من كتاب النكاح نکاح کے مسائل 19. باب مَا يَجُوزُ أَنْ يَكُونَ مَهْراً: وہ چیز جو مہر میں دی جا سکتی ہے اس کا بیان
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ اس نے اپنے نفس کو اللہ اور رسول کے لئے ہبہ کر دیا (یہ کنایہ تھا شادی کے لئے)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اب عورتوں کی حاجت نہیں“، ایک صحابی نے عرض کیا: (آپ کو حاجت نہیں تو) اس سے میری شادی کر دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اس کو مہر میں کپڑ ا دیدو“، عرض کیا: میرے پاس اور کپڑے نہیں، فرمایا: ”کچھ تو دو چاہے وہ لوہے کی انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو۔“ راوی نے کہا: اس سے بھی انہوں نے معذوری ظاہر کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں کچھ قرآن پاک یاد ہے؟“ عرض کیا: فلاں فلاں سورت یاد ہے، فرمایا: ”جاؤ، میں نے اس کو تمہاری زوجیت میں دیا، اس قرآن کے بدلے جو تمہیں یاد ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2247]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2310، 5087]، [مسلم 1425]، [أبويعلی 7521]، [ابن حبان 4093]، [الحميدي 957] وضاحت:
(تشریح حدیث 2237) اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ کپڑا، لوہے کی انگوٹھی اور قرآن کی تعلیم و حفظ مہر کے طور پر دی جا سکتی ہے، اگر یہ جائز نہ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیوں دریافت فرماتے، اور صرف قرآن پڑھانے کو حقِ مہر قائم نہ کرتے، اور اسی سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ ہر نفع بخش چیز کا مہر مقرر کرنا درست ہے، اور معمولی سے معمولی چیز بھی مہر بن سکتی ہے جیسے کپڑا اور لوہے کی انگوٹھی جس کی معمولی قیمت ہوتی ہے۔ اس سے ان لوگوں کی بھی تردید ہوئی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ مہر کا قیمت میں ہونا یا قیمت والی چیز ہی مہر ہو سکتی ہے، اس حدیث سے عورت کا کسی سے اپنی شادی کے لئے کہنا اور اپنے آپ کو شادی کے لئے پیش کرنا بھی ثابت ہوا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
|