من كتاب النكاح نکاح کے مسائل 7. باب النَّهْيِ عَنْ خِطْبَةِ الرَّجُلِ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ: اپنے بھائی کے پیغام پر شادی کا پیغام دینے کی ممانعت کا بیان
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا کہ آدمی اپنے بھائی کے پیغام پر شادی کا پیام دے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2221]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2140]، [مسلم 1413]، [أبوداؤد 2080]، [ترمذي 1134]، [ابن ماجه 1867] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کے پیغام پر پیغام نہ دے، اور نہ کوئی آدمی اپنے بھائی کے مول (بیع) پر مول کرے یہاں تک کہ وہ اسے اجازت دے دے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2222]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2139]، [مسلم 1412]، [أبوداؤد 2081]، [نسائي 3243]، [ابن ماجه 1868]، [أبويعلی 5801]، [ابن حبان 4048] وضاحت:
(تشریح احادیث 2210 سے 2213) سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے: یہاں تک کہ پیغام دینے والا اس کو چھوڑ دے، یعنی اگر پہلا پیام ٹوٹ جائے تو دوسرے کو پیام دینا درست ہے۔ پیغام پر پیغام دینے کی ممانعت، یا کسی مسلمان بھائی کی خریدی چیز کو خریدنا، یا اس پر دام لگانے کی ممانعت اسلام کے سنہری اصولوں میں سے بہترین اصول ہیں تاکہ ایک دوسرے میں کھینچا تانی، رنجش و رقابت، عداوت و دشمنی پیدا نہ ہو۔ جمہور علماء نے پیام پر پیام دینے کو حرام قرار دیا ہے اس لئے اس سے بچنا چاہیے، ہاں جب یہ معلوم ہو جائے کہ پہلا رشتہ ختم کر دیا گیا ہے تو پھر رشتہ مانگنا اور پیام د ینا صحیح و درست ہوگا۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے ابوسلمہ رحمہ اللہ کو حدیث بیان کی اور انہوں نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے لکھ لیا، وہ قریش کے قبیلہ بنو مخزوم کے ایک شخص کے نکاح میں تھیں کہ انہوں نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو آخری قطعی طلاق (تیسری طلاق) دے دی، انہوں نے اپنے سسرال والوں سے نان و نفقہ طلب کیا تو انہوں نے جواب دیا: تمہارے لئے ہمارے پاس کوئی نان و نفقہ نہیں (کیونکہ طلاق بائنہ ہو چکی ہے جس کے بعد رجوع نہیں)، جب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا کہ ”تمہارے لئے کچھ نفقہ نہیں اور عدت گزارنا لازم ہے، اس لئے سیدہ ام شریک رضی اللہ عنہا کے گھر منتقل ہو جاؤ اور ہم سے دور نہ رہنا۔“ (یعنی جب عدت پوری ہو جائے تو ہمارے پاس آنا)، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ام شریک تو ایسی خاتون ہیں جن کے پاس ان کے مہاجرین بھائی آتے جاتے رہتے ہیں (کیونکہ وہ بڑی مالدار اور مہمان نواز تھیں اور مہمان آتے رہتے تھے) ایسا کرو (اپنے چچا زاد بھائی) ابن ام مکتوم کے گھر منتقل ہو جاؤ جو نابینا ہیں، اگر تم ان کے پاس کپڑے بھی اتار دوگی تو وہ کچھ نہیں دیکھ پائیں گے، اور ہم سے دور نہ رہنا“، چنانچہ وہ عمرو بن ام مکتوم کے پاس چلی گئیں، جب عدت پوری ہو گئی تو آ کر بتایا کہ معاویہ اور ابوجہم نے ان کو پیغام (شادی) بھیجا ہے جس پر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”معاویہ تو غریب ہیں ان کے پاس مال و دولت ہی نہیں اور ابوجہم (بڑے سخت گیر ہیں) ان کے کندھے سے لاٹھی اترتی ہی نہیں۔ اسامہ کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟“ لیکن ان کے اہل خانہ کو یہ پسند نہ تھا (کہ سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے شادی کر لیں)، انہوں نے کہا: قسم اللہ کی میں اس کے سوا کسی سے شادی نہ کروں گی جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے، چنانچہ انہوں نے سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ سے شادی کر لی (نسائی میں ہے کہ ان سے شادی کر کے میں بہت سکھی رہی، دیگر عورتیں میرے اوپر رشک کرتی تھیں)۔ محمد بن عمرو نے کہا: محمد بن ابراہیم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا: اے فاطمہ! اللہ سے ڈرو کہ تم کس چیز کے بارے میں ایسا کہہ رہی ہو (یعنی مطلقہ بائنہ ہونے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ تمہارے لئے نان و نفقہ اور سکن نہیں ہے)، نیز انہوں نے کہا: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس آیت: «﴿لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ ......﴾» [الطلاق: 1/65] یعنی مطلقہ عورتوں کو نہ ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود گھر سے نکلیں یہاں تک کہ وہ کھلی ہوئی فحش کاری میں مبتلا ہو جائیں۔ (یعنی) فاحشہ بدکاری اہل خانہ پر واضح ہو جائے، ایسی صورت میں جائز ہے کہ اس مطلقہ عورت کے سسرال والے عدت پوری ہونے سے پہلے اسے اپنے گھر سے نکال دیں۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 2223]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1480]، [أبوداؤد 2284، 2285]، [نسائي 3244، 3405]، [ابن حبان 4049]، [الحميدي 367]، [وله شاهد من حديث أبى هريرة فى مسند أبى يعلی 5928] وضاحت:
(تشریح حدیث 2213) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس عورت کی تین طلاقیں پڑ چکی ہوں اس کے لئے نہ نفقہ ہے نہ سکنی۔ سیدنا عمر، سیدنا ابن عباس، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہم کو اس امر میں تردد تھا کیونکہ مذکورہ بالا آیتِ شریفہ میں وضاحت ہے کہ نہ شوہر عورت کو زبردستی کر کے گھر سے نکالے اور نہ وہ مطلقہ عورت خود (عدت کے دوران) گھر سے باہر نکلے، ہاں اگر کوئی بے حیائی کا کام کرے اس وقت اس عورت کو عدت کے دوران گھر سے نکال دینا درست ہے، اسی لئے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ اگر تم اپنے دعوے پر دو گواہ لاؤگی تو ہم مانیں گے، ورنہ آیت کے مطابق عمل کریں گے۔ مذکورہ بالا روایت میں محمد بن ابراہیم کا سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے یہ کہنا کہ تم اللہ سے ڈرو آیت کے خلاف بات بتا رہی ہو، اسی قبیل سے ہے۔ اور آیتِ شریفہ مطلقہ رجعیہ کے بارے میں ہے کہ جب تک طلاق رجعی کی عدت ہے عورت اپنے شوہر کے گھر ہی میں رہے گی، ہو سکتا ہے کہ رجوع کی صورت نکل آئے اور گھر بگڑنے سے بچ جائے، تین طلاق کے بعد رجوع کی گنجائش نہیں اس لئے عورت کا شوہر کے گھر میں رہنا بے مقصد و بے فائدہ ہے اس لئے وہ یہ مدت اپنے میکے والوں میں گذارے گی کیونکہ رشتۂ زوجیت ختم ہو چکا ہے، تو اس کے خرچ و اخراجات، رہنے سہنے کا بوجھ شوہر پر نہ ہوگا۔ محدثین نے مذکورہ بالا حدیث کو صحیح کہا ہے اور اسی کے عامل ہیں۔ مزید تفصیل حدیث رقم (2311) کے ضمن میں آ رہی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
|