كِتَاب الزَّكَاةِ زکاۃ کے احکام و مسائل The Book of Zakat 10. باب فِي الْكَنَّازِينَ لِلأَمْوَالِ وَالتَّغْلِيظِ عَلَيْهِمْ: باب: مال کو خزانہ بنانے والوں کے بارے میں اور ان کو ڈانٹ۔ Chapter: Stern warning concerning those who hoard wealth وحدثني زهير بن حرب ، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، عن الجريري ، عن ابي العلاء ، عن الاحنف بن قيس ، قال: قدمت المدينة فبينا انا في حلقة فيها ملا من قريش، إذ جاء رجل اخشن الثياب، اخشن الجسد، اخشن الوجه فقام عليهم، فقال: بشر الكانزين برضف يحمى عليه في نار جهنم، فيوضع على حلمة ثدي احدهم، حتى يخرج من نغض كتفيه، ويوضع على نغض كتفيه، حتى يخرج من حلمة ثدييه يتزلزل، قال: فوضع القوم رءوسهم، فما رايت احدا منهم رجع إليه شيئا، قال: فادبر، واتبعته حتى جلس إلى سارية، فقلت: ما رايت هؤلاء إلا كرهوا قلت لهم، قال: إن هؤلاء لا يعقلون شيئا، إن خليلي ابا القاسم صلى الله عليه وسلم دعاني فاجبته، فقال " اترى احدا "، فنظرت ما علي من الشمس، وانا اظن انه يبعثني في حاجة له، فقلت: اراه، فقال: " ما يسرني ان لي مثله ذهبا انفقه كله، إلا ثلاثة دنانير، ثم هؤلاء يجمعون الدنيا لا يعقلون شيئا "، قال: قلت: ما لك ولإخوتك من قريش، لا تعتريهم وتصيب منهم، قال: لا وربك لا اسالهم عن دنيا، ولا استفتيهم عن دين حتى الحق بالله ورسوله.وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ ، عَنْ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ ، قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَبَيْنَا أَنَا فِي حَلْقَةٍ فِيهَا مَلَأٌ مِنْ قُرَيْشٍ، إِذْ جَاءَ رَجُلٌ أَخْشَنُ الثِّيَابِ، أَخْشَنُ الْجَسَدِ، أَخْشَنُ الْوَجْهِ فَقَامَ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ: بَشِّرِ الْكَانِزِينَ بِرَضْفٍ يُحْمَى عَلَيْهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ، فَيُوضَعُ عَلَى حَلَمَةِ ثَدْيِ أَحَدِهِمْ، حَتَّى يَخْرُجَ مِنْ نُغْضِ كَتِفَيْهِ، وَيُوضَعُ عَلَى نُغْضِ كَتِفَيْهِ، حَتَّى يَخْرُجَ مِنْ حَلَمَةِ ثَدْيَيْهِ يَتَزَلْزَلُ، قَالَ: فَوَضَعَ الْقَوْمُ رُءُوسَهُمْ، فَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنْهُمْ رَجَعَ إِلَيْهِ شَيْئًا، قَالَ: فَأَدْبَرَ، وَاتَّبَعْتُهُ حَتَّى جَلَسَ إِلَى سَارِيَةٍ، فَقُلْتُ: مَا رَأَيْتُ هَؤُلَاءِ إِلَّا كَرِهُوا قُلْتَ لَهُمْ، قَالَ: إِنَّ هَؤُلَاءِ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا، إِنَّ خَلِيلِي أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَانِي فَأَجَبْتُهُ، فَقَالَ " أَتَرَى أُحُدًا "، فَنَظَرْتُ مَا عَلَيَّ مِنَ الشَّمْسِ، وَأَنَا أَظُنُّ أَنَّهُ يَبْعَثُنِي فِي حَاجَةٍ لَهُ، فَقُلْتُ: أَرَاهُ، فَقَالَ: " مَا يَسُرُّنِي أَنَّ لِي مِثْلَهُ ذَهَبًا أُنْفِقُهُ كُلَّهُ، إِلَّا