کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ انھوں نے کہا حرویہ کا تو مجھے پتہ نہیں ہے لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اس امت میں (في كہا منها نہیں کہا) ایک قوم نکلے گی۔ تم اپنی نمازوں کو ان کے مقابلہ میں ہیچ سمجھو گے۔ وہ قرآن پڑھیں گے وہ ان کے حلق یا گلے سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے اسی طرح نکلیں گے جیسے تیر شکار سے نکلتا ہے تیرانداز اس کی لکڑی کو دیکھتا ہے اس کے پھل کو اس کے پرکو دیکھتا ہے اور اس کی نوک یا اس کے آخری کنارہ کے بارے میں شک میں مبتلا ہوتا؟ کہ کہیں اس کے خون میں سے کچھ لگا ہے۔“
حدثني ابو الطاهر ، اخبرنا عبد الله بن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، اخبرني ابو سلمة بن عبد الرحمن ، عن ابي سعيد الخدري . ح وحدثني حرملة بن يحيى ، واحمد بن عبد الرحمن الفهري ، قالا: اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، اخبرني ابو سلمة بن عبد الرحمن ، والضحاك الهمداني ، ان ابا سعيد الخدري ، قال: بينا نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يقسم قسما، اتاه ذو الخويصرة وهو رجل من بني تميم، فقال: يا رسول الله اعدل، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ويلك ومن يعدل إن لم اعدل، قد خبت وخسرت إن لم اعدل "، فقال عمر بن الخطاب رضي الله عنه: يا رسول الله ائذن لي فيه اضرب عنقه، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " دعه فإن له اصحابا يحقر احدكم صلاته مع صلاتهم، وصيامه مع صيامهم، يقرءون القرآن لا يجاوز تراقيهم، يمرقون من الإسلام كما يمرق السهم من الرمية، ينظر إلى نصله فلا يوجد فيه شيء، ثم ينظر إلى رصافه فلا يوجد فيه شيء، ثم ينظر إلى نضيه فلا يوجد فيه شيء وهو القدح، ثم ينظر إلى قذذه فلا يوجد فيه شيء سبق الفرث والدم آيتهم رجل اسود إحدى عضديه مثل ثدي المراة او مثل البضعة تتدردر، يخرجون على حين فرقة من الناس "، قال ابو سعيد: فاشهد اني سمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم، واشهد ان علي بن ابي طالب رضي الله عنه قاتلهم وانا معه، فامر بذلك الرجل فالتمس فوجد، فاتي به حتى نظرت إليه على نعت رسول الله صلى الله عليه وسلم الذي نعت.حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ . ح وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْفِهْرِيُّ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، وَالضَّحَّاكُ الْهَمْدَانِيُّ ، أن أبا سعيد الخدري ، قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقْسِمُ قَسْمًا، أَتَاهُ ذُو الْخُوَيْصِرَةِ وَهُوَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ اعْدِلْ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَيْلَكَ وَمَنْ يَعْدِلُ إِنْ لَمْ أَعْدِلْ، قَدْ خِبْتُ وَخَسِرْتُ إِنْ لَمْ أَعْدِلْ "، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ائْذَنْ لِي فِيهِ أَضْرِبْ عُنُقَهُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " دَعْهُ فَإِنَّ لَهُ أَصْحَابًا يَحْقِرُ أَحَدُكُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ، وَصِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ، يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، يُنْظَرُ إِلَى نَصْلِهِ فَلَا يُوجَدُ فِيهِ شَيْءٌ، ثُمَّ يُنْظَرُ إِلَى رِصَافِهِ فَلَا يُوجَدُ فِيهِ شَيْءٌ، ثُمَّ يُنْظَرُ إِلَى نَضِيِّهِ فَلَا يُوجَدُ فِيهِ شَيْءٌ وَهُوَ الْقِدْحُ، ثُمَّ يُنْظَرُ إِلَى قُذَذِهِ فَلَا يُوجَدُ فِيهِ شَيْءٌ سَبَقَ الْفَرْثَ وَالدَّمَ آيَتُهُمْ رَجُلٌ أَسْوَدُ إِحْدَى عَضُدَيْهِ مِثْلُ ثَدْيِ الْمَرْأَةِ أَوْ مِثْلُ الْبَضْعَةِ تَتَدَرْدَرُ، يَخْرُجُونَ عَلَى حِينِ فُرْقَةٍ مِنَ النَّاسِ "، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَأَشْهَدُ أَنِّي سَمِعْتُ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَشْهَدُ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَاتَلَهُمْ وَأَنَا مَعَهُ، فَأَمَرَ بِذَلِكَ الرَّجُلِ فَالْتُمِسَ فَوُجِدَ، فَأُتِيَ بِهِ حَتَّى نَظَرْتُ إِلَيْهِ عَلَى نَعْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي نَعَتَ.
