من كتاب النكاح نکاح کے مسائل 13. باب اسْتِئْمَارِ الْبِكْرِ وَالثَّيِّبِ: کنواری اور شادی شدہ لڑکی سے شادی کی اجازت لینے کا بیان
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مثيب عورت کا نکاح اس کے بلا مشورے کے نہ کیا جائے، اور کنواری لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بنا نہ کیا جائے، اور اس کا چپ رہنا اس کی اجازت ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2232]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5136]، [مسلم 1419]، [ترمذي 1107]، [نسائي 3272]، [أبويعلی 6019]، [ابن حبان 4079]، [موارد الظمآن 1239] وضاحت:
(تشریح احادیث 2221 سے 2223) «ثَيْب»: شادی شدہ شوہر دیدہ عورت کو کہتے ہیں جس کا شوہر وفات پا گیا ہو، یا اسے طلاق ہو گئی ہو، ایسی عورت کو ایم بھی کہتے ہیں اور ثیب بھی، اور بکر سے مراد باکره یعنی کنواری لڑکی جس نے اب تک شادی نہ کی ہو۔ اس حدیث میں «تستأمر» اور «تستأذن» کا لفظ وارد ہوا ہے۔ «حَتّٰي تُسْتَأْمَرَ» یعنی ثیب کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے مشورہ نہ کر لیا جائے، یعنی بالصراحہ اس سے معلوم کیا جائے، اور یہ اجازت و اذن لفظی ہونی چاہیے، اس میں خاموشی ناکافی رہے گی، اسی طرح یتیمہ سے مشورہ کیا جائے گا لیکن باکرہ کی طرح اس کا خاموش رہنا اس کی اجازت مانا جائے گا اور تستأذن کا مطلب بھی اجازت طلب کرنا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے دوسری سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث روایت ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2233]»
تخریج و ترجمہ اوپر گذر چکا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «ايم» شوہر دیدہ عورت اپنے (دوبارہ نکاح کے بارے میں) اپنے ولی سے زیادہ اپنے بارے میں حق رکھتی ہے، اور کنواری عورت سے مشورہ کیا جائے گا اس کے نفس (شادی) کے بارے میں، اور اس کا چپ رہنا اس کی اجازت ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده قوي وهو عند مالك في النكاح، [مكتبه الشامله نمبر: 2234]»
اس حدیث کی سند قوی ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1421]، [أبوداؤد 2098، 2100]، [نسائي 3220]، [ابن ماجه 2189]، [ابن حبان 4084]، [الحميدي 527]، [سعيد بن منصور 556]، [الطحاوي شرح معاني الآثار 11/3 و 366/4] وضاحت:
(تشریح احادیث 2223 سے 2225) یعنی ثیبہ عورت کا حجاب کھل جاتا ہے شادی کے بعد، اب اگر دوسری بار اس کی شادی کرنی ہے تو اس سے مشورہ کیا جائے گا اور وہ صراحت سے نکاح کی اجازت دے تو اس کا نکاح کیا جائے گا ورنہ نہیں، ولی بھی اس کو مجبور نہیں کر سکتا، لیکن کنواری لڑکی صراحت سے شرماتی ہے اس لئے اس کا چپ رہنا ہی اس کی اجازت مانی جائے گی۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي وهو عند مالك في النكاح
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کنواری لڑکی سے اذن لیا جائے گا اور اس کا اذن اس کا خاموش رہنا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2235]»
اس حدیث کی تخریج اوپر گذر چکی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شوہر دیدہ عورت ولی سے زیادہ اپنے معاملے کی مختار ہے، اور کنواری لڑکی سے اس کے نکاح کے بارے میں پوچھا جائے گا، اور اس کا چپ رہنا ہی اس کا اقرار ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2236]»
اس حدیث کی تخریج اوپر گزر چکی ہے۔ دیکھئے: رقم: (2225)۔ مزید دیکھئے: [أحمد 274/1]، [شرح معاني الآثار 11/3] وضاحت:
(تشریح احادیث 2225 سے 2227) شادی کی جانے والی لڑکی دو حال سے خالی نہیں: یا کنواری یا ثیبہ، پھر ہر ایک کی دو قسمیں ہیں: جوان بالغہ ہوگی یا نابالغہ، اہلِ حدیث کے نزدیک ہر صورت میں لڑکی کو اختیار ہے چاہے تو قبول کرے یا انکار کر دے، نیز یہ کہ نابالغ لڑکی کا نکاح اس کا باپ کرا سکتا ہے اور کم سنی میں عورت کا نکاح کر دینا درست ہے، لیکن بلوغت کے بعد اس کو خیار حاصل ہوگا جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کم سنی میں کر دیا تھا۔ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ شریعتِ اسلامیہ کی نظر میں عورت کی بہت اہمیت ہے اور اسلام نے اس عورت کو جس کا معاشرے میں کوئی مقام نہ تھا، اسے پستی سے نکال کر بلندی پر پہنچایا، اس کی اہمیت کو دوبالا کیا، عورت کو شادی بیاہ کے معاملے میں اس سے مشورہ لینا تو دور اسے اپنے بارے میں کچھ کہنے کی اجازت نہ تھی، سربراہ و ولی اپنی مرضی سے جس سے چاہتے تھے نکاح کر دیتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو اس کا صحیح معاشرتی مقام و منصب دیا اور سرپرستوں کو حکم دیا کہ شوہر دیده (ثیبہ) سے مشورہ ضرور کیا جائے، اور کنواری سے اس کی رضا حاصل کی جائے، اور ثیبہ کا اس کی رضا و مشورہ کے بغیر نکاح کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بغیر ولی کے اپنا نکاح کر سکتی ہے۔ ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ ثیبہ کے بارے میں ولی کا کوئی اختیار نہیں یعنی ولی شوہر دیدہ عورت کو کسی سے نکاح کے لئے مجبور نہیں کر سکتا۔ مزید تفصیل آگے ملاحظہ کیجئے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
|