ثَلَاثَةَ دَنَانِيرَ، ثُمَّ هَؤُلَاءِ يَجْمَعُونَ الدُّنْيَا لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا "، قَالَ: قُلْتُ: مَا لَكَ وَلِإِخْوَتِكَ مِنْ قُرَيْشٍ، لَا تَعْتَرِيهِمْ وَتُصِيبُ مِنْهُمْ، قَالَ: لَا وَرَبِّكَ لَا أَسْأَلُهُمْ عَنْ دُنْيَا، وَلَا أَسْتَفْتِيهِمْ عَنْ دِينٍ حَتَّى أَلْحَقَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ. ابو علاء نے حضرت احنف بن قیس ؒسے روایت کی انھوں نے کہا: میں مدینہ آیا تو میں قریشی سر داروں کے ایک حلقے میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک کھردرے کپڑوں گٹھے ہو ئے جسم اور سخت چہرے والا ایک آدمی آیا اور ان کے سر پر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا۔مال و دولت جمع کرنے والوں کو اس تپتے ہو ئے پتھر کی بشارت سنا دو جس کو جہنم کی آگ میں گرم کیا جا ئے گا اور اسے ان کے ایک فرد کی نو ک پستان پر رکھا جائے گا حتیٰ کہ وہ اس کے دونوں کندھوں کی باریک ہڈیوں سے لہراتا ہوا نکل جا ئے گا اور اسے اس کے شانوں کی باریک ہڈیوں پر رکھا جا ئے گا حتیٰ کہ وہ اس کے پستانوں کے سروں سے حرکت کرتا ہوا نکل جا ئے گا۔ (احنف نے) کہا: اس پر لو گوں نے اپنے سر جھکا لیے اور میں نے ان میں سے کسی کو نہ دیکھا کہ اسے کوئی جواب دیا ہو کہا پھر وہ لو ٹا اور میں نے اس کا پیچھا کیا حتیٰ کہ وہ ایک ستون کے ساتھ (ٹیک لگا کر) بیٹھ گیا میں نے کہا: آپ نے انھیں جو کچھ کہا ہے میں نے انھیں اس کو نا پسند کرتے ہو ئے ہی دیکھا ہے انھوں نے کہا: یہ لو گ کچھ سمجھتے نہیں میرے خلیل ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلا یا میں نے لبیک کہا تو آپ نے فرمایا: "کیا تم احد (پہاڑ) کو دیکھتے ہو؟ میں نے دیکھا کہ مجھ پر کتنا سورج باقی ہے میں سمجھ رہا تھا کہ آپ مجھے اپنی کسی ضرورت کے لیے بھیجنا چا ہتے ہیں چنا نچہ میں نے عرض کی میں اسے دیکھ رہا ہوں تو آپ نے فر مایا: "میرے لیے یہ بات باعث مسرت نہ ہو گی کہ میرے پا س اس کے برا برا سونا ہو اور میں تین دیناروں کے سوا اس سارے (سونے) کو خرچ (بھی) کر ڈالوں۔پھر یہ لو گ ہیں دنیا جمع کرتے ہیں کچھ عقل نہیں کرتے۔میں نے ان سے پو چھا آپ کا اپنے (حکمران) قریشی بھائیوں کے ساتھ کیا معاملہ ہے آپ اپنی ضرورت کے لیے نہ ان کے پاس جا تے ہیں اور نہ ان سے کچھ لیتے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا نہیں تمھا رے پرودیگار کا قسم! نہ میں ان سے دنیا کی کوئی چیز مانگوں گا نہ ہی ان سے کسی دینی مسئلے کے بارے میں پو چھوں گا یہاں تک کہ میں اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملوں۔ احنف بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں میں مدینہ آیا اس اثناء میں کہ میں قریشی سرداروں کے ایک حلقہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک ایک آدمی آیا جس کے کپڑے موٹے تھے جسم میں خشونت تھی اور چہرہ پر بھی سختی تھی وہ آ کر ان کے پاس رک گیا اور کہنے لگا مال و دولت سمیٹنے والوں کو اس گرم پتھر سے آگاہ کرو (اطلاع و خبر دو) جس کو جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا اور اسے ان کے ایک فرد کے پستان کی نوک پر رکھا جائے۔ گا حتی کہ وہ اس کے کندھےکی باریک ہڈی سے نکلے گا۔ اور اسے اس کے شانوں کی باریک ہڈیوں پر رکھا جائے گا حتی کہ وہ اس کے پستانوں کے سروں سے حرکت کرتا ہوا نکلے گا۔ احنف کہتے ہیں لوگوں نے اپنے سر جھکا لیے اور میں نے ان میں سے کسی کو اس کو کچھ جواب دیتے ہوئے نہیں دیکھا اور وہ واپس پلٹ گیا میں نے اس کا پیچھا کیا حتی کہ وہ ایک ستون کے ساتھ بیٹھا گیا تو میں نے کہا میں نے ان لوگوں کو دیکھا ہے کہ آپ نے انہیں جو کچھ کہا ہے انھوں نے اسے ناپسند سمجھا ہے اس نے کہا ان لوگوں کو کچھ عقل و شعور نہیں ہے میرے گہرے دوست ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم ! نے مجھے بلایا، میں نے لبیک کہا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمھیں احد نظر آ رہا ہے؟“ میں نے دیکھا کہ کس قدر سورج کھڑا ہے (دن باقی ہے) کیونکہ میں سمجھ رہا تھا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنی کسی ضرورت کے لیے بھیجنا چاہتے ہیں میں اسے دیکھ ہوں تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یہ بات میرے لیے مسرت کا باعث نہیں ہے کہ میرے پاس اس کے برابر سونا اور میں اس تمام کو خرچ کر ڈالوں مگر تین دینار جنھیں قرض چکانے کے لیے رکھ چھوڑوں) اس کے باوجود یہ لوگ دنیا جمع کرتے ہیں انھیں کچھ عقل نہیں ہے میں نے اس سے پوچھا: آپصلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے قریشی بھائیوں سے کیا معاملہ ہے؟ اپنی ضرورت کے لیے ان کے پاس نہیں جاتے اور نہ ان سے کچھ لیتے ہیں اس نے جواب دیا نہیں تیرے رب کی قسم! نہ میں ان سے دنیا کی کوئی چیز مانگوں گا اور نہ ہی ان سے کسی دینی مسئلہ کے بارے میں پوچھوں گا حتی کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے جا ملوں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا شيبان ابن فروخ ، حدثنا ابو الاشهب ، حدثنا خليد العصري ، عن الاحنف بن قيس ، قال: كنت في نفر من قريش، فمر ابو ذر وهو يقول: " بشر الكانزين بكي في ظهورهم، يخرج من جنوبهم، وبكي من قبل اقفائهم، يخرج من جباههم "، قال: ثم تنحى، فقعد، قال: قلت: من هذا؟، قالوا: هذا ابو ذر، قال: فقمت إليه فقلت ما شيء سمعتك تقول قبيل، قال: " ما قلت إلا شيئا قد سمعته من نبيهم صلى الله عليه وسلم "، قال: قلت: ما تقول في هذا العطاء؟، قال: " خذه فإن فيه اليوم معونة، فإذا كان ثمنا لدينك فدعه ".