من كتاب النكاح نکاح کے مسائل 53. ۔باب فی النھی عن التحلیل حلالہ کرنے کی ممانعت کا بیان
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی حلالہ کرنے والے پر اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے اس پر۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2304]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے اور کچھ اسانید سے یہ حدیث ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 1120]، [نسائي 3416]، [أبويعلی 5054] وضاحت:
(تشریح حدیث 2294) «مُحِلْ» اور «مُحَلِّلْ» وہ شخص ہے جو طلاق دینے کی نیت سے مطلقہ ثلاثہ سے نکاح و مباشرت کرے تاکہ وہ پہلے شوہر کے لئے حلال ہوجائے، اور «مُحَلِّلْ لَهُ» سے مراد پہلا شوہر ہے جس نے تین طلاق دے دیں، اور لعنت: اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری اور پھٹکار کو کہتے ہیں، اور یہ جب اللہ اور رسول کی طرف سے ہو تو ملعون شخص راندہ درگاهِ الٰہی ہے اور لعنت گناہِ کبیرہ پر ہی ہوتی ہے۔ اس حدیث میں عورت کو پہلے شوہر کے لئے حلال کرنے کے واسطے نکاح کرنے، اور جس کے لئے حلالہ کیا گیا دونوں پر لعنت کی گئی ہے، یہ فعل بہت ہی قبیح، شرمناک، خبیث اور معیوب ہے۔ گویا عورت کرائے کی بکری ہے جب چاہا تین طلاق دے کر غیر مرد کے ہاتھ میں دے دیا تاکہ وہ اس سے حرام کاری کرے، اور پھر پہلے شوہر کے پاس لوٹ جائے، یہ کھلی ہوئی حرام کاری اور زنا کاری ہے، «حتى تنكح زوجا غيره» کا بہت غلط استعمال ہے۔ اس سلسلے میں صحیح مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی آدمی نے باری باری تین طلاق دے دی ہیں اور عدت کے بعد وہ مطلقہ عورت کسی آدمی سے طلاق کی شرط کے بنا نکاح کرے پھر وہ آدمی اپنی مرضی سے اسے طلاق دے تب وہ عورت پہلے شوہر سے شادی کر سکتی ہے، طلاق کی شرط کے ساتھ نکاح کرنا، دو چار دن استمتاع کرنا، پھر طلاق دینا یہ شرمناک فعل ہے، ایسا کرنے والے اور کرانے والے پرلعنت ہے، اور حدیث کی اصطلاح میں ایسے مفتی و فاعل کو «التيس المستعار» یعنی کرائے کا سانڈ کہا گیا ہے۔ کچھ نادان لوگ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی عدم رفع الیدین کی غیر ثابت شدہ بات کو بڑی شد و مد سے دلیل جانتے ہیں، یہاں حلالہ کے باب میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کو پسِ پشت ڈال کر مزے لوٹتے ہیں۔ اللہ انہیں ہدایت دے۔ آمین۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|