وعن ابي هريرة رضي الله عنه قال: وكلني رسول الله صلى الله عليه وسلم بحفظ زكاة رمضان فاتاني آت فجعل يحثو من الطعام فاخذته وقلت والله لارفعنك إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم قال إني محتاج وعلي عيال ولي حاجة شديدة قال فخليت عنه فاصبحت فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «يا ابا هريرة ما فعل اسيرك البارحة» . قال قلت يا رسول الله شكا حاجة شديدة وعيالا فرحمته فخليت سبيله قال: «اما إنه قد كذبك وسيعود» . فعرفت انه سيعود لقول رسول الله صلى الله عليه وسلم: «انه سيعود» . فرصدته فجاء يحثو من الطعام فاخذته فقلت: لارفعنك إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم قال دعني فإني محتاج وعلي عيال لا اعود فرحمته فخليت سبيله فاصبحت فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يا ابا هريرة ما فعل اسيرك؟» قلت يا رسول الله شكا حاجة شديدة وعيالا فرحمته فخليت سبيله قال: «اما إنه قد كذبك وسيعود» . فرصدته الثالثة فجاء يحثو من الطعام فاخذته فقلت لارفعنك إلى رسول الله وهذا آخر ثلاث مرات إنك تزعم لا تعود ثم تعود قال دعني اعلمك كلمات ينفعك الله بها قلت ما هو قال إذا اويت إلى فراشك فاقرا آية الكرسي (الله لا إله إلا هو الحي القيوم) حتى تختم الآية فإنك لن يزال عليك من الله حافظ ولا يقربنك شيطان حتى تصبح فخليت سبيله فاصبحت فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما فعل اسيرك؟» قلت: زعم انه يعلمني كلمات ينفعني الله بها فخليت سبيلهقال النبي صلى الله عليه وسلم: «اما إنه قد صدقك وهو كذوب تعلم من تخاطب منذ ثلاث ليال» . يا ابا هريرة قال لا قال: «ذاك شيطان» . رواه البخاري وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: وَكَّلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحِفْظِ زَكَاةِ رَمَضَانَ فَأَتَانِي آتٍ فَجَعَلَ يَحْثُو من الطَّعَام فَأَخَذته وَقلت وَالله لَأَرْفَعَنَّكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنِّي مُحْتَاجٌ وَعَلَيَّ عِيَالٌ وَلِي حَاجَةٌ شَدِيدَةٌ قَالَ فَخَلَّيْتُ عَنْهُ فَأَصْبَحْتُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا أَبَا هُرَيْرَة مَا فعل أسيرك البارحة» . قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ شَكَا حَاجَةً شَدِيدَةً وَعِيَالًا فَرَحِمْتُهُ فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ قَالَ: «أَمَا إِنَّهُ قَدْ كَذَبَكَ وَسَيَعُودُ» . فَعَرَفْتُ أَنَّهُ سَيَعُودُ لِقَوْلِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنَّهُ سيعود» . فَرَصَدْتُهُ فَجَاءَ يَحْثُو مِنَ الطَّعَامِ فَأَخَذْتُهُ فَقُلْتُ: لَأَرْفَعَنَّكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ دَعْنِي فَإِنِّي مُحْتَاجٌ وَعَلَيَّ عِيَالٌ لَا أَعُودُ فَرَحِمْتُهُ فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ فَأَصْبَحْتُ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا أَبَا هُرَيْرَةَ مَا فَعَلَ أَسِيرُكَ؟» قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ شَكَا حَاجَةً شَدِيدَةً وَعِيَالًا فَرَحِمْتُهُ فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ قَالَ: «أَمَا إِنَّهُ قَدْ كَذبك وَسَيَعُودُ» . فرصدته الثَّالِثَة فَجَاءَ يَحْثُو مِنَ الطَّعَامِ فَأَخَذْتُهُ فَقُلْتُ لَأَرْفَعَنَّكَ إِلَى رَسُول الله وَهَذَا آخِرُ ثَلَاثِ مَرَّاتٍ إِنَّكَ تَزْعُمُ لَا تَعُودُ ثُمَّ تَعُودُ قَالَ دَعْنِي أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ ينفعك الله بهَا قلت مَا هُوَ قَالَ إِذَا أَوَيْتَ إِلَى فِرَاشِكَ فَاقْرَأْ آيَةَ الْكُرْسِيِّ (اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ) حَتَّى تَخْتِمَ الْآيَةَ فَإِنَّكَ لَنْ يَزَالَ عَلَيْكَ من الله حَافظ وَلَا يقربنك شَيْطَانٌ حَتَّى تُصْبِحَ فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ فَأَصْبَحْتُ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا فَعَلَ أَسِيرُكَ؟» قُلْتُ: زَعَمَ أَنَّهُ يُعَلِّمُنِي كَلِمَات يَنْفَعنِي الله بهَا فخليت سبيلهقال النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: «أما إِنَّه قد صدقك وَهُوَ كذوب تعلم من تخاطب مُنْذُ ثَلَاث لَيَال» . يَا أَبَا هُرَيْرَة قَالَ لَا قَالَ: «ذَاك شَيْطَان» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے صدقہ فطر کی حفاظت کرنے پر مامور فرمایا، پس ایک شخص میرے پاس آیا اور غلے سے لپیں بھرنے لگا، میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا: میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے کر جاؤں گا، اس نے کہا: میں محتاج ہوں، میرے بچے ہیں اور میں بہت ضرورت مند ہوں، راوی بیان کرتے ہیں، میں نے اسے چھوڑ دیا، صبح ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ابوہریرہ! گزشتہ رات تیرے قیدی نے کیا کیا؟“ میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! اس نے سخت ضرورت اور بچوں کی شکایت کی تو مجھے اس پر رحم آ گیا اور میں نے اسے چھوڑ دیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے تمہارے ساتھ غلط بیانی کی اور وہ پھر آئے گا۔ “ میں نے جان لیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق وہ پھر آئے گا لہذا میں اس کی تاک میں بیٹھ گیا، وہ آیا اور غلہ بھرنے لگا تو میں نے اسے پکڑ لیا، اور میں نے کہا: میں تمہیں ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کروں گا۔ اس نے کہا: میں ضرورت مند اور عیال دار ہوں، میں پھر نہیں آؤں گا۔ میں نے اس پر ترس کھاتے ہوئے اسے چھوڑ دیا، صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: ”ابوہریرہ! تمہارے قیدی کا کیا ہوا؟“ میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! اس نے سخت ضرورت اور بچوں کی شکایت کی تو میں نے اس پر رحم کھاتے ہوئے اسے چھوڑ دیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے تو تم سے غلط بیانی کی اور وہ پھر آئے گا۔ “ میں نے جان لیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق وہ ضرور آئے گا۔ میں اس کی تاک میں بیٹھ گیا، وہ آیا اور غلہ بھرنے لگا تو میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا: میں تمہیں ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کروں گا اور یہ تیسری اور آخری مرتبہ ہے، تم کہتے ہو میں پھر نہیں آؤں گا لیکن پھر آ جاتے ہو، اس نے کہا مجھے چھوڑ دو، میں تمہیں چند کلمات سکھاؤں گا جن کے ذریعے اللہ تمہیں فائدہ پہنچائے گا۔ جب تم سونے کے لیے اپنے بستر پر آؤ تو مکمل آیت الکرسی پڑھو، اس طرح اللہ کی طرف سے تم پر ایک محافظ مقرر ہو جائے گا اور شیطان تمہارے قریب نہیں آئے گا حتیٰ کہ صبح ہو جائے گی، میں نے اسے چھوڑ دیا، صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”تمہارے قیدی نے کیا کیا؟“ میں نے عرض کیا، اس نے کہا کہ وہ مجھے چند کلمات سکھائے گا جن کے ذریعے اللہ مجھے فائدہ پہنچائے گا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے تم سے سچ کہا حالانکہ وہ جھوٹا ہے، کیا تم جانتے ہو کہ تم تین روز سے کس کے ساتھ باتیں کرتے رہے ہو؟“ میں نے عرض کیا، نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”وہ شیطان تھا۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (2311)»