وحَدَّثَنَا شَيْبَانُ ابْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَشْهَبِ ، حَدَّثَنَا خُلَيْدٌ الْعَصَرِيُّ ، عَنْ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ ، قَالَ: كُنْتُ فِي نَفَرٍ مِنْ قُرَيْشٍ، فَمَرَّ أَبُو ذَرٍّ وَهُوَ يَقُولُ: " بَشِّرِ الْكَانِزِينَ بِكَيٍّ فِي ظُهُورِهِمْ، يَخْرُجُ مِنْ جُنُوبِهِمْ، وَبِكَيٍّ مِنْ قِبَلِ أَقْفَائِهِمْ، يَخْرُجُ مِنْ جِبَاهِهِمْ "، قَالَ: ثُمَّ تَنَحَّى، فَقَعَدَ، قَالَ: قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟، قَالُوا: هَذَا أَبُو ذَرٍّ، قَالَ: فَقُمْتُ إِلَيْهِ فَقُلْتُ مَا شَيْءٌ سَمِعْتُكَ تَقُولُ قُبَيْلُ، قَالَ: " مَا قُلْتُ إِلَّا شَيْئًا قَدْ سَمِعْتُهُ مِنْ نَبِيِّهِمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "، قَالَ: قُلْتُ: مَا تَقُولُ فِي هَذَا الْعَطَاءِ؟، قَالَ: " خُذْهُ فَإِنَّ فِيهِ الْيَوْمَ مَعُونَةً، فَإِذَا كَانَ ثَمَنًا لِدِينِكَ فَدَعْهُ ". خلید العصری نے حضرت احنف بن قیس رضی اللہ عنہ ؒ سے روایت کی انھوں نے کہا میں قریش کی ایک جماعت میں مو جو د تھا کہ ابو ذر رضی اللہ عنہ یہ کہتے ہو ئے گزرے: مال جمع کرنے والوں کو (آگ کے) ان داغوں کی بشارت سنا دو جو ان کی پشتوں پر لگائے جا ئیں گے اور ان کے پہلوؤں سے نکلیں گے اور ان داغوں کی جو ان کی گدیوں کی طرف سے لگا ئے جا ئیں گے اور ان کی پیشا بیوں سے نکلیں گے کہا: پھر وہ الگ تھلگ ہو کر بیٹھ گئے میں نے پو چھا یہ صاحب کو ن ہیں؟ لو گوں نے بتا یا یہ ابو ذر رضی اللہ عنہ ہیں میں اٹھ کر ان کے پا س چلا گیا اور پو چھا کیا با ت تھی تھوڑی دیر پہلے میں نے سنی آپ کہہ رہے تھے؟انھوں نے جواب دیا میں نے اس بات کے سوا کچھ نہیں کہا جو میں نے ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی۔کہا میں نے پو چھا (حکومت سے ملنے والے) عطیے (وظیفے) کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا اسے لے لو کیونکہ آ ج یہ معونت (مدد) سے اور جب یہ تمھا رے دین کی قیمت ٹھہریں تو انھیں چھوڑ دینا۔ احنف بن قیس بیان کرتے ہیں کہ میں قریش کی ایک جماعت میں فروکش تھا کہ ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ کہتے ہوئے گزرے مال جمع کرنے والوں کو ان داغوں کی خبر دو جو ان کی پشتوں پر لگائے جائیں گےاوران کے پہلوؤں سے نکلیں گے۔ اور داغوں کی جو ان کی گدیوں پر لگائے جائیں گے ان کی پیشانیوں سے نکلیں گے پھر وہ الگ تھلگ ہو کر بیٹھ گئے میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ قریشیوں نے بتایا یہ ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں میں اٹھ کر ان کے پاس چلا گیا اور پوچھا ابھی آپ کیا کہہ رہے تھے؟ انھوں نے جواب دیا میں نے وہی بات کہی ہے جو میں نے ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے میں نے پوچھا ان وظائف (حکومت کی طرف سے ملنے والے) کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں انھوں نے جواب دیا لے لو کیونکہ آج یہ معونت (مدد) کا باعث ہیں اور جب یہ تیرے دین کی قیمت ٹھہریں تو انھیں چھوڑ دینا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|