من كتاب النكاح نکاح کے مسائل 41. باب: «الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ» : بچہ اس کا ہو گا جس کی زوجیت یا ملکیت میں عورت ہو
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بچہ اس کا ہے جس کے بستر پر پیدا ہوا، اور زنا کرنے والے کے لئے پتھر ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2281]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم فى الرضاع 1458]، [نسائي 3515]، [ابن ماجه 2005]، [الحميدي 1116] وضاحت:
(تشریح حدیث 2271) «فراش» ایسی خاتون کو کہتے ہیں جس سے شوہر مجامعت و مباشرت کر چکا ہو خواہ وہ بیوی ہو یا لونڈی، اور یہاں فراش سے مراد اس کا مالک یا صاحب ہے۔ «العاهر» یعنی زانی اور «للحجر» یعنی پتھروقتی ہے، یعنی اس کے لئے سوائے ناکامی و نامرادی، ذلت و رسوائی کے سوا کچھ نہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ زانی کے لئے سنگساری ہے یعنی اسے رجم کیا جائے گا۔ والله اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بچہ (صاحب) فراش کا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو عند مالك مطولا في الأقضية، [مكتبه الشامله نمبر: 2282]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2218، 2745]، [مسلم 1457]، [نسائي 3598]، [ابن ماجه 2005] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو عند مالك مطولا في الأقضية
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا زوجہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: عتبہ بن ابی وقاص نے (مرتے وقت) اپنے بھائی سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو وصیت کی تھی کہ زمعہ کی لونڈی کا لڑکا میرا ہے اور وہ اس کو اپنی تحویل میں لے لے، چنانچہ جب فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ پہنچے تو سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے زمعہ کی لونڈی کے اس لڑکے کو لے لیا جو اور لوگوں میں عتبہ بن ابی وقاص ہی سے زیادہ مشابہ تھا، جب یہ قضیہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ دیا: ”یہ بچہ، اے عبد بن زمعہ تمہارے لئے ہے، اس لئے کہ اس کی ولادت اپنے باپ کے فراش پر ہوئی ہے۔“ (کیونکہ اس وقت بچے کی ماں عبد بن زمعہ کی ملکیت میں تھیں)، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی ام المومنین سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا سے کہا: ”اے سودہ! اس لڑکے سے پردہ کرنا“، یہ اس مشابہت کی وجہ سے فرمایا جو اس لڑکے کو عتبہ بن ابی وقاص سے تھی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو مطول سابقه، [مكتبه الشامله نمبر: 2283]»
اس روایت کی سند صحیح اور پچھلی مختصر حدیث کی تفصیلی روایت ہے، تخریج وہی ہے جو پیچھے گذری۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 2272 سے 2274) قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ بچہ اسی سے منسوب ہوگا جس کے گھر پیدا ہوا، اس لئے قاعدے کے لحاظ سے وہ ام المومنین سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کا بھائی ہوا اور اس سے پردہ نہیں، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح مشابہت و مماثلت کی وجہ سے فرمایا کہ یہ تمہارے حقیقی بھائی کی طرح نہیں ہے اور عتبہ ہی کا لڑکا تمہارے لئے اجنبی ہے، نامحرم ہے، اس سے تم کو پردہ کرنا ہے۔ اس طویل حدیث سے جو صحیحین میں اور زیادہ تفصیل سے موجود ہے معلوم ہوا کہ زنا سے پیدا شده بچہ اسی کا مانا جائے گا، عورت جس کے عقد یا ملکیت میں ہو، چاہے زانی کتنا ہی دعویٰ کرے لیکن بچہ صاحبِ فراش کا ہوگا۔ اسی کی طرف منسوب اور اس کا وارث مانا جائے گا، اور اولاد کے سے احکام اس کے لئے جاری ہونگے، چاہے بچے کے اندر زانی کی مشابہت بھی پائی جائے، اور اگر صاحبِ فراش یعنی شوہر یا مالک اسے اپنا بچہ ماننے سے انکار کر دے تو بچہ ماں کے ساتھ ملحق کر دیا جائے اور ماں کی طرف ہی منسوب ہوگا، زانی کے ساتھ نہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو مطول سابقه
|