من كتاب النكاح نکاح کے مسائل 6. باب إِذَا تَزَوَّجَ الرَّجُلُ مَا يُقَالُ لَهُ: جب کوئی شادی کر لے تو اس کے لئے کیا دعا کی جائے؟
سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں (ان کے چچا) سیدنا عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بصرہ تشریف لائے تو بنی جشم کی ایک عورت سے شادی کی، لوگوں نے عادت کے مطابق انہیں مبارکباد دی اور کہا: «بالرفاء والبنين» (یعنی خیر و برکت اور موافقت مودت اور بیٹوں کی امید کے ساتھ آپ کو شادی مبارک ہو)، اس پر انہوں نے کہا: ایسے نہ کہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں «بالرفاء و البنين» کہنے سے منع کیا ہے اور یہ حکم دیا ہے کہ یوں کہیں: «بَارَكَ اللّٰهُ لَكَ وَبَارَكَ عَلَيْكَ»، یعنی ”اللہ تعالیٰ تم کو برکت دے اور تمہارے اوپر برکت سایہ فگن رکھے۔“
تخریج الحدیث: «في القلب ميل إلى تصحيح هذا الإسناد، [مكتبه الشامله نمبر: 2219]»
یہ روایت دوسری اسانید سے صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 3371]، [ابن ماجه 1906]، [ابن السني فى عمل اليوم و الليلة 602]، [النسائي فى الكبرى 10092]، [طبراني فى الكبير 193/17، 512، 517، 518] وضاحت:
(تشریح حدیث 2209) «الرِّفَاءِ وَالْبَنِيْنَ» دولہا کے لئے کہنا بھی کچھ ایسا برا نہیں تھا، مگر چونکہ اس سے یہ نکلتا تھا کہ بیٹیوں کا پیدا ہونا انہیں پسند نہیں، اس وجہ سے ممانعت کی، بہرحال شادی کے بعد دولہا کے لئے «بَارَكَ اللّٰهُ لَكَ وَبَارَكَ عَلَيْكَ وَجَمَعَ بَيْنَكُمَا فِي خَيْر» کہنا ہی سنت ہے، کما سیأتی۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في القلب ميل إلى تصحيح هذا الإسناد
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی دولہا کو شادی کی مبارکباد دیتے تو یوں فرماتے: ” «بَارَكَ اللّٰهُ لَكَ وَبَارَكَ عَلَيْكَ وَجَمَعَ بَيْنَكُمَا فِيْ خَيْرٍ» الله تعالیٰ تمہیں برکت دے اور تمہارے اوپر برکت نچھاور کرے اور خیر کے ساتھ تم دونوں میں اتفاق رکھے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل نعيم بن حماد ولكنه لم ينفرد به بل تابعه عليه أكثر من ثقة فيصح الإسناد والله أعلم، [مكتبه الشامله نمبر: 2220]»
اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2130]، [ترمذي 1091]، [ابن ماجه 1905]، [ابن حبان 4052]، [موارد الظمآن 1284] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل نعيم بن حماد ولكنه لم ينفرد به بل تابعه عليه أكثر من ثقة فيصح الإسناد والله أعلم
|