(حديث مرفوع) اخبرنا ابو المغيرة، حدثنا الاوزاعي، حدثني يحيى، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا تنكح الثيب حتى تستامر، ولا تنكح البكر حتى تستاذن، وإذنها الصموت".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تُنْكَحُ الثَّيِّبُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ، وَلَا تُنْكَحُ الْبِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ، وَإِذْنُهَا الصُّمُوتُ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مثيب عورت کا نکاح اس کے بلا مشورے کے نہ کیا جائے، اور کنواری لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بنا نہ کیا جائے، اور اس کا چپ رہنا اس کی اجازت ہے۔“
وضاحت: (تشریح احادیث 2221 سے 2223) «ثَيْب»: شادی شدہ شوہر دیدہ عورت کو کہتے ہیں جس کا شوہر وفات پا گیا ہو، یا اسے طلاق ہو گئی ہو، ایسی عورت کو ایم بھی کہتے ہیں اور ثیب بھی، اور بکر سے مراد باکره یعنی کنواری لڑکی جس نے اب تک شادی نہ کی ہو۔ اس حدیث میں «تستأمر» اور «تستأذن» کا لفظ وارد ہوا ہے۔ «حَتّٰي تُسْتَأْمَرَ» یعنی ثیب کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے مشورہ نہ کر لیا جائے، یعنی بالصراحہ اس سے معلوم کیا جائے، اور یہ اجازت و اذن لفظی ہونی چاہیے، اس میں خاموشی ناکافی رہے گی، اسی طرح یتیمہ سے مشورہ کیا جائے گا لیکن باکرہ کی طرح اس کا خاموش رہنا اس کی اجازت مانا جائے گا اور تستأذن کا مطلب بھی اجازت طلب کرنا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2232]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5136]، [مسلم 1419]، [ترمذي 1107]، [نسائي 3272]، [أبويعلی 6019]، [ابن حبان 4079]، [موارد الظمآن 1239]