(حديث مرفوع) حدثنا عبيد الله بن عبد المجيد، حدثنا مالك، عن ابن شهاب، عن سهل بن سعد: ان عويمرا العجلاني، قال: يا رسول الله، ارايت رجلا وجد مع امراته رجلا، ايقتله فيقتلونه، ام كيف يفعل؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "قد انزل الله فيك وفي صاحبتك، فاذهب فات بها". قال سهل: فتلاعنا، وانا مع الناس عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما فرغا من تلاعنهما، قال: كذبت عليها يا رسول الله إن امسكتها، فطلقها ثلاثا قبل ان يامره رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال ابن شهاب: وكانت تلك بعد سنة المتلاعنين.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ: أَنَّ عُوَيْمِرًا الْعَجْلَانِيَّ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّه، أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، أَيَقْتُلُهُ فَيَقْتُلُونَهُ، أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "قَدْ أَنْزَلَ اللَّه فِيكَ وَفِي صَاحِبَتِكَ، فَاذْهَبْ فَأْتِ بِهَا". قَالَ سَهْلٌ: فَتَلَاعَنَا، وَأَنَا مَعَ النَّاسِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا فَرَغَا مِنْ تَلَاعُنِهِمَا، قَالَ: كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ أَمْسَكْتُهَا، فَطَلَّقَهَا ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: وَكَانَتْ تِلْكَ بَعْدُ سُنَّةَ الْمُتَلَاعِنَيْنِ.
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عویمر عجلانی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو پائے تو آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا وہ اس کو قتل کر دے؟ اس صورت میں لوگ (بدلے میں) اسے بھی قتل کر دیں گے، پھر اسے کیا کرنا چاہیے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے تمہارے اور تمہاری بیوی کے بارے میں وحی نازل کی ہے، جاؤ اور اپنی بیوی کو بھی ساتھ لے آؤ۔“ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر دونوں میاں بیوی نے لعان کیا، لوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت میں بھی موجود تھا، جب وہ دونوں لعان سے فارغ ہوئے تو سیدنا عویمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر اس کے بعد بھی میں اس کو اپنے پاس رکھوں تو اس کا مطلب ہو گا کہ میں جھوٹا ہوں، پھر انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ کہنے سے پہلے ہی اسے تین طلاق دے ڈالیں۔ ابن شہاب زہری رحمہ اللہ نے کہا: پھر لعان کرنے والوں کے لئے لعان کا یہی طریقہ رائج و جاری ہو گیا۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2265) جب مرد اپنی عورت کو زنا کی تہمت لگائے اور عورت زنا کا اقرار نہ کرے، نہ مرد گواہ لاوے اور نہ اپنی تہمت سے پھرے، تو ایسی صورت میں لعان واجب ہوتا ہے تاکہ شکوک و شبہات، نفرت و عداوت میں کسی کی بھی زندگی اجیرن نہ بنے۔ اس کی صورت قرآن پاک کے اٹھارہویں پارے سورۂ نور کے شروع میں موجود ہے کہ پہلے مرد اللہ کا نام لے کر چار بار گواہی دے کہ وہ سچا ہے، اور پانچویں بار یوں کہے کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر اللہ کی لعنت ہو، پھر عورت الله تعالیٰ کا نام لے کر گواہی دے کہ اس کا مرد جھوٹا ہے، اور پانچویں بار یوں کہے: اگر اس کا مرد سچا ہو تو اس پر اللہ کا غضب نازل ہو، جب دونوں اس طرح کی گواہیاں دے چکیں تو حاکم میاں بیوی میں جدائی کرا دے گا، پھر یہ دونوں کبھی نہیں مل سکتے۔ اگر بچہ پیدا ہو تو وہ ماں کو دلایا جائے گا اور اگر اس بچے کو کوئی ولد الزنا کہے تو اس پر حدِ قذف لگائی جائے گی، اگر شہادتیں دے دے کہ اس کا شوہر جھوٹا ہے تو اس پر زنا ثابت نہیں ہوگا اور اس کے شوہر پر حدِ قذف بھی جاری نہ ہوگی، اور اگر عورت قسم اٹھانے سے انکار کرے تو مرد کو سچا قرار دے کر عورت پر حدِ رجم جاری کی جائے گی۔ اس کا نام لعان اس لئے رکھا گیا کہ میاں بیوی دونوں اپنے اوپر لعنت کرتے ہیں، خواہ دوسرا سچا ہی ہو، لفظ غضب عورت کی جانب سے اختیار و ادا کئے جانے کا مطلب یہ ہے کہ یہ فعل لعنت کو مستلزم ہے، پس عورت کی طرف جو گناه منسوب ہے وہ زنا ہے، اس دوران مرد کا گناه قذف یعنی تہمت ہے۔ اس حدیث میں ہے «فَطَلَّقَهَا ثَلَاثًا» کہ سیدنا عویمر رضی اللہ عنہ نے اس کو تین طلاق دیدیں، یہ حدیث تین طلاق ایک ساتھ دینے اور اس کے واقع ہو جانے پر دلیل نہیں بن سکتی ہے کیونکہ جیسا کہ حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے سے پہلے ہی انہوں نے طلاق دیدی، دوسرے یہ کہ لعان سے از خود طلاق و جدائی ہو جاتی ہے۔ طلاق دینے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ سیدنا عویمر رضی اللہ عنہ کو یہ حکم معلوم نہ رہا ہو، نیز یہ کہ بعض دوسری روایات میں طلاق کا ذکر ہی نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین طلاق دینے پر انکار بھی نہ کیا کیونکہ وہ عورت رشتۂ زوجیت سے نکل چکی تھی، اب تین کیا ہزار بھی طلاق دے تب بھی بے مقصد تھیں، لعان نہ ہوا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور انکار کرتے جیسا کہ محمود بن لبید نے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے اپنی عورت کو تین اکٹھی طلاق دیدیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہوئے اور فرمایا: الله کی کتاب سے کھیل کر تے ہو حالانکہ میں ابھی تمہارے درمیان موجود ہوں۔ (اسے امام نسائی نے روایت کیا اور اس کے راوی ثقہ ہیں)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2275]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5259]، [مسلم 1492]، [أبوداؤد 2247]، [نسائي 3402]، [ابن ماجه 2066]، [ابن حبان 4284]، [شرح السنة للبغوي 2366]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه