(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا عبد الملك بن ابي سليمان، قال: سمعت سعيد بن جبير، يقول:"سئلت عن المتلاعنين في إمارة مصعب بن الزبير: ايفرق بينهما؟ فما دريت ما اقول، قال: فقمت حتى اتيت منزل عبد الله بن عمر، فقلت للغلام: استاذن لي عليه، فقال: إنه قائل لا تستطيع ان تدخل عليه، قال: فسمع ابن عمر صوتي، فقال: ابن جبير؟، فقلت: نعم، فقال: ادخل، فما جاء بك هذه الساعة إلا حاجة، قال: فدخلت عليه فوجدته وهو مفترش برذعة رحله، متوسد مرفقة او قال: نمرقة، شك عبد الله حشوها ليف، فقلت: يا ابا عبد الرحمن: المتلاعنان، ايفرق بينهما؟. قال: سبحان الله، نعم، إن اول من سال عن ذلك فلان، فقال: يا رسول الله صلى الله عليك، ارايت لو ان احدنا راى امراته على فاحشة كيف يصنع؟ إن سكت، سكت على امر عظيم، وإن تكلم فمثل ذلك؟، قال: فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم يجبه، فقام لحاجته، فلما كان بعد ذلك، اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إن الذي سالتك عنه قد ابتليت به، قال: فانزل الله تعالى هؤلاء الآيات التي في سورة النور: والذين يرمون ازواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا انفسهم فشهادة احدهم اربع شهادات بالله إنه لمن الصادقين {6} والخامسة ان لعنة الله عليه إن كان من الكاذبين {7} ويدرا عنها العذاب ان تشهد اربع شهادات بالله إنه لمن الكاذبين {8} والخامسة ان غضب الله عليها إن كان من الصادقين {9} سورة النور آية 6-9 حتى ختم هؤلاء الآيات، قال: فدعا الرجل، فتلاهن عليه، وذكره بالله، واخبره ان عذاب الدنيا اهون من عذاب الآخرة، فقال: ما كذبت عليها،. ثم دعا المراة فوعظها وذكرها، واخبرها ان عذاب الدنيا اهون من عذاب الآخرة، فقالت: والذي بعثك بالحق إنه لكاذب، فدعا الرجل فشهد اربع شهادات بالله إنه لمن الصادقين، والخامسة ان لعنة الله عليه إن كان من الكاذبين، ثم اتي بالمراة فشهدت اربع شهادات بالله إنه لمن الكاذبين والخامسة ان غضب الله عليها إن كان من الصادقين، ثم فرق بينهما".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، يَقُولُ:"سُئِلْتُ عَنِ الْمُتَلَاعِنَيْنِ فِي إِمَارَةِ مُصْعَبِ بْنِ الزُّبَيْرِ: أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا؟ فَمَا دَرَيْتُ مَا أَقُولُ، قَالَ: فَقُمْتُ حَتَّى أَتَيْتُ مَنْزِلَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، فَقُلْتُ لِلْغُلَامِ: اسْتَأْذِنْ لِي عَلَيْهِ، فَقَالَ: إِنَّهُ قَائِلٌ لَا تَسْتَطِيعُ أَنْ تَدْخُلَ عَلَيْهِ، قَالَ: فَسَمِعَ ابْنُ عُمَرَ صَوْتِي، فَقَالَ: ابْنُ جُبَيْرٍ؟، فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ: ادْخُلْ، فَمَا جَاءَ بِكَ هَذِهِ السَّاعَةَ إِلَّا حَاجَةٌ، قَالَ: فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ فَوَجَدْتُهُ وَهُوَ مُفْتَرِشٌ بَرْذَعَةَ رَحْلِهِ، مُتَوَسِّدٌ مِرْفَقَةُ أَوْ قَالَ: نُمْرُقَةً، شَكَّ عَبْدُ اللَّهِ حَشْوُهَا لِيفٌ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ: الْمُتَلَاعِنَانِ، أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا؟. قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، نَعَمْ، إِنَّ أَوَّلَ مَنْ سَأَلَ عَنْ ذَلِكَ فُلَانٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْكَ، أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ أَحَدَنَا رَأَى امْرَأَتَهُ عَلَى فَاحِشَةٍ كَيْفَ يَصْنَعُ؟ إِنْ سَكَتَ، سَكَتَ عَلَى أَمْرٍ عَظِيمٍ، وَإِنْ تَكَلَّمَ فَمِثْلُ ذَلِكَ؟، قَالَ: فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُجِبْهُ، فَقَامَ لِحَاجَتِهِ، فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ، أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ الَّذِي سَأَلْتُكَ عَنْهُ قَدْ ابْتُلِيتُ بِهِ، قَالَ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى هَؤُلَاءِ الْآيَاتِ الَّتِي فِي سُورَةِ النُّورِ: وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلا أَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ {6} وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ {7} وَيَدْرَأُ عَنْهَا الْعَذَابَ أَنْ تَشْهَدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ {8} وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ {9} سورة النور آية 6-9 حَتَّى خَتَمَ هَؤُلَاءِ الْآيَاتِ، قَالَ: فَدَعَا الرَّجُلَ، فَتَلَاهُنَّ عَلَيْهِ، وَذَكَّرَهُ بِاللَّهِ، وَأَخْبَرَهُ أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ، فَقَالَ: مَا كَذَبْتُ عَلَيْهَا،. ثُمَّ دَعَا الْمَرَأَةَ فَوَعَظَهَا وَذَكَّرَهَا، وَأَخْبَرَهَا أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ، فَقَالَتْ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ إِنَّهُ لَكَاذِبٌ، فَدَعَا الرَّجُلَ فَشَهِدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنْ الصَّادِقِينَ، وَالْخَامِسَةَ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ، ثُمَّ أُتِيَ بِالْمَرْأَةِ فَشَهِدَتْ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ، ثُمَّ فَرَّقَ بَيْنَهُمَا".
