كِتَاب الزَّكَاةِ زکاۃ کے احکام و مسائل The Book of Zakat 9. باب التَّرْغِيبِ فِي الصَّدَقَةِ: باب: صدقہ کی ترغیب دینا۔ Chapter: Encouragement to give Charity حدثنا يحيى بن يحيى ، وابو بكر بن ابي شيبة ، وابن نمير ، وابو كريب كلهم، عن ابي معاوية، قال يحيى: اخبرنا ابو معاوية ، عن الاعمش ، عن زيد بن وهب ، عن ابي ذر ، قال: كنت امشي مع النبي صلى الله عليه وسلم في حرة المدينة عشاء، ونحن ننظر إلى احد، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يا ابا ذر "، قال: قلت: لبيك يا رسول الله، قال: " ما احب ان احدا ذاك عندي ذهب امسى ثالثة، عندي منه دينار إلا دينارا ارصده لدين، إلا ان اقول به في عباد الله هكذا حثا بين يديه، وهكذا عن يمينه، وهكذا عن شماله "، قال: ثم مشينا، فقال: " يا ابا ذر "، قال: قلت: لبيك يا رسول الله، قال: إن الاكثرين هم الاقلون يوم القيامة، إلا من قال هكذا وهكذا وهكذا "، مثل ما صنع في المرة الاولى، قال: ثم مشينا، قال: " يا ابا ذر كما انت حتى آتيك "، قال: فانطلق حتى توارى عني، قال: سمعت لغطا وسمعت صوتا، قال: فقلت: لعل رسول الله صلى الله عليه وسلم عرض له، قال: فهممت ان اتبعه، قال: ثم ذكرت قوله لا تبرح حتى آتيك، قال: فانتظرته فلما جاء ذكرت له الذي سمعت، قال: فقال: " ذاك جبريل اتاني، فقال: من مات من امتك لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة "، قال: قلت: وإن زنى وإن سرق، قال: " وإن زنى وإن سرق ".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ كُلُّهُمْ، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَرَّةِ الْمَدِينَةِ عِشَاءً، وَنَحْنُ نَنْظُرُ إِلَى أُحُدٍ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا أَبَا ذَرٍّ "، قَالَ: قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " مَا أُحِبُّ أَنَّ أُحُدًا ذَاكَ عِنْدِي ذَهَبٌ أَمْسَى ثَالِثَةً، عِنْدِي مِنْهُ دِينَارٌ إِلَّا دِينَارًا أَرْصُدُهُ لِدَيْنٍ، إِلَّا أَنْ أَقُولَ بِهِ فِي عِبَادِ اللَّهِ هَكَذَا حَثَا بَيْنَ يَدَيْهِ، وَهَكَذَا عَنْ يَمِينِهِ، وَهَكَذَا عَنْ شِمَالِهِ "، قَالَ: ثُمَّ مَشَيْنَا، فَقَالَ: " يَا أَبَا ذَرٍّ "، قَالَ: قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: إِنَّ الْأَكْثَرِينَ هُمُ الْأَقَلُّونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِلَّا مَنْ قَالَ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا "، مِثْلَ مَا صَنَعَ فِي الْمَرَّةِ الْأُولَى، قَالَ: ثُمَّ مَشَيْنَا، قَالَ: " يَا أَبَا ذَرٍّ كَمَا أَنْتَ حَتَّى آتِيَكَ "، قَالَ: فَانْطَلَقَ حَتَّى تَوَارَى عَنِّي، قَالَ: سَمِعْتُ لَغَطًا وَسَمِعْتُ صَوْتًا، قَالَ: فَقُلْتُ: لَعَلَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُرِضَ لَهُ، قَالَ: فَهَمَمْتُ أَنْ أَتَّبِعَهُ، قَالَ: ثُمَّ ذَكَرْتُ قَوْلَهُ لَا تَبْرَحْ حَتَّى آتِيَكَ، قَالَ: فَانْتَظَرْتُهُ فَلَمَّا جَاءَ ذَكَرْتُ لَهُ الَّذِي سَمِعْتُ، قَالَ: فَقَالَ: " ذَاكَ جِبْرِيلُ أَتَانِي، فَقَالَ: مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِكَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ "، قَالَ: قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ، قَالَ: " وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ ". اعمش نے زید بن وہب سے اور انھوں نے حضرت ابوزر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: (ایک رات) عشاء کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کی کالی پتھریلی زمین پر چل ر ہا تھا اور ہم احد پہاڑ کو دیکھ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: "ابو زر رضی اللہ عنہ!