من كتاب النكاح نکاح کے مسائل 25. باب في الْقِسْمَةِ بَيْنَ النِّسَاءِ: عورتوں کے درمیان باری تقسیم کرنے کا بیان
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باری باری رہتے ہر بیوی کے پاس اور تمام بیویوں میں انصاف قائم رکھتے اور فرماتے تھے: ”اے اللہ یہ میرا کام ہے اس امر میں جس کا میں مالک ہوں، اور تو ملامت نہ کرنا مجھے اس امر میں جس کا تو مالک ہے اور میں اس کا مالک نہیں ہوں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2253]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2134]، [ترمذي 1140]، [نسائي 3398]، [ابن ماجه 1971]، [ابن حبان 4205]، [الموارد 1305] وضاحت:
(تشریح حدیث 2243) یعنی باری باری ہر ایک کے پاس رہنے پر میں قادر ہوں، لیکن دل اگر کسی کی طرف زیادہ راغب ہے تو اس کا اختیار مجھے نہیں، اس پر میری پکڑ نہ کرنا کیونکہ یہ تیری طرف سے ہے۔ سبحان اللہ! عدل و انصاف کی کتنی شاندار تعلیم ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آدمی کو بیویوں کے ساتھ عدل و انصاف سے رہنا چاہیے اور حتی الامکان کوشش کرے کہ کسی بھی معاملے میں کسی کے ساتھ کمی یا نا انصافی نہ ہو حتیٰ کہ باری کی تقسیم بھی برابر ہو، چاہے ایک بیوی جوان ہو دوسری بوڑھی ہی کیوں نہ ہو، ہاں اگر کوئی عورت اپنی طرف سے اپنی باری کسی دوسری بیوی کو ہبہ کر دے تو پھر شوہر اس کی باری میں دوسری بیوی کے پاس رہ سکتا ہے، جیسا کہ ام المومنین سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے اپنی باری سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو دیدی تھی، دل کی محبت، لگاؤ، جماع کی خواہش اگر کسی ایک بیوی سے زیادہ ہو دوسری سے کم تو یہ چیز اختیاری نہیں، الله تعالیٰ کی طرف سے ہے، اسی لئے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے ہیں کہ ”اے الله! جس پر میرا اختیار ہے اس میں عدل و انصاف پر قائم ہوں، جس پر اختیار نہیں اس پر میری پکڑ نہ کرنا۔ “ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|