عبدالملک بن ابی سلیمان نے کہا: میں نے سنا سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے وہ کہہ رہے تھے کہ مجھ سے مصعب بن زبیر کے دور امارت میں لعان کرنے والوں کے بارے میں پوچھا گیا: کیا ان کے درمیان جدائی کرائی جائے گی؟ مجھے حیرت ہوئی کیا جواب دوں، لہٰذا میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے مکان کی طرف گیا اور غلام سے کہا: مجھے اندر جانے کی اجازت لاؤ، اس نے کہا: اس وقت وہ آرام فرما رہے ہیں اور آپ اندر داخل نہیں ہو سکتے۔ سعید نے کہا: سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے میری آواز سن لی اور کہا: کیا ابن جبیر ہیں؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں، انہوں نے کہا: آ جاؤ، اس وقت تم کسی ضروری بات کے ہی لئے آئے ہوں گے۔ میں اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ وہ ایک کمبل بچھائے بیٹھے تھے اور ایک تکیہ پر ہاتھ سے ٹیک لگائے ہوئے جو کھجور کی چھال سے بھرا ہوا تھا، میں نے عرض کیا: اے ابوعبدالرحمٰن! کیا لعان کرنے والوں میں جدائی کرانی ہو گی؟ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: سبحان اللہ بے شک جدائی کی جائے گی اور سب سے پہلے اس بارے میں فلاں بن فلاں نے پوچھا تھا، اس نے کہا: یا رسول اللہ! اللہ کی رحمتیں ہوں آپ پر، بتایئے کوئی آدمی اپنی بیوی کو زنا کرتے دیکھے تو کیا کرے گا؟ اگر چپ رہ جائے تو اتنی بڑی بات پر کیسے چپ رہے اور اگر منہ سے ایسی بات نکالے تو بری بات نکالے گا۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور اسے کوئی جواب نہیں دیا، پھر اپنی کسی ضرورت سے اٹھ گئے، پھر (ایک دن) وہ شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں نے جس بارے میں آپ سے سوال کیا تھا، خود اس میں مبتلا ہو گیا، تب الله تعالیٰ نے سورہ نور کی یہ آیتیں نازل فرمائی: «﴿وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ ......﴾»[نور: 6/24-11] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیتیں پڑھ کر ختم کیں اور اس شخص کو بلا کر اس کو پڑھ کر سنائیں، اور اس کو نصیحت کی، اللہ کی یاد دلائی اور بتایا کہ ”دیکھو دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے آسان ہے (یعنی اگر جھوٹی تہمت اپنی بیوی پر لگا رہا ہے تو بتا دے، صرف حد قذف کے اسی کوڑے ہی پڑیں گے، مگر یہ جہنم میں جلنے سے آسان ہے)“، وہ بولا: نہیں، میں جھوٹ نہیں بولا ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بیوی کو بلایا اور اس کو ڈرایا اور سمجھایا اور فرمایا: ”دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے سہل ہے“، اس نے کہا: قسم اس ذات کی جس نے آپ کو سچائی کے ساتھ بھیجا ہے، میرا خاوند جھوٹ بول رہا ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کو بلایا، اس نے اللہ کے نام کے ساتھ چار بار گواہی دیں کہ وہ سچا ہے اور پانچویں بار میں یہ کہا کہ: اللہ کی پھٹکار ہو اس پر اگر وہ جھوٹا ہو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو بلایا، اس نے اللہ کے نام کے ساتھ چار گواہیاں دیں کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے اور پانچویں بار میں کہا کہ: اگر وہ سچا ہو تو اس (بیوی) کے اوپر الله کا غضب ٹوٹے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان جدائی کرا دی۔
وضاحت: (تشریح احادیث 2266 سے 2268) «ثُمَّ فَرَّقَ بَيْنَهُمَا» سے بعض لوگوں نے استدلال کیا کہ لعان کرنے والے میاں بیوی کے درمیان تفریق حاکمِ وقت کے بغیر نہیں ہو سکتی، اور جمہور علماء امام مالک و امام شافعی و امام احمد رحمہم اللہ و دیگر بہت سے علماء نے کہا کہ فقط لعان سے تفریق ہو جائے گی اور «فَرَّقَ بَيْنَهُمَا» کا مطلب یہ ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تفریق کا اظہار فرمایا اور حکمِ شرع بیان کیا، یہ نہیں کہ نئے سرے سے فرقت و جدائی کرائی، دلیل کے اعتبار سے جمہور کا قول ہی راجح اور بہتر ہے۔ اس حدیث سے اور بہت سارے مسائل نکلتے ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں: آدمی کو فرضی مسائل نہیں پوچھنے چاہئے، مبادا وہ اس میں مبتلا ہو جائے جیسا کہ مذکورہ بالا واقعہ میں ہوا، دوسرے یہ کہ بلا علم فتویٰ نہیں دینا چاہیے، لعان کرانے سے پہلے امام، قاضی یا حاکم کو چاہیے متلاعنین کو نصیحت کریں، اور عذابِ الٰہی سے ڈرانا چاہیے، دوسرے یہ کہ لعان میں پہل شوہر سے کرنی چاہیے، وہ پہلے قسم کھائے اس کے بعد عورت گواہی دے گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2277]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1493]، [ترمذي 1202]، [نسائي 3473]، [أبويعلی 5656]، [ابن حبان 4286]