میں نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حاضر ہوں!فرمایا: " مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ یہ (کوہ) احد میرے پاس سونے کا ہو اور میں اس حالت میں تیسری شام کروں کہ میرے پاس اس میں سے ایک دینار بچا ہوا موجود ہو سوائے اس دینار کے جو میں نے قرض (کی ادائیگی) کے لئے بچایا ہو، اور میں اسے اللہ کے بندوں میں اس طرح (خرچ) کروں۔آپ نے اپنے سامنے دونوں ہاتھوں سے بھر کر ڈالنے کا اشارہ کیا۔اس طرح (خرچ) کروں۔دائیں طرف سے۔۔۔اس طرح۔۔۔بائیں طرف سے۔۔۔" (ابو زر رضی اللہ عنہ نے) کہا: پھر ہم چلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ابو زر! رضی اللہ عنہ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حاضر ہوں!آپ نے فرمایا: " یقیناً زیادہ مالدار ہی قیامت کے دن کم (مایہ) ہوں گے، مگر وہ جس نے اس طرح، اس طرح اور اس طرح (خرچ) کیا۔"جس طرح آپ نے پہلی بار کیاتھا۔ابوزر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم پھر چلے۔آپ نے فرمایا: "ابو زر رضی اللہ عنہ! میرے واپس آنے تک اسی حالت میں ٹھہرے رہنا۔"کہا: آپ چلے یہاں تک کہ میری نظروں سے اوجھل ہوگئے۔میں نے شور سا سنا آواز سنی تو میں نے دل میں کہا شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی چیز پیش آگئی ہے، چنانچہ میں نے پیچھے جانے کا ارادہ کرلیا پھر مجھے آپ کا یہ فرمان یاد آگیا: "میرے آنے تک یہاں سے نہ ہٹنا"تو میں نے آپ کاانتظار کیا، جب آپ و اپس تشریف لائے تو میں نے جو (کچھ) سنا تھا آپ کو بتایا۔آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ جبرائیل علیہ السلام تھے، میرے پاس آئے اور بتایا کہ آپ کی امت کاجو فرد اس حال میں فوت ہوگا کہ کسی چیز کو اللہ کے ساتھ شرک نہ کرتاتھا وہ جنت میں داخل ہوگا۔میں نے پوچھا: چاہے اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو؟انھوں نے کہا: چاہے اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو۔" حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں شام کے وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کی پتھریلی زمین میں چل رہا تھا۔ اور ہم احد پہاڑ دیکھ رہے تھے۔ تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ! میں نے کہا، اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں حاضر ہوں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ احد پہاڑ میرے پاس سونے کی شکل میں موجود ہو اور تیسری شام اس صورت میں آئے کہ میرے پاس اس سے ایک دینار بچا ہوا موجود ہو سوائے اس دینار کے جو میں قرض کی ادائیگی کے لیے تیار رکھوں۔ مگر میں چاہتا ہوں کہ میں اسے اللہ کے بندوں میں خرچ یا تقسیم کر دوں، اس طرف (آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مٹھی بھر کر آگے ڈالا) اور اس طرح دائیں طرف اور اس طرح بائیں طرف، پھر ہم چلتے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! حاضر ہوں آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(زیادہ مالدار ہی قیامت کے دن کم رتبہ ہوں گے) مگر جس نے ادھر اُدھر ہر جگہ خرچ کیا۔“ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے کی طرح (آگےدائیں بائیں) کی طرف اشارہ فرمایا: پھر ہم چل پڑے آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ! میرے آنے تک اس حالت میں رہنا یعنی یہیں ٹھہرے رہنا کہیں نہ جانا آپصلی اللہ علیہ وسلم چلے گئے حتی کہ میری نظروں سے چھپ گئے میں نے شور اور آواز سنی تو میں نے دل میں کہا۔ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی دشمن کا سامنا ہے تو میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچنے کا قصد کیا۔ پھر مجھے آپصلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یاد آ گیا کہ میرے آنے تک یہاں سے نہ ہلنا تو میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کیا تو جب آپصلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے ان آوازوں کا تذکرہ کیا جو میں نے سنی تھیں تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جبرائیل ؑ تھے میرے پاس آئے اور بتایا کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا جو فرد اس حال میں فوت ہو گا کہ اس نے اللہ کا کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا۔ وہ جنت میں داخل ہو گا۔ میں نے پوچھا: اے جبرائیل علیہ السلام!اگرچہ اس نے چوری اور زنا کیا ہو؟ اس نے جواب دیا اگرچہ اس نے چوری اور زنا کا ارتکاب کیا ہو۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا جرير ، عن عبد العزيز وهو ابن رفيع ، عن زيد بن وهب ، عن ابي ذر ، قال: خرجت ليلة من الليالي، فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم يمشي وحده ليس معه إنسان، قال: فظننت انه يكره ان يمشي معه احد، قال: فجعلت امشي في ظل القمر، فالتفت فرآني، فقال: " من هذا؟ "، فقلت: ابو ذر جعلني الله فداءك، قال: " يا ابا ذر تعاله "، قال: فمشيت معه ساعة، فقال: " إن المكثرين هم المقلون يوم القيامة، إلا من اعطاه الله خيرا فنفح فيه يمينه وشماله وبين يديه ووراءه، وعمل فيه خيرا "، قال: فمشيت معه ساعة، فقال: " اجلس ها هنا "، قال: فاجلسني في قاع حوله حجارة، فقال لي: " اجلس ها هنا حتى ارجع إليك "، قال: فانطلق في الحرة حتى لا اراه، فلبث عني فاطال اللبث، ثم إني سمعته وهو مقبل، وهو يقول: " وإن سرق وإن زنى "، قال: فلما جاء لم اصبر، فقلت: يا نبي الله جعلني الله فداءك، من تكلم في جانب الحرة؟ ما سمعت احدا يرجع إليك شيئا، قال: " ذاك جبريل عرض لي في جانب الحرة، فقال: بشر امتك انه من مات لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة، فقلت: يا جبريل وإن سرق وإن زنى، قال: نعم، قال: قلت: وإن سرق وإن زنى، قال: نعم، قال: قلت: وإن سرق وإن زنى، قال: نعم وإن شرب الخمر ".وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَهُوَ ابْنُ رُفَيْعٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: خَرَجْتُ لَيْلَةً مِنَ اللَّيَالِي، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي وَحْدَهُ لَيْسَ مَعَهُ إِنْسَانٌ، قَالَ: فَظَنَنْتُ أَنَّهُ يَكْرَهُ أَنْ يَمْشِيَ مَعَهُ أَحَدٌ، قَالَ: فَجَعَلْتُ أَمْشِي فِي ظِلِّ الْقَمَرِ، فَالْتَفَتَ فَرَآنِي، فَقَالَ: " مَنْ هَذَا؟ "، فَقُلْتُ: أَبُو ذَرٍّ جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ، قَالَ: " يَا أَبَا ذَرٍّ تَعَالَهْ "، قَالَ: فَمَشَيْتُ مَعَهُ سَاعَةً، فَقَالَ: " إِنَّ الْمُكْثِرِينَ هُمُ الْمُقِلُّونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِلَّا مَنْ أَعْطَاهُ اللَّهُ خَيْرًا فَنَفَحَ فِيهِ يَمِينَهُ وَشِمَالَهُ وَبَيْنَ يَدَيْهِ وَوَرَاءَهُ، وَعَمِلَ فِيهِ خَيْرًا "، قَالَ: فَمَشَيْتُ مَعَهُ سَاعَةً، فَقَالَ: " اجْلِسْ هَا هُنَا "، قَالَ: فَأَجْلَسَنِي فِي قَاعٍ حَوْلَهُ حِجَارَةٌ، فَقَالَ لِي: " اجْلِسْ هَا هُنَا حَتَّى أَرْجِعَ إِلَيْكَ "، قَالَ: فَانْطَلَقَ فِي الْحَرَّةِ حَتَّى لَا أَرَاهُ، فَلَبِثَ عَنِّي فَأَطَالَ اللَّبْثَ، ثُمَّ إِنِّي سَمِعْتُهُ وَهُوَ مُقْبِلٌ، وَهُوَ يَقُولُ: " وَإِنْ سَرَقَ وَإِنْ زَنَى "، قَالَ: فَلَمَّا جَاءَ لَمْ أَصْبِرْ، فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ، مَنْ تُكَلِّمُ فِي جَانِبِ الْحَرَّةِ؟ مَا سَمِعْتُ أَحَدًا يَرْجِعُ إِلَيْكَ شَيْئًا، قَالَ: " ذَاكَ جِبْرِيلُ عَرَضَ لِي فِي جَانِبِ الْحَرَّةِ، فَقَالَ: بَشِّرْ أُمَّتَكَ أَنَّهُ مَنْ مَاتَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ، فَقُلْتُ: يَا جِبْرِيلُ وَإِنْ سَرَقَ وَإِنْ زَنَى، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: قُلْتُ: وَإِنْ سَرَقَ وَإِنْ زَنَى، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: قُلْتُ: وَإِنْ سَرَقَ وَإِنْ زَنَى، قَالَ: نَعَمْ وَإِنْ شَرِبَ الْخَمْرَ ". عبدالعزیز بن رفیع نے زید بن وہب سے اور انھوں نے ابو زر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں ایک رات (گھرسے) باہر نکلا تو اچانک دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے جارہے ہیں، آپ کے ساتھ کوئی انسان نہیں تو میں نے خیال کیا کہ آپ اس بات کو ناپسند کررہے ہیں کہ کوئی آپ کے ساتھ چلے، چنانچہ میں چاند کے سائے میں چلنے لگا، آپ مڑے تو مجھے دیکھ لیا اور فرمایا: " یہ کون ہے؟"میں نے عرض کی: ابو زر رضی اللہ عنہ ہوں، اللہ مجھے آپ پر قربان کرے!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ابو زر (رضی اللہ عنہ) آجاؤ۔"کہا: میں کچھ دیر آپ کے ساتھ چلا تو آپ نے فرمایا: " بے شک زیادہ مال والے ہی قیامت کے دن کم (مایہ) ہوں گے، سوائے ان کے جن کو اللہ نے مال عطا فرمایا: اور ا نھوں نے اسے دائیں، بائیں اور آگے، پیچھے اڑا ڈالا اور اس میں نیکی کے کام کئے۔"میں ایک گھڑی آپ کے ساتھ چلتا رہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہاں بیٹھ جاؤ۔"آپ نے مجھے ایک ہموار زمین میں بٹھا دیا جس کے گرد پتھر تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: "یہیں بیٹھے رہنا یہاں تک کہ میں تمھارے پاس لوٹ آؤں۔"آپ پتھریلے میدان (حرے) میں چل پڑے حتیٰ کہ میری نظروں سے اوجھل ہوگئے، آپ مجھ سے دور رکے رہے اور زیادہ دیرکردی، پھر میں نے آپ کی آواز سنی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف آتے ہوئے فرمارہے تھے: "خواہ اس نے چوری کی ہو یا زنا کیا ہو۔"جب آپ تشریف لئے آئے تو میں صبر نہ کرسکا میں نے عرض کی: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ مجھے آپ پر نثار فرمائے!آپ سیاہ پتھروں کے میدان (حرہ) کے کنارے کس سے گفتگو فرمارہے تھے؟