من كتاب النكاح نکاح کے مسائل 39. باب في اللِّعَانِ: لعان کا بیان
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عویمر عجلانی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو پائے تو آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا وہ اس کو قتل کر دے؟ اس صورت میں لوگ (بدلے میں) اسے بھی قتل کر دیں گے، پھر اسے کیا کرنا چاہیے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے تمہارے اور تمہاری بیوی کے بارے میں وحی نازل کی ہے، جاؤ اور اپنی بیوی کو بھی ساتھ لے آؤ۔“ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر دونوں میاں بیوی نے لعان کیا، لوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت میں بھی موجود تھا، جب وہ دونوں لعان سے فارغ ہوئے تو سیدنا عویمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر اس کے بعد بھی میں اس کو اپنے پاس رکھوں تو اس کا مطلب ہو گا کہ میں جھوٹا ہوں، پھر انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ کہنے سے پہلے ہی اسے تین طلاق دے ڈالیں۔ ابن شہاب زہری رحمہ اللہ نے کہا: پھر لعان کرنے والوں کے لئے لعان کا یہی طریقہ رائج و جاری ہو گیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2275]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5259]، [مسلم 1492]، [أبوداؤد 2247]، [نسائي 3402]، [ابن ماجه 2066]، [ابن حبان 4284]، [شرح السنة للبغوي 2366] وضاحت:
(تشریح حدیث 2265) جب مرد اپنی عورت کو زنا کی تہمت لگائے اور عورت زنا کا اقرار نہ کرے، نہ مرد گواہ لاوے اور نہ اپنی تہمت سے پھرے، تو ایسی صورت میں لعان واجب ہوتا ہے تاکہ شکوک و شبہات، نفرت و عداوت میں کسی کی بھی زندگی اجیرن نہ بنے۔ اس کی صورت قرآن پاک کے اٹھارہویں پارے سورۂ نور کے شروع میں موجود ہے کہ پہلے مرد اللہ کا نام لے کر چار بار گواہی دے کہ وہ سچا ہے، اور پانچویں بار یوں کہے کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر اللہ کی لعنت ہو، پھر عورت الله تعالیٰ کا نام لے کر گواہی دے کہ اس کا مرد جھوٹا ہے، اور پانچویں بار یوں کہے: اگر اس کا مرد سچا ہو تو اس پر اللہ کا غضب نازل ہو، جب دونوں اس طرح کی گواہیاں دے چکیں تو حاکم میاں بیوی میں جدائی کرا دے گا، پھر یہ دونوں کبھی نہیں مل سکتے۔ اگر بچہ پیدا ہو تو وہ ماں کو دلایا جائے گا اور اگر اس بچے کو کوئی ولد الزنا کہے تو اس پر حدِ قذف لگائی جائے گی، اگر شہادتیں دے دے کہ اس کا شوہر جھوٹا ہے تو اس پر زنا ثابت نہیں ہوگا اور اس کے شوہر پر حدِ قذف بھی جاری نہ ہوگی، اور اگر عورت قسم اٹھانے سے انکار کرے تو مرد کو سچا قرار دے کر عورت پر حدِ رجم جاری کی جائے گی۔ اس کا نام لعان اس لئے رکھا گیا کہ میاں بیوی دونوں اپنے اوپر لعنت کرتے ہیں، خواہ دوسرا سچا ہی ہو، لفظ غضب عورت کی جانب سے اختیار و ادا کئے جانے کا مطلب یہ ہے کہ یہ فعل لعنت کو مستلزم ہے، پس عورت کی طرف جو گناه منسوب ہے وہ زنا ہے، اس دوران مرد کا گناه قذف یعنی تہمت ہے۔ اس حدیث میں ہے «فَطَلَّقَهَا ثَلَاثًا» کہ سیدنا عویمر رضی اللہ عنہ نے اس کو تین طلاق دیدیں، یہ حدیث تین طلاق ایک ساتھ دینے اور اس کے واقع ہو جانے پر دلیل نہیں بن سکتی ہے کیونکہ جیسا کہ حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے سے پہلے ہی انہوں نے طلاق دیدی، دوسرے یہ کہ لعان سے از خود طلاق و جدائی ہو جاتی ہے۔ طلاق دینے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ سیدنا عویمر رضی اللہ عنہ کو یہ حکم معلوم نہ رہا ہو، نیز یہ کہ بعض دوسری روایات میں طلاق کا ذکر ہی نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین طلاق دینے پر انکار بھی نہ کیا کیونکہ وہ عورت رشتۂ زوجیت سے نکل چکی تھی، اب تین کیا ہزار بھی طلاق دے تب بھی بے مقصد تھیں، لعان نہ ہوا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور انکار کرتے جیسا کہ محمود بن لبید نے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے اپنی عورت کو تین اکٹھی طلاق دیدیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہوئے اور فرمایا: الله کی کتاب سے کھیل کر تے ہو حالانکہ میں ابھی تمہارے درمیان موجود ہوں۔ (اسے امام نسائی نے روایت کیا اور اس کے راوی ثقہ ہیں)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عویمر رضی اللہ عنہ سیدنا عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، وہ بنو عجلان کے سردار تھے اور اوپر بیان کی گئی حدیث کے مثل حدیث بیان کی لیکن اس میں یہ لفظ ذکر نہیں کیا کہ ( «طلقها ثلاثا») کہ انہوں نے تین طلاق دیدی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو مكرر سابقه، [مكتبه الشامله نمبر: 2276]»
اس روایت کی سند صحیح ہے اور تخریج اوپر گذرچکی ہے۔ اس روایت سے ثابت ہوا کہ تین طلاق کا لفظ کسی راوی کی طرف سے اضافہ ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو مكرر سابقه
عبدالملک بن ابی سلیمان نے کہا: میں نے سنا سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے وہ کہہ رہے تھے کہ مجھ سے مصعب بن زبیر کے دور امارت میں لعان کرنے والوں کے بارے میں پوچھا گیا: کیا ان کے درمیان جدائی کرائی جائے گی؟ مجھے حیرت ہوئی کیا جواب دوں، لہٰذا میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے مکان کی طرف گیا اور غلام سے کہا: مجھے اندر جانے کی اجازت لاؤ، اس نے کہا: اس وقت وہ آرام فرما رہے ہیں اور آپ اندر داخل نہیں ہو سکتے۔ سعید نے کہا: سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے میری آواز سن لی اور کہا: کیا ابن جبیر ہیں؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں، انہوں نے کہا: آ جاؤ، اس وقت تم کسی ضروری بات کے ہی لئے آئے ہوں گے۔ میں اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ وہ ایک کمبل بچھائے بیٹھے تھے اور ایک تکیہ پر ہاتھ سے ٹیک لگائے ہوئے جو کھجور کی چھال سے بھرا ہوا تھا، میں نے عرض کیا: اے ابوعبدالرحمٰن! کیا لعان کرنے والوں میں جدائی کرانی ہو گی؟ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: سبحان اللہ بے شک جدائی کی جائے گی اور سب سے پہلے اس بارے میں فلاں بن فلاں نے پوچھا تھا، اس نے کہا: یا رسول اللہ! اللہ کی رحمتیں ہوں آپ پر، بتایئے کوئی آدمی اپنی بیوی کو زنا کرتے دیکھے تو کیا کرے گا؟ اگر چپ رہ جائے تو اتنی بڑی بات پر کیسے چپ رہے اور اگر منہ سے ایسی بات نکالے تو بری بات نکالے گا۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور اسے کوئی جواب نہیں دیا، پھر اپنی کسی ضرورت سے اٹھ گئے، پھر (ایک دن) وہ شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں نے جس بارے میں آپ سے سوال کیا تھا، خود اس میں مبتلا ہو گیا، تب الله تعالیٰ نے سورہ نور کی یہ آیتیں نازل فرمائی: «﴿وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ ......﴾» [نور: 6/24-11] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیتیں پڑھ کر ختم کیں اور اس شخص کو بلا کر اس کو پڑھ کر سنائیں، اور اس کو نصیحت کی، اللہ کی یاد دلائی اور بتایا کہ ”دیکھو دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے آسان ہے (یعنی اگر جھوٹی تہمت اپنی بیوی پر لگا رہا ہے تو بتا دے، صرف حد قذف کے اسی کوڑے ہی پڑیں گے، مگر یہ جہنم میں جلنے سے آسان ہے)“، وہ بولا: نہیں، میں جھوٹ نہیں بولا ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بیوی کو بلایا اور اس کو ڈرایا اور سمجھایا اور فرمایا: ”دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے سہل ہے“، اس نے کہا: قسم اس ذات کی جس نے آپ کو سچائی کے ساتھ بھیجا ہے، میرا خاوند جھوٹ بول رہا ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کو بلایا، اس نے اللہ کے نام کے ساتھ چار بار گواہی دیں کہ وہ سچا ہے اور پانچویں بار میں یہ کہا کہ: اللہ کی پھٹکار ہو اس پر اگر وہ جھوٹا ہو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو بلایا، اس نے اللہ کے نام کے ساتھ چار گواہیاں دیں کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے اور پانچویں بار میں کہا کہ: اگر وہ سچا ہو تو اس (بیوی) کے اوپر الله کا غضب ٹوٹے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان جدائی کرا دی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2277]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1493]، [ترمذي 1202]، [نسائي 3473]، [أبويعلی 5656]، [ابن حبان 4286] وضاحت:
(تشریح احادیث 2266 سے 2268) «ثُمَّ فَرَّقَ بَيْنَهُمَا» سے بعض لوگوں نے استدلال کیا کہ لعان کرنے والے میاں بیوی کے درمیان تفریق حاکمِ وقت کے بغیر نہیں ہو سکتی، اور جمہور علماء امام مالک و امام شافعی و امام احمد رحمہم اللہ و دیگر بہت سے علماء نے کہا کہ فقط لعان سے تفریق ہو جائے گی اور «فَرَّقَ بَيْنَهُمَا» کا مطلب یہ ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تفریق کا اظہار فرمایا اور حکمِ شرع بیان کیا، یہ نہیں کہ نئے سرے سے فرقت و جدائی کرائی، دلیل کے اعتبار سے جمہور کا قول ہی راجح اور بہتر ہے۔ اس حدیث سے اور بہت سارے مسائل نکلتے ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں: آدمی کو فرضی مسائل نہیں پوچھنے چاہئے، مبادا وہ اس میں مبتلا ہو جائے جیسا کہ مذکورہ بالا واقعہ میں ہوا، دوسرے یہ کہ بلا علم فتویٰ نہیں دینا چاہیے، لعان کرانے سے پہلے امام، قاضی یا حاکم کو چاہیے متلاعنین کو نصیحت کریں، اور عذابِ الٰہی سے ڈرانا چاہیے، دوسرے یہ کہ لعان میں پہل شوہر سے کرنی چاہیے، وہ پہلے قسم کھائے اس کے بعد عورت گواہی دے گی۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعان کرنے والے میاں بیوی میں تفریق کرا دی اور بچہ اس کی ماں کو دے دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو عند مالك في الطلاق، [مكتبه الشامله نمبر: 2278]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5315]، [مسلم 1493]، [أبوداؤد 2259]، [ترمذي 1203]، [نسائي 3477]، [ابن ماجه 2069]، [أبويعلی 5772]، [ابن حبان 4288] وضاحت:
(تشریح حدیث 2268) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص اپنی بیوی کو زنا کی تہمت لگائے تو ان کے درمیان لعان کے بعد تفریق ہو جائے گی، اور اگر بچہ پیدا ہوا تو وہ ماں کے حوالے کر دیا جائے گا، باپ کی طرف منسوب نہ ہوگا، وہ اپنی ماں کا وارث ہوگا اپنے باپ کا نہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو عند مالك في الطلاق
|