من كتاب النكاح نکاح کے مسائل 34. باب النَّهْيِ عَنْ ضَرْبِ النِّسَاءِ: عورتوں، بیویوں کو مارنے کا بیان
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی خادم کو مارا نہیں، اور نہ کبھی کسی اور کو اپنے ہاتھ سے مارا، ہاں اللہ کے راستے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد (ضرور) کرتے تھے (یعنی جہاد و میدان جنگ میں دشمن کو لکارا اور مارا ہے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2264]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2328]، [ابن ماجه 1984]، [أبويعلی 4375]، [ابن حبان 488، 6444]، [الحميدي 260]۔ ابن ماجہ میں عورت کا بھی اضافہ ہے یعنی نہ کبھی کسی عورت کو مارا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا عبداللہ بن ابی ذباب رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی بندیوں کو مت مارو“، (یعنی بیویوں کو) پھر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: (اس حکم سے) عورتیں اپنے شوہروں پر دلیر ہو گئی ہیں (یعنی زبان درازی اور شرارت پر آمادہ ہیں)، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بیویوں کو مارنے کی اجازت دیدی، پھر بہت سی عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہوئیں، اپنے خاوندوں کے گلے شکوے کرنے لگیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہت سی عورتیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے پاس اپنے خاوندوں کی شکایت و گلہ کرتی ہیں۔ یہ لوگ (یعنی جو اپنی بیویوں کو مارتے ہیں) اچھے نہیں ہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2265]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2146]، [ابن ماجه 1985]، [ابن حبان 4189]، [موارد الظمآن 1316]، [الحميدي 900] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور عورتوں کے بارے میں لوگوں کو نصیحت فرمائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا بات ہے آدمی اپنی بیوی کو غلام کی طرح کوڑے مارتا ہے، حالانکہ اسی دن کے ختم ہونے پر وہ اس سے ہم بستری بھی کرتا ہے (یا کرے گا)۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2266]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 4942]، [مسلم 2855]، [ترمذي 3343]، [ابن ماجه 1983]، [ابن حبان 4189]، [موارد الظمآن 1316]، [الحميدي 900] وضاحت:
(تشریح احادیث 2254 سے 2257) آدمی پہلے مارے پھر پیار کرے، یہ علاقۂ زوجیت میں نفرتیں پیدا کر سکتا ہے۔ بہتر تو یہ ہے کہ حتی المقدور عورت پر ہاتھ ہی نہ اٹھائے، اور بہت بڑا اس کا قصور ہو تو پہلے ناراضگی کا الفاظ میں اظہار کرے، ڈانٹے، پاس سلانا چھوڑ دے یا منہ موڑ کر سووے، اگر پھر بھی راہِ راست پر نہ آئے تو ہلکی سرزنش کرے یا مارے لیکن چہرے پر نہ مارے۔ کتنے پیارے رحم دل تھے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہ نہ کبھی کسی خادم کو مارا، نہ بیوی کو ستایا، اور نہ کسی اور آدمی کو سرزنش کے طور پر مارا، ویسے تو ساری امّت کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مہربان تھے، اپنے اہل و عیال، بیوی بچوں کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت ہی اچھے، رحیم و کریم، شفیق و مہربان تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے لئے اچھا ہو اور میں اپنے اہل و عیال کے لئے اچھا ہوں۔ “ اس میں کوئی برائی نہیں بلکہ یہ تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ ہے۔ افسوس آج اگر بیوی کے ساتھ احسان و اچھا سلوک کیا جائے تو بعض لوگ جورو کے غلام ہونے کا طعنہ دیتے ہیں، (ہدا ہم اللہ)۔ ان احادیثِ مبارکہ میں قول و فعل ہر طرح سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیویوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور حتی الامکان مار پیٹ نہ کرنے کی تعلیم دی۔ بڑے فصیح و بلیغ انداز میں فرمایا: ایک انسان دن میں اپنی بیوی کو مارے شام کو گلے لگائے، اس پر اس کو شرم دلائی ہے، پھر مارنے کی ضرورت پڑ جائے تو مارے لیکن گدھے گھوڑے اور غلام کی طرح نہ مارے، اور ذلیل و خوار نہ کرے، افراط و تفریط سے بچے۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
|