میں نے تو کسی کو نہیں سناجو آپ کو جواب دے رہا ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ جبرئیل علیہ السلام تھے جو سیاہ پتھروں کے کنارے میرے سامنے آئے اور کہا: اپنی امت کو بشارت دے دیجئے کہ جو کوئی اس حالت میں مرے گا کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراتا ہوگا وہ جنت میں داخل ہوگا۔میں نے کہا: اے جبرئیل علیہ السلام! چاہے اس نے چوری کی ہو یا زنا کیا ہو؟انھوں نےکہا: ہاں!فرمایا: میں نے پھر کہا: خواہ اس نے چوری کی ہو خواہ اس نے زنا کیا ہو؟انھوں نے کہا: ہاں۔میں نے پھر (تیسری بار) پوچھا: خواہ اس نے چوری کی ہو خواہ اس نے زنا کیا ہو؟انھوں نے کہا: ہاں، خواہ اس نے شراب (بھی) پی ہو۔" حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک رات نکلا تو اچانک دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے چلے جا رہے ہیں آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی شخص نہیں ہے تو میں نے خیال کیا آپصلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو ناپسند کر رہے ہیں کہ کوئی آپ کے ساتھ چلے، تو میں چاند کے سایہ میں چلنے لگا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مڑ کر دیکھ لیا۔ اور فرمایا: ”یہ کون ہے؟“ میں نے عرض کیا ابو ذر ہوں، اللہ مجھے آپصلی اللہ علیہ وسلم پر قربان کرے۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ابو ذر! آ جاؤ) تو میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کچھ دیر چلا آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زیادہ مال والے ہی قیامت کے دن کم مرتبہ ہوں گے مگر جن کو اللہ نے مال عطا فرمایا: اور انھوں نے اسے دائیں، بائیں اور آگے، پیچھے پھونک ڈالا اور اس میں نیکی کے کام کیے“ میں آپ کے ساتھ کچھ دیر چلتا رہا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہاں بیٹھو“ تو آپ نے مجھے ایک ہموار زمین پر بٹھا دیا جس کے گرد پتھر تھے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا۔ ”یہاں بیٹھو حتی کہ میں تیرے پاس لوٹ آؤں آپصلی اللہ علیہ وسلم پتھریلی زمین میں چلے حتی کہ میری نظروں سے اوجھل ہو گئے اور وہاں ٹھہرے رہے اور کافی دیر تک ٹھہرے رہے پھر میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم میری طرف آتے ہوئے فرما رہے تھے ”خواہ اس نے چوری کی ہو یا زنا کیا ہو“ جب آپصلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے تو میں صبر نہ کر سکا اور میں نے پوچھا: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ مجھے آپصلی اللہ علیہ وسلم پر نثارفرمائے! آپصلی اللہ علیہ وسلم سیاہ پتھروں کے کنارے کس سے گفتگو فرما رہے تھے؟ میں نے کسی کو کچھ جواب دیتے نہیں سنا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جبرائیل علیہ السلام تھے جو سیاہ پتھروں کے کنارے میرے سامنے آئے اور کہا اپنی امت کو بشارت دیجیے جو اس حالت میں فوت ہو گا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہرایا ہو گا۔ وہ جنت میں داخل ہو گا تو میں نے کہا: اے جبرائیل علیہ السلام اور اگرچہ اس نے چوری کی ہو یا زنا کا مرتکب ہوا ہو، اس نے کہا: جی ہاں! میں نے پھر پوچھا خواہ وہ چور ہو یا زانی؟ اس نے کہا: ہاں میں نے پھر تیسری بار پوچھا: خواہ اس نے چوری کی ہو یا زنا کیا ہو؟ اس نے کہا: ہاں اور اگرچہ وہ شرابی ہی کیوں نہ ہو۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|