ابن شہاب سے روایت ہے، کہا: مجھے ابو سلمہ بن عبدالرحمان اورضحاک ہمدانی نے خبر دی کہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرتھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ مال تقسیم فرمارہے تھے کہ اسی اثناء میں آپ کے پاس ذوالخویصرہ جو بنو تمیم کا ایک فرد تھا، آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !عدل کیجئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تیری ہلاکت (کا سامان ہو)!اگر میں عدل نہیں کرو گاتو کون عدل کرے گا؟ اگر میں عدل نہیں کررہا تو میں ناکام ہوگیا اور خسارے میں پڑ گیا۔" (یا اگر میں نے عدل نہ کیا تو تم ن اکام رہو گے اور خسارے میں ہوں گے) اس پر حضر ت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے اجازت دیجئے میں اس منافق کو قتل کردوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اے چھوڑ دو، اس کے کچھ ساتھی ہوں گے۔تمھارا کوئی فرد اپنی نماز کو ان کی نماز اور اپنے روزوں کو ان کے روزوں کے سامنے ہیچ سمجھے گا، یہ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن ان کی ہنسلیوں سے نیچے نہیں اترے گا۔اسلام سے اس طرح نکلیں گے جیسے تیر نشانہ بنائے گئے شکار سے نکلتاہے۔اس کے پھل (یا پیکان) کو دیکھا جائے تو اس میں کچھ نہیں پایا جاتا، پھر اس کے سو فار کو دیکھا جائے تو اس میں بھی کچھ نہیں پایا جاتا، پھر اس کے پر کو دیکھا جائے تو اس میں کچھ نہیں پایا جاتا، وہ (تیر) گوبر اور خون سے آگے نکل گیا (لیکن اس پر لگا کچھ بھی نہیں)، ان کی نشانی ایک سیاہ فام مرد ہے، اس کے دونوں مونڈھوں میں سے ایک مونڈھا عورت کے پستان کی طرح یا گوشت کے ہلتے ہوئے ٹکڑے کی طرح ہوگا۔وہ لوگوں (مسلمانوں) کے باہمی اختلاف کے وقت (نمودار) ہوں گے۔" ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کےخلاف جنگ کی، میں ان کے ساتھ تھا۔انھوں نے اس آدمی (کو تلاش کرنے) کے بارے میں حکم دیا، اسے تلاش کیا گیا تو وہ مل گیا، اس (کی لاش) کو لایا گیا تو میں نے اس کو اسی طرح دیکھا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا تعارف کرایاتھا۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں: کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرتھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ مال تقسیم فرما رہے تھے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بنو تمیم کا ایک فرد ذوالخویصرہ آیا، اور کہنے لگا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! انصاف کیجئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تجھ پر افسوس! اگر میں عدل نہیں کرتا تو عدل کون کرے گا؟ اگر میں عدل نہیں کر رہا تو میں ناکامی اور گھاٹے کا شکار ہو گیا“ تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے اس کی گردن مارنے کی اجازت دیجئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے چھوڑیے، اس کے کچھ ساتھی ہیں۔ تم اپنی نماز کو ان کی نماز کے مقابلے میں کم تر خیال کرو گے، اور اپنے روزوں کو ان کے مقابلے میں ہیچ سمجھو گے، وہ قرآن پڑھیں گے، ان کی ہنسلی سے اوپر نہیں اٹھے گا۔ (قبول نہیں ہو گا) اسلام (فرمانبرداروں) سے اس طرح نکلیں گے جیسے تیر شکار سے نکلتا ہے۔ اس کے پھل کو دیکھا جائے تو اس میں کچھ نہیں پایا جائے گا، اس کے پھل کی جڑ کو دیکھا جائے پھر اس کی لکڑی کو دیکھا جائے تو اس پر کچھ نہیں ہو گا، پھر اس کے پر کو دیکھا جائے تو اس پر کچھ نہیں ہو گا، تیر گوبر اور خون سے تجاوز کر گیا ہے (لیکن اس پر لگا کچھ بھی نہیں) ان کی علامت و نشانی ایک سیاہ آدمی ہے۔ اس کا ایک بازو عورت کے پستان کی طرح ہو گا، یا گو شت کے ہلتے ہوئے ٹکڑہ کی طرح، لوگوں کے (مسلمانوں) کے باہمی اختلاف کے وقت نکلیں گے۔“ ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہتے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے جنگ لڑی جبکہ میں ان کے ساتھ تھا۔ تو انھوں نے اس آدمی کو تلاش کرنے کا حکم دیا، تو وہ مل گیا، اسے ان کے پاس لایا گیا۔ حتی کہ میں نے اسے اس حالت و صفت میں پایا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی تھی۔
وحدثني محمد بن المثنى ، حدثنا ابن ابي عدي ، عن سليمان ، عن ابي نضرة ، عن ابي سعيد ، ان النبي صلى الله عليه وسلم ذكر قوما، يكونون في امته يخرجون في فرقة من الناس سيماهم التحالق، قال: " هم شر الخلق او من اشر الخلق، يقتلهم ادنى الطائفتين إلى الحق "، قال: فضرب النبي صلى الله عليه وسلم لهم مثلا، او قال: قولا الرجل يرمي الرمية، او قال الغرض فينظر في النصل فلا يرى بصيرة، وينظر في النضي فلا يرى بصيرة، وينظر في الفوق فلا يرى بصيرة، قال: قال ابو سعيد: وانتم قتلتموهم يا اهل العراق.وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ قَوْمًا، يَكُونُونَ فِي أُمَّتِهِ يَخْرُجُونَ فِي فُرْقَةٍ مِنَ النَّاسِ سِيمَاهُمُ التَّحَالُقُ، قَالَ: " هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ أَوْ مِنْ أَشَرِّ الْخَلْقِ، يَقْتُلُهُمْ أَدْنَى الطَّائِفَتَيْنِ إِلَى الْحَقِّ "، قَالَ: فَضَرَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُمْ مَثَلًا، أَوَ قَالَ: قَوْلًا الرَّجُلُ يَرْمِي الرَّمِيَّةَ، أَوَ قَالَ الْغَرَضَ فَيَنْظُرُ فِي النَّصْلِ فَلَا يَرَى بَصِيرَةً، وَيَنْظُرُ فِي النَّضِيِّ فَلَا يَرَى بَصِيرَةً، وَيَنْظُرُ فِي الْفُوقِ فَلَا يَرَى بَصِيرَةً، قَالَ: قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: وَأَنْتُمْ قَتَلْتُمُوهُمْ يَا أَهْلَ الْعِرَاقِ.
