من كتاب النكاح نکاح کے مسائل 8. باب الْحَالِ التي تَجُوزُ لِلرَّجُلِ أَنْ يَخْطُبَ فِيهَا: آدمی کے لئے کس کو پیغام دینا جائز ہے؟
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا پھوپھی پر بھتیجی سے یا بھتیجی پر پھوپھی سے نکاح کرنے کو، اسی طرح خالہ پر اس کی بھانجی سے اور بھانجی پر اس کی خالہ سے نکاح کرنے کو، نہ بڑی پر چھوٹی سے نکاح کیا جائے اور نہ چھوٹی پر بڑی سے نکاح کیا جائے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2224]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5109]، [مسلم 1408]، [أبوداؤد 2065]، [ترمذي 1126]، [نسائي 3288]، [ابن ماجه 1929]، [أبويعلی 6641]، [ابن حبان 4068] وضاحت:
(تشریح حدیث 2214) یعنی اگر کسی عورت کی بھتیجی سے نکاح کر لیا ہے تو اس کے جیتے جی اس کی پھوپھی سے نکاح نہ کرے، اور اگر بھانجی سے نکاح کر لیا ہے تو اس کے اوپر اس کی خالہ سے نکاح نہ کرے، اور اگر پھوپھی سے نکاح کر لیا ہے تو اس کی بھتیجی سے نہ کرے، اور اسی طرح خالہ کو کر لیا ہے تو بھانجی سے نکاح نہ کرے۔ (وحیدی)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا بھتیجی اور پھوپھی کے جمع کرنے سے اور بھانجی و خالہ کے ایک ساتھ جمع کرنے سے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو عند مالك في النكاح، [مكتبه الشامله نمبر: 2225]»
اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5109، 5110]، [مسلم 1408]، [نسائي 3288] وضاحت:
(تشریح حدیث 2215) ان دونوں احادیث سے معلوم ہوا کہ کسی ایسی عورت سے نکاح کرنا منع ہے جس کی پھوپھی یا خالہ اس کے نکاح میں ہو، اور اس کے برعکس بھی کسی ایسی عورت سے نکاح کرنا جس کی بھتیجی اور بھانجی پہلے سے نکاح میں موجود ہو۔ ابن منذر نے کہا: اس پر علماء کا اجماع ہے، ایک روایت میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی منقول ہے کہ دو پھوپھیوں اور دو خالاؤں میں بھی جمع کرنا مکروہ ہے۔ امام قسطلانی رحمہ اللہ نے کہا: پھوپھی میں دادا کی بہن، نانا کی بہن، ان کے باپ کی بہن، اسی طرح خالہ میں نانی کی بہن، نانی کی ماں سب داخل ہیں اور اس کا قاعدۂ کلیہ یہ ہے کہ ان دو عورتوں کا نکاح میں جمع کرنا درست نہیں ہے کہ اگر ان میں سے ایک کو مرد فرض کریں تو دوسری عورت اس کی محرم ہو، البتہ اپنی بیوی کے ماموں کی بیٹی یا چچا کی بیٹی یا پھوپھی کی بیٹی سے نکاح کر سکتا ہے، اسلام کا یہ وہ پرسنل لا ہے جس پر اسلام کو فخر ہے۔ اس نے اپنے پیروکاروں کے لئے ایک بہترین پرسنل لا دیا ہے۔ اس کے مقرر کردہ اصول و قوانین قیامت تک کے لئے کسی بھی ردّ و بدل سے بالا ہیں، دنیا میں کتنے ہی انقلابات آئیں، نوعِ انسانی میں کتنا ہی انقلاب برپا ہو، حالات خواہ کیسے ہی ہوں گے، مگر اسلامی قوانین اپنی جگہ برقرار رہیں گے، کسی کو بھی ان میں دست اندازی کا حق نہیں ہے۔ ہاں جو غلط قوانین لوگوں نے از خود بنا کر اسلام کے ذمہ لگا دیئے ہیں ان کا بدلنا بے حد ضروری ہے۔ (راز رحمہ اللہ)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو عند مالك في النكاح
|