من كتاب النكاح نکاح کے مسائل 37. باب في الْغَيْرَةِ: غیرت کا بیان
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”الله تعالیٰ سے زیادہ غیرت مند اور کوئی نہیں اسی لئے اس نے بےحیائی و بدکاری کے کاموں کو حرام کیا اور اللہ سے بڑھ کر کوئی اپنی مدح بھی پسند کرنے والا نہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2271]»
اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5220]، [مسلم 3760]، [أبويعلی 5123]، [ابن حبان 294] وضاحت:
(تشریح حدیث 2261) غیرت ایسی صفت ہے جو آدمی کا نفس اس کی زوجہ کی طرف سے یا زوجہ کا اپنے شوہر کی طرف سے بدل جانا اور بھڑک جانا جب وہ اس کے علاوہ کسی اور کو اپنی زیب و زینت دکھائے۔ یہ صفت اللہ تعالیٰ کے اندر بدرجہ اتم ہے جب بندہ اپنے خالق کو چھوڑ کر کسی اور کو شریک کر لے یا اس کی تعظیم کرے، یا اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو معبود بنا لے، اہلِ حدیث کے نزدیک غیرت اللہ کی ایک صفت ہے جو اپنے ظاہری معنی پر محمول ہے، اس کی تاویل نہیں کی جا سکتی، اللہ ہی اس کی حقیقت کو خوب جانتا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
ابن جابر بن عتیک نے کہا: میرے والد نے مجھ سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک غیرت کو اللہ پسند فرماتا ہے اور ایک قسم کی غیرت کو الله تعالیٰ ناپسند کرتا ہے، اور جس غیرت کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان شک کی جگہ غیرت کرے (جیسے اس کی عورت سے کوئی تنہائی میں ہنسی مذاق کرے تو اسے غیرت آ جائے) اور وہ غیرت جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں وہ یہ ہے کہ بلا شک (اور قرائن) کے بلاوجہ غیرت کرے (جیسے کوئی آدمی اس کے گھر سے نکلے اس کو بلا تحقیق کئے غیرت سے مار ڈالے)۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2272]»
اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھے۔ [أبوداؤد 2659]، [نسائي 2557]، [ابن حبان 4295]، [موارد الظمآن 1313] وضاحت:
(تشریح حدیث 2262) تہمت کی جگہ میں غیرت کرنا یعنی جہاں بدنامی کا خوف ہو، جیسے شراب خانے میں بیٹھنا، غیر محرم عورت کے ساتھ تنہا رہنا، جب انسان غیرت کرے گا تو گناہوں سے بچے گا، بے غیرتی لاد لے گا تو کچھ کرے یا ہوتا رہے اس کو فکر نہ ہوگی۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر لگی کہ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو دیکھوں تو تلوار سے مار ڈالوں، اسے کبھی نہ چھوڑوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سعد کی غیرت سے تعجب کرتے ہو؟ میں ان سے زیادہ غیرت دار ہوں اور اللہ جل جلالہ مجھ سے زیادہ غیرت دار ہے، اس نے چھپی ہوئی اور علانیہ بےشرمی کی باتوں کو (اسی غیرت ہی کی وجہ سے) حرام کیا اور الله تعالیٰ سے زیادہ کوئی شخص غیرت دار نہیں ہے، اور اللہ سے زیادہ کسی شخص کو عذر پسند نہیں ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو بھیجا خوشخبری دیتے ہوئے اور ڈراتے ہوئے (تاکہ بندے سزا سے پہلے اس کی بارگاہ میں عذر اور توبہ کر لیں) اور کسی شخص کو اللہ سے زیادہ تعریف پسند نہیں اس لئے الله تعالیٰ نے جنت کا وعدہ کیا (تاکہ بندے اس کی عبادت و تعریف کر کے جنت حاصل کریں)۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وابن عدي هو: زكريا والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2273]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 4194، 7416]، [مسلم 1499]، [السنة لابن أبى عاصم 522]، [الحاكم 358/4] وضاحت:
(تشریح حدیث 2263) سیدنا سعد بن عبادہ انصاری رضی اللہ عنہ کا واقعہ یہ تھا کہ جب آیتِ شریفہ: « ﴿وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ﴾ [النور: 4] » نازل ہوئی جس کا مطلب تھا کہ جو لوگ آزاد بیویوں پر بہتان لگائیں اور وہ ان پر گواہ نہ لا سکیں تو ان کو اسّی کوڑے لگاؤ، اس وقت سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں تو اگر ایسا حرام کام دیکھوں تو نہ جھڑکوں، نہ ہٹاؤں، نہ چار گواہ لاؤں، بلکہ اسے فوراً ہی ٹھکانے لگادوں، اتنے گواہ لاؤں گا تو وہ زنا کر کے چل دے گا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا کہ تم اپنے سردار کی غیرت کی بات سن رہے ہو۔ انصار بولے: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ان کے مزاج میں بہت غیرت ہے، ان کو ملامت نہ کیجئے، انہوں نے ہمیشہ کنواری لڑکی سے شادی کی اور اگر طلاق دے دی تو ان کی غیرت کی وجہ سے ہم میں سے کسی کو یہ جرأت نہ ہو سکی کہ اس عورت سے نکاح کرے، (راز رحمہ اللہ)۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بے شرمی سے بچنا چاہئے اور آدمی کو غیرت مند ہونا چاہیے۔ اپنے اہل و عیال میں کوئی بھی خلافِ شرع کام دیکھے تو اس کا فوراً تدارک کرے۔ اور جو آدمی برائی دیکھے پھر بھی خاموش رہے وہ ”دیوث“ ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وابن عدي هو: زكريا والحديث متفق عليه
|