سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شوہر دیدہ عورت ولی سے زیادہ اپنے معاملے کی مختار ہے، اور کنواری لڑکی سے اس کے نکاح کے بارے میں پوچھا جائے گا، اور اس کا چپ رہنا ہی اس کا اقرار ہے۔“
وضاحت: (تشریح احادیث 2225 سے 2227) شادی کی جانے والی لڑکی دو حال سے خالی نہیں: یا کنواری یا ثیبہ، پھر ہر ایک کی دو قسمیں ہیں: جوان بالغہ ہوگی یا نابالغہ، اہلِ حدیث کے نزدیک ہر صورت میں لڑکی کو اختیار ہے چاہے تو قبول کرے یا انکار کر دے، نیز یہ کہ نابالغ لڑکی کا نکاح اس کا باپ کرا سکتا ہے اور کم سنی میں عورت کا نکاح کر دینا درست ہے، لیکن بلوغت کے بعد اس کو خیار حاصل ہوگا جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کم سنی میں کر دیا تھا۔ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ شریعتِ اسلامیہ کی نظر میں عورت کی بہت اہمیت ہے اور اسلام نے اس عورت کو جس کا معاشرے میں کوئی مقام نہ تھا، اسے پستی سے نکال کر بلندی پر پہنچایا، اس کی اہمیت کو دوبالا کیا، عورت کو شادی بیاہ کے معاملے میں اس سے مشورہ لینا تو دور اسے اپنے بارے میں کچھ کہنے کی اجازت نہ تھی، سربراہ و ولی اپنی مرضی سے جس سے چاہتے تھے نکاح کر دیتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو اس کا صحیح معاشرتی مقام و منصب دیا اور سرپرستوں کو حکم دیا کہ شوہر دیده (ثیبہ) سے مشورہ ضرور کیا جائے، اور کنواری سے اس کی رضا حاصل کی جائے، اور ثیبہ کا اس کی رضا و مشورہ کے بغیر نکاح کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بغیر ولی کے اپنا نکاح کر سکتی ہے۔ ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ ثیبہ کے بارے میں ولی کا کوئی اختیار نہیں یعنی ولی شوہر دیدہ عورت کو کسی سے نکاح کے لئے مجبور نہیں کر سکتا۔ مزید تفصیل آگے ملاحظہ کیجئے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2236]» اس حدیث کی تخریج اوپر گزر چکی ہے۔ دیکھئے: رقم: (2225)۔ مزید دیکھئے: [أحمد 274/1]، [شرح معاني الآثار 11/3]