من كتاب النكاح نکاح کے مسائل 15. باب الْمَرْأَةِ يُزَوِّجُهَا الْوَلِيَّانِ: ایک عورت کے دو ولی الگ الگ شادی کر دیں اس کا بیان
سیدنا عقبہ بن عامر یا سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس عورت کا نکاح دو ولی کر دیں (ایک ایک شخص سے اور دوسرا دوسرے شخص سے) تو وہ عورت اس کو ملے گی جس سے پہلے نکاح ہوا، اور جو شخص ایک چیز دو آدمیوں کے ہاتھ بیچے تو جس کے ہاتھ پہلے بیچی ہے اسی کو ملے گی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف الحسن لم يسمع من سمرة، [مكتبه الشامله نمبر: 2239]»
یہ حدیث سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہو یا سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ سے دونوں حالتوں میں ضعیف ہے، کیونکہ اس کی سند میں انقطاع ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2088]، [ترمذي 1110]، [نسائي 4696]، [ابن ماجه 2190، 2191، مقتصر على الطرف الثاني]، [طبراني 203/7، 6842] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف الحسن لم يسمع من سمرة
اس سند سے بھی حسن نے سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ سے ویسی ہی حدیث بیان کی جیسی اوپر ذکر کی گئی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لانقطاعه، [مكتبه الشامله نمبر: 2240]»
اس حدیث کی سند بھی ضعیف ہے کیونکہ حسن کا سماع سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں، تخریج اوپر گذر چکی ہے۔ مزید دیکھئے: [الطيالسي 1555]، [أحمد 11/5، 12، 18]، [ابن الجارود 622]، [الحاكم 35/2]، [طبراني 203/7، 6841]، [وانظر تلخيص الحبير 165/3] وضاحت:
(تشریح احادیث 2229 سے 2231) گرچہ یہ حدیث ضعیف ہے لیکن صحیح یہی ہے جو حدیث میں ذکر ہوا کہ ایک خاتون کے دو ولی جب دو مختلف آدمیوں سے مختلف اوقات میں نکاح کر دیں تو وہ عورت اس آدمی کی بیوی قرار پائے گی جس سے پہلے نکاح کیا گیا ہو اور دوسرا نکاح از خود باطل قرار پائے گا، کیونکہ شریعت نے نکاح پر نکاح کو ناجائز قرار دیا ہے، اور اگر دونوں نکاح بیک وقت کئے جائیں تو دونوں باطل قرار پائیں گے، اس میں کسی کا اختلاف نہیں، اسی طرح بیع کا معاملہ ہے، جب ایک چیز ایک شخص کے ہاتھ بک گئی تو دوسرے ولی کا بیچنا ناجائز ہوگا۔ اگر بیچا تو پہلے ولی کا ہی اعتبار ہوگا۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه
|