سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
من كتاب النكاح
نکاح کے مسائل
36. باب في الْعَزْلِ:
عزل کا بیان
حدیث نمبر: 2260
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سليمان بن داود الهاشمي، عن إبراهيم بن سعد، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن ابي سعيد، قال: سال رجل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن العزل، فقال: "او تفعلون ذلك؟ فلا عليكم ان لا تفعلوا، فإنه ليس من نسمة قضى الله تعالى ان تكون إلا كانت".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْهَاشِمِيُّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَة، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْعَزْلِ، فَقَالَ: "أَوَ تَفْعَلُونَ ذَلِكَ؟ فَلَا عَلَيْكُمْ أَنْ لَا تَفْعَلُوا، فَإِنَّهُ لَيْسَ مِنْ نَسَمَةٍ قَضَى اللَّهُ تَعَالَى أَنْ تَكُونَ إِلَّا كَانَتْ".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عزل کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم ایسا کرتے ہو؟ تم اگر ایسا نہ کرو پھر بھی کوئی حرج نہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے جس جان کے پیدا ہونے کا فیصلہ کر دیا ہے وہ ضرور پیدا ہو کر رہے گا، چاہے عزل کرو یا نہ کرو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2269]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2229، 7409]، [مسلم 1438]، [أبوداؤد 2170]، [ترمذي 1138]، [أبويعلی 1050، 1250]، [ابن حبان 4191]، [الحميدي 764]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2259)
عزل کا معنی صحبت و جماع کرنے پر انزال کے وقت عضوِ مخصوص کو باہر نکال لینا ہے تاکہ منی باہر نکلے اور حمل قرار نہ پا سکے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرح سے عزل کو نا پسند فرمایا اور ارشاد ہوا کہ تمہارا یہ عمل باطل ہے، جو جان پیدا ہونے والی مقدر ہے وہ تو اس صورت میں بھی ضرور پیدا ہو کر رہے گی۔
اس حدیث سے ایسے مسائل پوچھنا بھی ثابت ہوا جن کے ذکر سے آدمی کو فطرةً شرم آئے، نیز یہ کہ اولاد دینا الله تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، بندہ کچھ نہیں جانتا اور نہ اس کو اولاد پیدا کرنے یا روکنے کا اختیار ہے۔
مرد عورت افزائشِ نسل کے اسباب ہیں، خالق تو اللہ تعالیٰ ہی ہے، عزل کو عام طور پر مکروہ سمجھا گیا ہے کیونکہ اس میں قطع اور تقليلِ نسل ہے۔
دورِ حاضر میں جو فیملی پلاننگ کے نام سے تقلیلِ نسل کے پروگرام جاری و ساری ہیں عزل سے اس کو جائز قرار دینا صحیح نہیں، تفصیل آگے آ رہی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
حدیث نمبر: 2261
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا ابن عون، عن محمد بن سيرين، عن عبد الرحمن بن بشر يرد الحديث إلى ابي سعيد الخدري، قال: قلنا: يا رسول الله، الرجل تكون له الجارية فيصيب منها، ويكره ان تحمل، افيعزل عنها؟ وتكون عنده المراة ترضع فيصيب منها ويكره ان تحمل. افيعزل عنها؟ قال: "لا عليكم ان لا تفعلوا، فإنما هو القدر". قال ابن عون: فذكرت ذلك للحسن، فقال: والله لكان هذا زجرا، والله لكان هذا زجرا!!.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ بِشْرٍ يَرُدُّ الْحَدِيثَ إِلَى أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّه، الرَّجُلُ تَكُونُ لَهُ الْجَارِيَةُ فَيُصِيبُ مِنْهَا، وَيَكْرَهُ أَنْ تَحْمِلَ، أَفَيَعْزِلُ عَنْهَا؟ وَتَكُونُ عِنْدَهُ الْمَرْأَةُ تُرْضِعُ فَيُصِيبُ مِنْهَا وَيَكْرَهُ أَنْ تَحْمِلَ. أَفَيَعْزِلُ عَنْهَا؟ قَالَ: "لَا عَلَيْكُمْ أَنْ لَا تَفْعَلُوا، فَإِنَّمَا هُوَ الْقَدَرُ". قَالَ ابْنُ عَوْنٍ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلْحَسَنِ، فَقَالَ: وَاللَّهِ لَكَأَنَّ هَذَا زَجْرٌا، وَاللَّهِ لَكَأَنَّ هَذَا زَجْرٌا!!.
