سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
من كتاب النكاح
نکاح کے مسائل
11. باب النَّهْيِ عَنِ النِّكَاحِ بِغَيْرِ وَلِيٍّ:
بنا ولی کے نکاح کرنے کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 2219
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا مالك بن إسماعيل، حدثنا إسرائيل، عن ابي إسحاق، عن ابي بردة، عن ابيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا نكاح إلا بولي".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ".
ابوبردہ نے اپنے والد سے روایت کیا، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بغیر ولی کے نکاح جائز نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2228]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2085]، [ترمذي 1101]، [ابن ماجه 1881]، [أبويعلی 7227]، [ابن حبان 4077]، [الموارد 1243]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2220
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا علي بن حجر، اخبرنا شريك، عن ابي إسحاق، عن ابي بردة، عن ابي موسى، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "لا نكاح إلا بولي".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عِنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ".
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے بھی مذکورہ بالا حدیث اسی لفظ سے مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 2229]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے لیکن ابوبردہ کی حدیث اس کی شاہد ہے۔ تخریج دیکھئے: [العلل للدارقطني 172/3] و [علل الحديث للرازي 1216]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف
حدیث نمبر: 2221
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو عاصم، عن ابن جريج، عن سليمان بن موسى، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال: "ايما امراة نكحت بغير إذن وليها، فنكاحها باطل، فنكاحها باطل، فنكاحها باطل، فإن اشتجروا، قال ابو عاصم، وقال مرة: فإن تشاجروا فالسلطان ولي من لا ولي له، فإن اصابها، فلها المهر بما استحل من فرجها". قال ابو عاصم: املاه علي سنة ست واربعين ومائة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: "أَيُّمَا امْرَأَةٍ نُكِحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ وَلِيِّهَا، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَإِنْ اشْتَجَرُوا، قَالَ أَبُو عَاصِمٍ، وَقَالَ مَرَّةً: فَإِنْ تَشَاجَرُوا فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَهُ، فَإِنْ أَصَابَهَا، فَلَهَا الْمَهْرُ بِمَا اسْتَحَلَّ مِنْ فَرْجِهَا". قَالَ أَبُو عَاصِمٍ: أَمْلَاهُ عَلَيَّ سَنَةَ سِتٍّ وَأَرْبَعِينَ وَمِائَةٍ.
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کر لے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، پھر اگر ولی لڑ پڑیں (ایک کہے فلاں سے نکاح کرو دوسرا کہے فلاں سے) تو بادشاہ اس کا ولی ہے جس کا کوئی ولی نہ ہو، پس اگر مرد نے ایسی (بنا ولی کی اجازت والی) عورت سے جماع کیا تو اس کے لئے مہر ہے (یعنی اس کو مہر دینا ہو گا) یہ اس کے بدلے میں کہ اس مرد نے عورت کی شرم گاہ کو حلال کر لیا، ابوعاصم نے کہا: مجھے یہ حدیث سن 146 ہجری میں املا کرائی۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2230]»
اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2083]، [ترمذي 1102]، [ابن ماجه 1879]، [أبويعلی 2507]، [ابن حبان 4075]، [موارد الظمآن 1248]، [الحميدي 230]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2218 سے 2221)
ان تمام احادیث سے معلوم ہوا کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا، اس حدیث کو تیس کے قریب صحابہ نے روایت کیا ہے جس کے بعض طرق صحیح اور بعض کے ضعیف ہیں، جمہور علماء کی بھی یہی رائے ہے کہ ولی اور دو گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔
سول میرج وغیرہ سب اس میں داخل ہیں (یعنی ایسا نکاح صحیح نہیں) اور ولی سے مراد باپ ہے، باپ کی غیر موجودگی میں دادا، پھر بھائی، پھر چچا ہے یا عصبہ میں سے جو سببی طور پر سب سے قریب ہو، اس کے بعد سببی رشتے دار، پھر اس کے عصبی رشتے دار، ذوی الارحام اولیا نہیں بن سکتے۔
اگر کسی کے دو ولی ہوں اور نکاح کے موقع پر اختلاف ہو جائے تو ترجیح قریبی ولی کو ہوگی، اگر کوئی بھی ولی موجود نہ ہو تو حدیث میں صاف وارد ہے کہ سربراہِ مملکت اس کا ولی ہے، اور اگر دونوں ولی برابر حیثیت کے ہوں اور ان میں اختلاف ہو جائے تو ایسی صورت میں حاکمِ وقت ولی ہوگا۔
اسی طرح جب اولیاء میں شدید اختلاف ہو جائے جو نکاح میں مانع بن جائے تو پھر ایسی صورت میں ان اولیاء کی حیثیت نہ ہونے کے برابر ہوگی اور ان کا حقِ ولایت ساقط ہو جائے گا اور یہ استحقاق حاکمِ وقت کی طرف منتقل ہو جائے گا۔
جیسا کہ حدیث میں ہے: «فَإِنْ تَشَاجَرُوْا فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَهُ.» اور حنفیہ ولی کی شرط کے قائل نہیں، وہ نکاح کو بیع پر قیاس کرتے ہیں اور اس حدیث کی تضعیف و تاویل کرتے ہیں جو درست نہیں، نصِ صریح کے مقابلہ میں قیاس جائز ہی نہیں، نیز تخریجِ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث کو ضعیف کہہ کر رد کرنا صحیح نہیں، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ذوی الارحام نانا، ماموں وغیرہ بھی ولی ہو سکتے ہیں یہ بھی صحیح نہیں۔
حجۃ اللہ البالغہ میں ہے کہ نکاح میں ولی کی شرط اس لئے رکھی گئی کہ عورت اگر اپنا نکاح آپ کر لے تو اس میں ایک طرح کی بے شرمی ہے۔
دوسرے یہ کہ نکاح میں شہرت چاہیے وہ اسی سے ہوگی جبکہ عورت کے ولی حاضر رہیں۔
تیسرے یہ کہ عورت ناقص العقل ہوتی ہے تو احتمال ہے کہ برے آدمی یا غیر کفو کے ساتھ نکاح کر لے جو بعد میں مشکلات کا سبب بنے۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.