سلیمان بن ابو نضرہ سے اور انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کا تذکرہ فرمایا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں ہوں گے، وہ لوگوں میں افتراق کے وقت سے نکلیں گے، ان کی نشانی سر منڈانا ہوگی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ مخلوق کے بدترین لوگ۔یا مخلوق کے بدترین لوگوں میں سے ہوں گے، ان کو دو گروہوں میں سے وہ (گروہ) قتل کرے گا جو حق کے قریب تر ہوگا۔"آپ نے ان کی مثال بیان کی یا بات ارشاد فرمائی: "انسان شکار کو۔۔۔یا فرمایا: نشانے کو۔تیر مارتا ہے وہ پھل کو دیکھتا ہے تو اسے (خون کا) نشان نظر نہیں آتا (جس سے بصیرت حاصل ہوجائے کہ شکار کو لگا ہے)، پیکان اور پر کے درمیانی حصے کو دیکھتا ہے تو کوئی نشان نظر نہیں آتا، وہ سوفار (پچھلے حصے) کو دیکھتا ہے تو کوئی نشان نہیں دیکھتا۔"حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اہل عراق!تم ہی نے ان کو (حضرت علی رضی اللہ عنہ کی معیت میں) قتل کیا ہے۔
حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے اندر نکلنے والے کچھ لوگوں کا تذکرہ فرمایا کہ وہ لوگوں میں افتراق کے وقت نکلیں گے جس کی نشانی ہمیشہ سر منڈانا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ بد ترین لوگ ہوں گے حق سے قریب تر گروہ ان کو قتل کرے گا“ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں تمثیل بیان کی یا بات فرمائی کہ انسان شکار یا نشانہ کو تیر مارتا ہے وہ پھل دیکھتا ہے تو اسے نشانے پر لگنے کی دلیل (خون یا گوبر) نظر نہیں آتی وہ پیکان کو دیکھتا ہے تو بھی کوئی حجت نظر نہیں آتی۔ پھر وہ سوفار (تیر کی نوک) دیکھتا ہے تو وہ کوئی نشان نہیں دیکھتا“ ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اے اہل عراق! تم ہی نےان کو قتل کیا ہے۔
قاسم بن فضل حدانی نے حدیث بیان کی، کہا: ہم سے ابو نضرہ نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مسلمانوں میں افتراق کے وقت تیزی سے (اپنے ہدف کے اندر سے) نکل جانےو الا ایک گروہ نکلے گا دو جماعتوں میں سے جو جماعت حق سے زیادہ تعلق رکھنے والی ہوگی، (وہی) اسے قتل کرے گی۔"
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمانوں میں افتراق (گروہ بندی) کے وقت ایک گروہ الگ ہو گا۔ اسے حق سے قریب تر گروہ قتل کرے گا۔“
قتادہ نے ابو نضر ہ سے اور انھوں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میری امت کے دو گروہ ہوں گے ان دونوں کےدرمیان سے، دین میں سے تیزی سے باہر ہوجانے والے نکلیں گے، انھیں وہ گروہ قتل کرے گا جو دونوں گروہوں میں سے زیادہ حق کے لائق ہوگا۔"
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’میری امت کے دو گروہ بن جائیں گے۔ ان کے اندر سے ایک فرقہ نکلے گا ان کے قتل کا کام دونوں گروہوں سے حق کے زیادہ قریب گروہ سر انجام دے گا۔“
داود نے ابونضرہ سے اور انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لوگوں میں گروہ بندی کےوقت دین میں سے تیزی سے نکل جانے والا ایک فرقہ تیزی سے نکلے گا۔ان کے قتل کی ذمہ داری دونوں جماعتوں میں سے حق سے زیادہ تعلق رکھنےوالی جماعت پوری کرے گی۔"
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں میں گروہ بندی کے وقت ایک فرقہ نکلے گا ا ان کے قتل کا کام وہ گروہ سر انجام دے گا۔ جو دونوں گروہوں سے حق کے زیادہ قریب ہو گا۔“
ضحاک مشرقی نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ایک حدیث میں روایت کی جس میں آپ نے اس قوم کا تذکرہ فرمایا جو (امت کے) مختلف گروہوں میں بٹنے کے وقت نکلے گی، ان کو دونوں گروہوں میں سے حق سے قریب تر گروہ قتل کرے گا۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث بیان کی ہے جس میں ان لوگوں کا تذکرہ ہے جو اختلاف پیدا کرنے والی گروہ بندی میں نکلیں گے ان دونوں گروہوں سے حق کے زیادہ قریب تر گروہ قتل کرے گا۔