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آدمی کے پاس لونڈی ہوتی ہے، وہ اس سے صحبت کرتا ہے اور نہیں چاہتا کہ اسے حمل ہو، کیا وہ اس سے عزل کر سکتا ہے؟ ایسے ہی آدمی کے پاس عورت (بیوی) ہوتی ہے اور وہ دودھ پلاتی ہے، مرد اس سے صحبت کرتا ہے اور نہیں چاہتا کہ اس کو حمل ہو، ایسی صورت میں کیا وہ اپنی بیوی سے عزل کر سکتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کچھ حرج نہیں اگر تم عزل نہ کرو، یہ تو تقدیر کی بات ہے۔ ابن عون نے کہا: میں نے یہ روایت حسن سے بیان کی تو انہوں نے کہا: اللہ کی قسم اس جملہ ( «لا عليكم») میں عزل سے باز رہنے کی تنبیہ ہے، عزل سے اس میں جھڑکنا، باز رکھنا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2270]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1441]، [نسائي 3327]، [أبويعلی 1306]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2260)
اس حدیث کا بھی یہی مفہوم نکلا کہ نطفہ قرار پانا اور بچہ پیدا ہونا اللہ تعالیٰ کی طرف سے معین ومقدر ہے، اس میں کسی کی کارستانی کا کوئی دخل نہیں، اگر اللہ تعالیٰ کو حمل ٹھہرانا ہوگا تو تم کو اس کام سے باز رکھے گا اور نطفے کو تم باہر نہ ڈال سکو گے، اور اس کام سے یہ خیال ہی نہ کرنا چاہیے کہ جب ہمارا جی چاہے گا نطفہ ٹھہرا دیں گے، یہ خام خیالی اور سراسر باطل چیز ہے۔
(وحیدی، بتصرف بسيط)۔
اس حدیث میں عزل سے کراہت کا ایک اور پہلو ہے، وہ یہ کہ عزل کرنے والا گویا تقدیر کو رد کرنے کی کوشش کرنے والا ہے۔
استاد محترم شیخ صفی الرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ شرح بلوغ المرام میں لکھتے ہیں: اور دورِ جدید کے جو ڈاکٹر رگ کاٹ کر قوتِ تولید کو قطع کر دیتے ہیں تاکہ نسل کو محدود کر دیا جائے گو قوتِ جماع اس سے باقی رہتی ہے تو اس کو عزل پر قطعاً قیاس نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ ان دونوں (حالتوں) کے درمیان عظیم فرق ہے، عزل تو وقتی اور ظنی سبب ہے نہ کہ منع حمل کے لئے حقیقی سبب، اس کے باوجود عازل تو خود مختار ہے، اگر چاہے تو یہ فعل کرے اور چاہے اسے ترک کرے، اور جہاں تک رگِ تولید کے کاٹ دینے کا تعلق ہے تو وہ ایسا سبب ہے جو قطعی ہے، نیز اس میں اللہ کی تخلیق میں بدل دینا، اور جسمانی نظام کا تبدیل ہونا، اور بعض قوی کے مطابق عمل کو باطل کرنا اور تباہ کن بیماریوں کی جانب پہنچا دینا ہے، جیسے سرطان (کینسر) کا مرض ہے جو کٹی ہوئی جگہ سے دل اور پھیپھڑے وغیرہ تک سرایت کر جاتا ہے، ہر باخبر آدمی پر اس کے برے نتائج اور آثار مخفی اور پوشیدہ نہیں (انتہیٰ کلامہ رحمہ اللہ)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.